پاکستان میں بچوں میں پیدائشی طور پر دل کے امراض میں تیزی سے اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT
کراچی:
پاکستان میں بچوں میں پیدائشی طور پر دل کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔
اس حوالے سے این آئی سی وی ڈی کی اسسٹنٹ پروفیسر اور پیڈیاٹرک کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر عالیہ کمال احسن نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں سالانہ تقریباً 40 سے 60 ہزار بچے دل کے امراض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ عام بیماری ٹیٹرالوجی آف فالوت (ٹوف) ہے جس میں دل کی بناوٹ چار جگہوں سے خراب ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 10 سے 12 فیصد یعنی تقریباً 4,000 سے 7,000 بچے ٹوف کے مریض ہوتے ہیں۔ اگر اس مرض کی بروقت تشخیص اور سرجری نہ ہو تو بچے کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے جبکہ کزن میرج اس مسئلے کے خطرات میں مزید اضافہ کرتی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ این آئی سی وی ڈی میں روزانہ دو ٹوف کی اوپن ہارٹ سرجریز اور دو شنٹس (کلوز ہارٹ سرجریز) کی جاتی ہیں جبکہ سالانہ ہزاروں سرجریز کی جاتی ہیں۔ ٹوف میڈیکل طور پر نہیں بلکہ سرجیکل بیماری ہے۔ اس میں دل کے سراخ، پلمونری والوز کا میل الائنمنٹ، ایورٹا کی اوور رائڈنگ، وی ایس ڈی (VSD) اور ہائپر ٹرافی جیسے چار مسائل پائے جاتے ہیں۔ یہ مرض صرف سرجری کے ذریعے علاج کیا جا سکتا ہے اور اس کا میڈیکل علاج مؤثر نہیں ہے۔
ڈاکٹر عالیہ کمال احسن نے بتایا کہ اگر بروقت سرجری نہ کروائی جائے تو ایک سال کے اندر بچوں میں شرح اموات 40 فیصد تک ہے، اگر سرجری کروا دی جائے تو اگلے چالیس سال میں صرف 1% موت کا خطرہ رہ جاتا ہے، یعنی سرجری سے زندگی میں بہت واضح بہتری آتی ہے۔ این آئی سی وی ڈی کے پیڈیاٹرک سرجنز کے لیے یہ سرجری سب سے عام اور روٹین کی سرجری سمجھی جاتی ہے تاہم اس بیماری کا اسپیکٹرم بہت وسیع ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہر بچے میں ٹوف فوراً ظاہر نہیں ہوتا۔ کچھ بچوں میں تشخیص چار ماہ کی عمر میں ہوتی ہے، کچھ بچے صبح کے وقت، نہاتے ہوئے یا روتے ہوئے نیلے پڑ جاتے ہیں، جب کہ کچھ پیدائش کے وقت ہی نیلے ہوتے ہیں جو ٹوف کی شدید قسم ٹوف وِد پلمونری اٹریسیا ہوتی ہے۔ کچھ بچوں میں نیلا پن ظاہر نہیں ہوتا، ایسے بچوں کو پنک ٹوف کہا جاتا ہے، لیکن اُن میں وقت کے ساتھ سانس کے مسائل بڑھنے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر عالیہ نے کہا کہ ٹوف کے مریضوں میں پلمونری والوز کو ٹریس کیا جائے تو وہ اکثر لیک ہونے لگتے ہیں تاہم ہمارے سرجنز میں یہ شرح بین الاقوامی شرح کے مقابلے میں کم ہے جس پر این آئی سی وی ڈی تحقیق بھی کر چکا ہے۔ اس لیکیج کی تین درجے ہوتے ہیں جن میں مائلڈ، ماڈریٹ اور سیویئر شامل ہیں، اگر والوز بہت زیادہ لیک ہوں تو دائیں ویٹل (RV) فیل ہونے لگتا ہے۔ والوز ریپلیس کرنا ضروری ہو جاتا ہے، والوز ڈالنے کے دو طریقے ہیں، پہلا کینولا کے ذریعے والوز لگانا اور دوسرا طریقہ سرجری کے ذریعے والوز کی تبدیلی ہے، والوز ریپلیسمنٹ کی سہولت ایس آئی یو ٹی میں دستیاب ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹوف کی تشخیص پیدائش کے فوراً بعد ہو تو سرجری جلد کر دینی چاہیے لیکن عالمی سطح پر عام طور پر چھ سے نو ماہ کی عمر میں سرجری کی جاتی ہے، کیونکہ چھوٹے بچے کے والوز تنگ ہوتے ہیں اور پیچ لگانے سے والوز متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے تاہم سرجری کا درست وقت ہر بچے کے مرض کی شدت پر منحصر ہے۔
ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ اس بیماری میں جینیاتی عوامل کا نمایاں کردار ہے۔ ہمارے معاشرے میں کزن میرجز اس مسئلے کو بڑھاتی ہیں۔ اگر ماں کو ٹوف ہو تو بچے میں دس فیصد امکان ہوتا ہے، اسی طرح والد یا بہن بھائی کو ہو تو خطرات بڑھ جاتے ہیں لیکن نئی جینیاتی تبدیلیاں (mutations) بھی ہو سکتی ہیں، اس لیے گھر میں کسی کو یہ مرض نہ ہونے کے باوجود بھی بچے میں ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر سو میں سے ایک بچے میں پیدائشی دل کا مرض پایا جاتا ہے لیکن ایشیا میں یہ شرح بڑھ کر 8 سے 9.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی سی وی ڈی ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ ہوتے ہیں انہوں نے بچوں میں جاتے ہیں کے ذریعے جاتا ہے بچے میں ٹوف کی
پڑھیں:
ملک کے بیرونی قرضوں میں کمی، 2022 سے کوئی اضافہ نہیں ہوا
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے خوشخبری سنائی ہے کہ ملک کے بیرونی قرضوں میں کمی ہوئی اور 2022 کے بعد کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
کراچی میں کاروباری خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اسٹیٹ بینک میں منعقدہ تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگومیں گورنر اسٹیٹ بینک نے بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے بیرونی قرضوں میں کمی ہوئی ہے اور پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 2022ء کے بعد کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیٹ ٹو جی ڈی پی تناسب 31 فیصد سے کم ہو کر 26 فیصد نیچے آ گیا ہے جبکہ 2015ء سے 2022ء تک سالانہ اوسطاً 6.4 ارب ڈالر قرضہ بڑھ رہا تھا۔
جمیل احمد کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ جی ڈی پی کے 0 سے 1 فیصد کے درمیان خسارے میں رہے گا جبکہ درآمدات میں اضافے کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ کنٹرول میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال ترسیلاتِ زر 40 ارب ڈالر کا ہندسہ عبور کر جائیں گی جبکہ گزشتہ مالی سال 38 ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر موصول ہوئی تھیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ نومبر 2024ء سے اکتوبر 2025ء تک خواتین کو 50 ارب روپے کی فنانسنگ کا ہدف تھا تاہم 230 ارب روپے جاری کیے گئے، ایس ایم ایز فنانسنگ گزشتہ سال 550 ارب روپے سے 700 ارب روپے تک بڑھ گئی۔