انجینئر مرزا کو گستاخی کا مرتکب قرار دینے کی سی آئی آئی کی رائے پر حکم امتناع برقرار
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ نے انجینئر محمد علی مرزا کو گستاخی کا مرتکب قرار دینے کی اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے پر حکمِ امتناع برقرار رکھا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے پر حکمِ امتناع برقرار رہے گا، عدالت اسلامی نظریاتی کونسل کے اختیارات کو معطل نہیں کر رہی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل منصور اعوان کو عدالتی معاونت کے لیے طلب کر لیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل سے کہیں کہ وہ عدالت میں پیش ہوں، یہ بہت اہم معاملہ ہے، اٹارنی جنرل پیش ہو کر ریاست کا موقف پیش کریں، ہم دیکھ لیں کہ ریاست کی اِس متعلق تشریح کیا ہے۔
ہائیکورٹ کے جسٹس محسن کیانی نے ریمارکس دیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے صدر، گورنر اور پارلیمان کو بھیجی جا سکتی ہے، کونسل کے رولز میں رائے صرف پارلیمان کو بھیجنے کا تذکرہ ہے، پارلیمان کو معاملہ بھیجنا تھا آپ نے ایک ایس ایچ او کو کیسے بھیج دیا؟
وکیل اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ ہماری ہر رائے پارلیمنٹ کو ہی جاتی ہے کوئی بھی چیز ہو وہ وہاں پیش کی جاتی ہے۔
عدالتی روسٹرم پر فون نکالنے پر جسٹس محسن کیانی اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندے پر برہم ہوگئے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اپنا فون بند کریں اور نیچے رکھیں۔
انجینئر محمد علی مرزا کے خلاف مقدمے کا مدعی سماعت کے دوران عدالت میں پیش ہوا۔ مدعی مقدمہ نے کہا کہ میں اِس معاملے پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں؟ مدعی مقدمہ نے بتایا کہ میں محمد علی مرزا کے خلاف مدعی ہوں، میری درخواست پر مقدمہ درج ہوا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ شکریہ، آپ پیچھے بیٹھ جائیں آپ کو اس وقت نہیں سن سکتے، اس وقت ہم اسلامی نظریاتی کونسل کے اختیارات پر بات کر رہے ہیں۔
عدالت نے نمائندہ کونسل سے استفسار کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے جو رائے دی کیا اُس کے لیے آپ گواہی بھی دیں گے؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کرمنل کیس کی بات کر رہے ہیں، ڈاکٹر بھی اپنی رائے دیتا ہے اور وہ گواہ ہوتا ہے۔
نمائندہ کونسل نے بتایا کہ سپریم کورٹ بھی ایک کیس میں اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگ چکی اور ہم نے رائے دی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کورٹ آپ کو کہہ سکتی ہے اور آپ کورٹ کو بتا بھی سکتے ہیں۔
درخواست گزار وکیل نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس کوئی کام ہے نہیں، یہ اپنا جواز پیش کرنے کے لیے یہ کچھ کرتے ہیں۔
نمائندہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کا عہدہ خالی ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیا عدالت چیئرمین کی تعیناتی کیلئے آرڈر پاس کرے؟ چیئرمین نہیں تو آپ خود اپنا چیئرمین مقرر کرانے کے لیے کوشش کریں۔
عدالت نے کیس کی سماعت موسمِ سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے اسلامی نظریاتی کونسل کے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ کونسل نے کے لیے
پڑھیں:
پینشن کی عدم ادائیگی پر سابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت
سابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان اختر بلند رانا کیخلاف عدالتی حکم کے باوجود پینشن کی عدم ادائیگی پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس محسن اختر کیانی نے سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے تیمور اسلم ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے مطابق سابق آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا کو پینشن کی ادائیگی کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ پینشن کی شیٹ بنا کر لے آئیں اور بتائیں کہ کتنے پیسے بنتے ہیں اور کب دیں گے؟
جوائنٹ سیکرٹری فنانس ڈویژن کا کہنا تھا کہ ہمارا اس کیس سے کچھ لینا دینا نہیں، صرف متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کو پالیسی گائیڈ لائن جاری کرتے ہیں جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ عام سے سرکاری ملازم کی پینشن کا معاملہ ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شخص کسی بھی ڈیپارٹمنٹ سے ریٹائر ہوتا ہے تو پینشن اس کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ سے جاری ہونی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہدایت جاری کیں کہ سول سرونٹ کے جو واجبات بنتے ہیں وہ ادا کر دیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ میں اکاؤنٹنٹ جنرل اور آڈیٹر جنرل کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا نہیں چاہتا۔ میں توہین عدالت کا اختیار استعمال نہیں کرتا چاہتا کہ پبلک سرونٹ کو کوئی نقصان ہو۔ میں ان دونوں کو ذاتی حیثیت میں طلب کر کے ان کو بات سمجھتا دیتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ایک آرڈر ہے اس سے آپ اتفاق کریں یا نہیں، اس پر عمل ہونا ہے، عدالتی حکم ابھی تک نا معطل اور نا ہی کسی کورٹ سے کالعدم ہوا ہے، آپ آٹھ ماہ میں اپنا کیس لگوا کر عدالتی حکم معطل نہیں کروا سکے۔
عدالت نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت بارہ دسمبر تک ملتوی کر دی۔