لبنان اور اسرائیل کے مابین پہلی بار سویلین سطح پر بات چیت؛ خطے میں نئی سفارتی ہلچل
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لبنان اور اسرائیل کے درمیان سویلین سطح پر کئی دہائیوں کی کشیدگی کے بعد پہلی بار آمنے سامنے بیٹھ کر براہِ راست بات چیت ہوئی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق اسرائیلی حکام نے تصدیق کی ہے کہ نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے اس ملاقات کو تاریخی قرار دیا ہے۔ دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں پر جاری مظالم اور اسرائیلی جارحیت کے پس منظر میں یہ پیش رفت مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی نقشے پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہے، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میڈیا ذرائع کے مطابق یہ ملاقات اقوامِ متحدہ کی امن فورس کے مرکزی دفتر ناقورہ میں ہوئی، جہاں 2024 میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کی نگرانی کا سلسلہ جاری ہے۔
واضح رہے کہ برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان رابطہ صرف فوجی افسران تک محدود تھا، تاہم اس بار پہلی مرتبہ سویلین نمائندوں کو شامل کرنا اس بات کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے کہ فریقین اندرونی سطح پر کسی نئے سفارتی راستے پر غور کر رہے ہیں، جس سے مستقبل میں کشیدگی کم کرنے یا کسی نئے فریم ورک تک پہنچنے کی کوششیں جنم لے سکتی ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی ترجمان شوش بدرسیان کے مطابق اس ملاقات کو ’’لبنان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اور معاشی تعاون کی راہ ہموار کرنے کی ابتدائی کوشش‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دے رہا ہے، تاہم خطے کے حالات، خاص طور پر غزہ اور فلسطین پر جاری اسرائیلی حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال اس تمام بیانیے پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی کھڑا کرتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک اسرائیل ایسے رابطوں کو اپنے بین الاقوامی تاثر کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اس کی پالیسیوں میں کوئی نرمی نظر نہیں آتی۔
امریکی سفارتخانے نے بھی اس ملاقات میں اپنی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔
واضح رہے کہ واشنگٹن طویل عرصے سے لبنان پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ حالیہ پیش رفت میں امریکا کے کردار پر بھی سوالات موجود ہیں کیونکہ خطے میں اس کے اسٹریٹجک مفادات اکثر حقیقت پسندانہ امن کے برعکس ہوتے ہیں۔
اُدھر لبنان کے صدر جوزف عون کے دفتر کے مطابق لبنان کی جانب سے سابق سفیر سیمون کرم نے مذاکرات میں نمائندگی کی جب کہ اسرائیل نے بھی اپنی جانب سے ایک غیر فوجی رکن کو شامل کیا۔ لبنان نے مستقبل کے مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور اسرائیل کے مطابق
پڑھیں:
اسرائیل کی غزہ پر مکمل قبضے اورخصوصی فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251203-01-26
غزہ (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے باوجود جنگ دوبارہ شروع کرنے، غزہ پر مکمل قبضہ کرنے یا یلو لائن کے ساتھ رہنے اور غزہ کے باقی ماندہ حصے میں خصوصی فوجی آپریشن جیسے آپشنز پر غور شروع کر دیا۔عالمی میڈیا نے اسرائیلی نشریاتی ادارے کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی فوج کا خیال ہے کہ امریکا کے پاس اب تک فلسطینی مجاہدین کو غیر مسلح کرنے کا کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے اور وہ اپنی طاقت بحال کرنے کے لیے کام کر رہے ہیںجب کہ اسرائیلی فوج انہیں اس سے روکنا چاہتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل اب بھی فلسطینی مجاہدینکے ہتھیار ڈالنے اور گرفتاری کے بعد ان کے غزہ سے نکل جانے پر اصرار کر رہا ہے جب کہ ایک سابق امریکی انتظام جس میں فلسطینی مجاہدین کے رفح سے اسرائیلی فوج کے کنٹرول سے باہر کے علاقوں میں نکلنے کی تجویز دی گئی تھی ناکام ہوچکا ہے۔امریکی سرپرستی میں مصر اور قطر کی معاونت اور ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے مطابق اسرائیلی افواج تباہ حال غزہ کے تقریباً 55 فیصد حصے کو کنٹرول کر رہی ہیں اور اس وقت یلو لائن سے پیچھے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل امریکی منصوبے کے دوسرے مرحلے میں منتقلی میں تاخیر کر رہا ہے، اس مرحلے میں غزہ میں بین الاقوامی افواج کی تعیناتی اور غزہ کی پٹی کے معاملات کو چلانے کے لیے سویلین حکومت کی تشکیل شامل ہے۔اسرائیل رفح میں پھنسے ہوئے مجاہدین کے مسئلے کو حل کرنے اور انہیں غیر مسلح کرنے پر بضد ہے۔علاوہ ازیں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ شام سے دمشق اور ہرمن تک مکمل غیر عسکری بفر زون کا مطالبہ کرتے ہیں ، ہم دہشت گرد کارروائیاں روکنے کے لیے اقدامات جاری رکھیں گے۔قبل ازیں غزہ میں اسرائیلی ڈرون حملے میں ایک ایسے نوجوان کو نشانہ بنایا گیا جس کا مشغلہ شادیوں میں فوٹوگرافی کرنا تھا اور جو اپنے شہر کو صہیونی ریاست کے ہاتھوں تباہ و برباد دیکھ کر ڈاکومینٹریز بنانے لگا تھا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق محمود وادی نامی یہ نوجوان بھی تابناک مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے جدید فوٹو گرافی میں کیریئر بنانا چاہتا تھا، اکتوبر 2023 ء میں اسرائیلی بمباری اور اس میں خواتین اور بچوں کے شہید ہونے کے المناک واقعات نے محمود وادی کے مقصدِ حیات کو ہی بدل کر رکھ دیا۔وہ اپنی تمام صلاحیتیں غزہ کی تباہ حالی اور شہر کے اجڑنے پر ڈاکومنٹریز بنانے میں صرف کرنے لگا تھا جو صہیونی ریاست کو ایک آنکھ نہ بھایا۔اسرائیلی فوج نے خان یونس کے علاقے میں محمود وادی کو جاسوس ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا جس میں نوجوان فوٹوگرافر شہید ہوگیا، محمود وادی کا قصور بس اتنا تھا کہ اس نے سوشل میڈیا پر اپنا اکاؤنٹ القدس کے نام سے بنایا اور ڈرون کی مدد سے شْوٹ کی گئی وڈیوز اپ لوڈ کرتا تھا۔ان وڈیوز میں غزہ کی اْن بستیوں کو دکھایا گیا تھا جو اسرائیلی بمباری سے قبل جیتے جاگتے شہر تھے لیکن اب کھنڈر میں تبدیل ہوچکے ہیں، یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیلی حکومت نے کسی ایسے شخص کو چْن کر نشانہ بنایا گیا ہو جو غزہ کی حقیقی صورت حال دنیا کے سامنے لا رہا ہو۔