روس امریکہ رسہ کشی اور ڈوبتی نیٹو
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کا بغیر کسی مناسب وجہ کے نیٹو وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت سے انکار کرنا ایک غیرمعمولی مگر بامعنی قدم سمجھا جا رہا ہے۔ نیٹو ماہرین کے مطابق اس سے پہلے امریکہ کے کسی وزیرِ خارجہ نے ایسا نہیں کیا۔ یہ بھی واضح نہیں کہ روبیو خود نہیں جانا چاہتے تھے یا انہیں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، خاص طور پر اس لیے کہ وہ ٹرمپ کے چند قریبی ساتھیوں میں سے ہیں جو اب بھی نیٹو کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ روبیو کی غیرحاضری ایک طاقتور سیاسی اشارہ ہے اور نیٹو کے لیے خوش آئند نہیں۔ خصوصی رپورٹ:
عالمی سطح پر طاقت ور ترین فورس نیٹو ان دنوں روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین کے مسئلے پر ہونے والی مذاکراتی کشمکش میں بری طرح الجھا ہوا ہے اور اپنی تاثیر اور ساکھ برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ سوئس میڈیا اس آر ایف نے ایک رپورٹ میں مغربی فوجی اتحاد نیٹو کو روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین کے معاملے پر پھنسے ہوئے ایک مخمصے کی صورت میں بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ اتحاد اس وقت بے شمار چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے۔ مغرب کے بقول روس امن فارمولا قبول کرنے سے انکاری ہے اور یوکرین غیرمعمولی دباؤ میں ہے۔ اس کے باوجود، نیٹو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس نے ان دونوں مسائل پر محض کھوکھلے وعدے پیش کیے اور کوئی ٹھوس عملی اقدام تک تجویز نہ کیا۔
نیٹو کو کبھی بھی ہالینڈ کے مارک روٹے جیسا خوش گفتار اور نرم خو سیکرٹری جنرل نہیں ملا۔ وہ جانتے ہیں کہ کس طرح ایسے وقت میں بھی امید کی تصویر پیش کی جائے جب اس مغربی اتحاد پر تاریک بادل منڈلا رہے ہوں — جیسا کہ آج کل ہے۔ ان کا بنیادی پیغام، اجلاس سے پہلے، اجلاس کے دوران اور بعد تک، بس یہی رہا کہ ’’سب کچھ ٹھیک ہے، یا کم از کم ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ روٹے نے زور دے کر کہا کہ روس کا مقابلہ کیا جائے گا، یوکرین کو مسلسل اور اس سے بھی زیادہ مضبوط حمایت ملے گی، اور جون میں ہونے والی نیٹو سربراہ کانفرنس میں دفاعی اخراجات سے متعلق فیصلوں کی بدولت اتحاد پہلے سے زیادہ مضبوط ہو رہا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے رکن ممالک میں باہمی اتفاقِ رائے کی بھی بات کی۔
تاہم یہ بیانات حقیقت سے منقطع دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ کچھ وزرائے خارجہ نے مختلف درجات کے جوش کے ساتھ روٹے کی حمایت کی، لیکن مجموعی طور پر ان کا جائزہ حالات کا صرف انتخابی اور محدود عکس پیش کرتا ہے۔ نیٹو ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ وہ متحد نظر آئے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب اس کی کمزوری نمایاں ہو۔ کیونکہ بظاہر نظر آنے والی یکجہتی کے بغیر، اس اتحاد کی عسکری طاقت کے باوجود اس کی بازدار صلاحیت زیادہ موثر نہیں رہتی، اور ظاہر ہے کہ ماسکو بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے۔ اگر موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو نیٹو کے تمام اراکین کئی کمزوریوں کا شکار نظر آتے ہیں۔
آج تک روس کی بڑھتی ہوئی ہائبرڈ جارحانہ حکمت عملی کہ جس میں تخریبی کارروائیاں، غلط معلومات کی تشہیر، سائبر حملے اور ڈرون اشتعال انگیزیاں شامل ہیں، ان کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ مزید یہ کہ یہ بنیادی سوال بھی اب تک جواب طلب ہے کہ اگر روس کسی نیٹو رکن ملک پر حملہ کرے تو کیا اس کا فیصلہ کن جواب دیا جا سکے گا اور اہم بات یہ کہ کیا واقعی ایسا کیا جائے گا؟۔ ایک اور کمزوری یہ ہے کہ اگرچہ یوکرین کو مدد مل رہی ہے، مگر یہ امداد میدان جنگ میں حالات تبدیل کرنے کے لیے ناکافی ہے، جہاں روس مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے۔ نیٹو نے ابھی تک اس اہم سوال کا بھی کوئی قابلِ اعتماد جواب نہیں دیا کہ جنگ کے خاتمے کی صورت میں مغرب یوکرین کو کون سی مستند سیکیورٹی ضمانتیں فراہم کرے گا۔
اس کے علاوہ، ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد اتحاد اپنے سب سے اہم اور سب سے بااثر رکن، یعنی امریکہ کو کھونے کے قریب ہے۔ یورپی اراکین اب واشنگٹن پر مکمل بھروسہ نہیں کر سکتے۔ کبھی اجتماعی دفاع کا اصول مشروط کر دیا جاتا ہے، اور کبھی یورپی ممالک پر دفاعی بجٹ دگنا کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے، جس کا بنیادی فائدہ امریکی اسلحہ ساز صنعت کو پہنچتا ہے۔ یوکرین جنگ کے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ خود کو نیٹو کا حصہ نہیں بلکہ روس اور نیٹو کے درمیان ایک ثالث کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ ان حالات میں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کا بغیر کسی مناسب وجہ کے نیٹو وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت سے انکار کرنا ایک غیرمعمولی مگر بامعنی قدم سمجھا جا رہا ہے۔
نیٹو ماہرین کے مطابق اس سے پہلے امریکہ کے کسی وزیرِ خارجہ نے ایسا نہیں کیا۔ یہ بھی واضح نہیں کہ روبیو خود نہیں جانا چاہتے تھے یا انہیں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، خاص طور پر اس لیے کہ وہ ٹرمپ کے چند قریبی ساتھیوں میں سے ہیں جو اب بھی نیٹو کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ روبیو کی غیرحاضری ایک طاقتور سیاسی اشارہ ہے اور نیٹو کے لیے خوش آئند نہیں۔ آخر میں، اگرچہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے کا پرامید ہونا ان کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے، مگر موجودہ حالات میں اس خوش بینی کو اعتبار حاصل نہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکہ کے نیٹو کے رہا ہے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
امریکہ نے غیرملکی ملازمین کیلئے ویزہ شرائط میں مزید سختی کردی، رائٹرز
واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکہ نے غیرملکی ملازمین کیلئے ویزہ شرائط میں مزید سختی کردی ہے اور اس سلسلے میں صدر ٹرمپ نے امریکی سفارتکاروں کو ایچ ون بی ویزہ کے درخواست گزاروں کے پروفائلز کے جائزے کا حکم دے دیا، نئی سختیاں نئے اور دوبارہ آنے والے دونوں درخواست گزاروں پر لاگو ہوں گی۔ غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے ہائی سکلڈ ورکرز کے لیے ویزہ شرائط سخت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جس کے تحت درخواست گزاروں اور ان کے ساتھ سفر کرنے والوں کے ریزیومے یا لنکڈان پروفائلز کا جائزہ لیا جائے گا، سنسرشپ میں ملوث درخواست گزار ایچ ون بی ویزے کے لیے نااہل ہوگا، اس سلسلے میں تمام امریکی مشنز کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکی قونصلر افسران کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ امیدواروں کے پیشہ ورانہ پس منظر، آن لائن سرگرمیوں اور سابقہ ذمہ داریوں کا باریک بینی سے جائزہ لیں، یہ اقدامات اس مقصد کے لیے کیے جا رہے ہیں کہ امریکی سرزمین پر آنے والے وہ افراد جن کا عمل یا نظریات بنیادی شہری آزادیوں کے خلاف ہو، وہ ملک میں حساس ٹیکنالوجی یا اہم شعبوں تک رسائی حاصل نہ کرسکیں، اس جائزے میں خاص طور پر یہ دیکھا جائے گا کہ آیا درخواست گزار ایسی سرگرمیوں میں ملوث تو نہیں جن کا تعلق غلط معلومات، گمراہ کن مواد، مواد کی نگرانی، فیکٹ چیکنگ، کمپلائنس یا آن لائن سیفٹی جیسے امور سے ہو۔
بتایا جارہا ہے کہ ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، میڈیکل اور دیگر شعبوں میں جہاں بھارت اور چین سمیت کئی ممالک کے ماہرین بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں، اس صورت میں ایچ ون بی ویزے میں کسی بھی تبدیلی کا اثر عالمی ہنرمند افرادی قوت پر پڑ سکتا ہے، جائزے میں اگر کسی درخواست گزار کے بارے میں یہ شواہد ملے کہ وہ امریکہ میں اظہارِ رائے کو محدود کرنے یا اس کی کوششوں میں شریک رہا ہے تو امیگریشن اور نیشنلٹی ایکٹ کی متعلقہ دفعہ کے تحت اسے ویزہ جاری نہیں کیا جائے گا۔