سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کرکے نہیں بنائی گئی۔ عدالت کے اس تبصرہ سے ایک ایسے جھوٹ کا پردہ فاش ہوگیا جسکو ہندو تنظیموں نے خوب پھیلایا، مسلمانوں کے بارے میں نفرت پیدا کی گئی اور فرقہ پرستوں کی ایک جارح اور شدت پسند فوج تیار کردی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 1528ء میں بابری مسجد تعمیر کروائی تھی۔ یہ دور شہنشاہ بابر کا تھا۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں نے بابری مسجد کو سب سے پہلے 27 مارچ 1932ء کو گائے کشی کے نام پر نشانہ بنایا تھا۔ پھر اس کے 60 سال بعد چھ دسمبر 1992ء کو ہندو کارکنوں نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔ گزشتہ 33 سال سے ہر برس 6 دسمبر کو "رام جنم بھومی" کی حامی تنظیمیں "شوریہ دیوس" اور مسلم تنظیمیں "یوم سیاہ" کے طور پر مناتے آرہے ہیں۔ اسی سال بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر مکمل ہوئی اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اس کا افتتاح کیا۔

سپریم کورٹ آف انڈیا نے 9 نومبر 2019ء کو ایودھیا میں 1949ء میں مسجد میں مورتیاں رکھے جانے اور مسجد کے انہدام کو غیر قانونی فعل قرار دیا تھا۔ باوجود بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بی جے پی کے لیڈر اور ہندو کارکنوں کو تحقیقاتی ایجسنی "سی بی آئی" کی عدالت نے بری کردیا، اس معاملے میں ملزم ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمین کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا تھا کہ ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کر کے نہیں بنائی گئی۔ عدالت کے اس تبصرہ سے ایک ایسے جھوٹ کا پردہ فاش ہوگیا جس کو ہندو تنظیموں نے خوب پھیلایا، مسلمانوں کے بارے میں نفرت پیدا کی گئی اور فرقہ پرستوں کی ایک جارح اور شدت پسند فوج تیار کر دی گئی۔

سپریم کورٹ نے اپنے حتمی فیصلے میں رام مندر کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی سات ججوں کی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ اراضی کو ہندو فریق رام لیلا کے حوالے کرنے کا فیصلہ جب کہ مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لئے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا حکومت کو حکم دیا۔ واضح رہے کہ ممبئی فسادات کی تحقیقات کرنے والے بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس بی این سری کرشنا کمیشن نے بھی مسجد میں 1949ء میں مورتیاں رکھنا اور 1992ء میں مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی کی "رتھ یاترا" کو بھی مسجد کے انہدام کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ لیکن کمیشن کی سفارشات کے باوجود قصورواروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

ایسا یقین دلایا گیا تھا کہ بابری مسجد کے بعد ملک کی کسی دیگر مسلم عبادت گاہ پر دعویٰ نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ آف انڈیا پہلے ہی 1991ء میں ایک فیصلہ دے چکی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ 1947ء سے عبادت گاہوں کی مذہبی نوعیت کو برقرار رہنا چاہیئے، لیکن بابری مسجد کے بعد بھی مسلم عبادت گاہوں، بزرگان دین کے مزاروں پر ہندو تنظیموں کے دعویٰ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ، دھار کی کمال مولیٰ مسجد، سنبھل کی شاہی جامع مسجد، بدایوں کی تاریخی جامع مسجد، اجمیر کی مشہور خواجہ معین الدین حسن چشتی کی درگاہ اور دہلی کی تاریخی جامع مسجد شامل ہیں۔

بابری مسجد انہدام کی 33ویں برسی کے سلسلے میں آج بھی ضلع انتظامیہ نے سنبھل اور متھرا میں بھی ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ شری کرشن جنم بھومی اور شاہی عیدگاہ مسجد کے اردگرد ڈرون کیمروں سے نگرانی کی جا رہی ہے۔ مندر کے تمام دروازوں سے گزرنے والے ہر شخص کی جانچ کی جا رہی ہے۔ جمعرات کی شام دیر گئے، ضلعی انتظامیہ نے مندروں کے اردگرد بنائے گئے ہوٹلوں، ڈھابوں اور دھرم شالوں کو بھی چیک کیا تھا۔ متھرا میں بھی بابری مسجد انہدام کی برسی کے حوالے سے الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ شاہی عیدگاہ مسجد کے اطراف کے علاقوں میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ بی ڈی ایس ٹیم اور ڈاگ اسکواڈ نے چیکنگ کی۔

دوسری جانب شاہی عیدگاہ مسجد کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی احتیاط برتی جارہی ہے۔ شری کرشنا جنم بھومی مندر کمپلیکس کے علاقے کو کئی زون اور کئی سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سادہ لباس میں پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ پولیس فورس کے ساتھ سی آئی ایس ایف جوان پی اے سی بھی تعینات ہے۔ ضلعی انتظامیہ سوشل میڈیا واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام کی نگرانی کر رہی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے کچھ روز قبل سماج دشمن عناصر کے خلاف اپیل جاری کی تھی۔ کسی بھی قسم کی افواہ پھیلانے یا فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ جاری کیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ ا ف انڈیا شاہی عیدگاہ کے خلاف مسجد کے کو ہندو کو بھی

پڑھیں:

نہرو بابری مسجد کوسرکاری پیسوں سے بنانا چاہتے تھے،راجناتھ سنگھ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وڈودرا: بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے حوالے سے اہم بیان دیا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ جواہر لال نہرو بابری مسجد کو سرکاری فنڈز سے دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ان کے خیال کی مخالفت کی۔

انہوں نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ ایک سچے سیکولر نظریے کے حامل آدمی تھے۔

 سردار ولبھ بھائی پٹیل کی 150ویں یوم پیدائش کے موقع پر نوجوانوں کے امور اور کھیل کی وزارت کے تحت میرا یووا (ایم وائی) بھارت نے “ایکتا مارچ” کا اہتمام کیا، جس کے ایک حصے کے طور پر منگل کو “سردار سبھا” کا انعقاد کیا گیا۔

راج ناتھ سنگھ نے یہ باتیں گجرات کے شہر وڈودرا میں منعقدہ ”سردار سبھا“ میں ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ کو یاد کرتے ہوئے کہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ سردار پٹیل نے کبھی برادریوں کو مطمئن کرنے کی کوشش نہیں کی، جبکہ نہرو نے ضلع گر سومناتھ میں سومناتھ مندر کی تعمیر نو پر سوال اٹھایا۔

راجناتھ سنگھ نے مزید کہا کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل صحیح معنوں میں سیکولر تھے۔ وہ کبھی تسکین پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

جب جواہر لال نہرو نے عوامی فنڈز سے بابری مسجد کی تعمیر کا مسئلہ اٹھایا تو صرف گجرات میں پیدا ہونے والے سردار ولبھ بھائی پٹیل نے اس کی مخالفت کی۔

انہوں نے عوامی فنڈز سے بابری مسجد کی تعمیر کو روکا۔

 وزیر دفاع نے نوٹ کیا کہ گرنے والے سومناتھ مندر کی تعمیر نو کے درمیان پہلے مماثلت پائی گئی تھی، لیکن پٹیل نے دونوں صورتوں کے درمیان مماثلت کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ سومناتھ مندر کو سرکاری فنڈز کے بجائے عطیات سے دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ نہرو نے سومناتھ مندر کی تعمیر نو پر سوال اٹھایا تھا۔

 جب سوال کیا گیا تو سردار نے واضح کیا کہ سومناتھ مندر ایک الگ معاملہ ہے۔ عوام نے 30 لاکھ روپے عطیہ کیے، ایک ٹرسٹ قائم ہوا، سرکاری پیسے کا ایک پیسہ بھی استعمال نہیں ہوا۔

 اتر پردیش کے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر پر بیان کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ رام مندر بھی سرکاری فنڈز سے نہیں بنایا گیا تھا، اس کا سارا خرچ اس ملک کی عوام نے اٹھایا۔

ویب ڈیسک Faiz alam babar

متعلقہ مضامین

  • بابری مسجد کی شہادت نے بھارت کے سیکولر دعوﺅں کی قلعی کھول دی تھی، حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ
  • بابری مسجد کی شہادت کو 33 سال مکمل، زخم آج بھی تازہ
  • بھارت میں انتہاپسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت کو 33 سال بیت گئے
  • بابری مسجد ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے، ترجمان دفترخارجہ
  • پاکستان کا عالمی برادری سے مطالبہ: بابری مسجد کے تحفظ کیلیے کردار ادا کرے
  • بابری مسجد ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے: دفترِ خارجہ
  • بابری مسجد ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے؛ پاکستان
  • نہرو بابری مسجد کوسرکاری پیسوں سے بنانا چاہتے تھے،راجناتھ سنگھ
  • اترپردیش، سنبھل شاہی جامع مسجد کیس کی سماعت 8 جنوری کو ہوگی