اسٹاک مارکیٹ کا عروج، غیر ملکی سرمایہ کاری غائب
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
کراچی:
کاروباری حلقوں میں آج کل ایک ہی جملہ گونج رہا ہے کہ’’ صرف پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ ہی چل رہی ہے‘‘، چند برسوں میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے بلیو چپ شیئرز نے غیرمعمولی کارکردگی دکھائی ہے۔
کے ایس ای 100 انڈیکس کم از کم 40 ہزار پوائنٹس سے بڑھ کر تقریباً 1 لاکھ 70 ہزارکی سطح تک پہنچ چکاہے، جو 300 فیصد سے زائد منافع بنتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس تیز رفتار اضافہ کے پیچھے گہری لیکویڈیٹی،کیپیٹل مارکیٹ اصلاحات، مضبوط کارپوریٹ منافع، بھاری ڈویڈنڈز اور نہایت کم ویلیوایشنز کاہاتھ ہے،جہاں بڑے شیئرز 3 گنا پی ای ریٹو پر ٹریڈ ہو رہے تھے۔
تاہم ایک اہم سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر پاکستانی مارکیٹ اتنی مضبوط ہے توگزشتہ دس برسوں میں غیرملکی سرمایہ کاروں نے 3 ارب ڈالرکیوں نکالے ہیں؟
ماہرین کے مطابق اس کاجواب ایک دہائی کی غیر یقینی سرمایہ کاری کے ماحول سے جڑاہے، 2002 سے 2007 وہ دور تھا جب پاکستان کو ابھرتی ہوئی ایشیائی معیشتوں کے ساتھ رکھا جاتا تھا۔
اس کے بعد سیاسی بے یقینی، آئی ایم ایف پروگرامز،سرکلرڈیٹ، بڑھتے مالی خسارے،کمزور برآمدات اورکریڈٹ ریٹنگ میں تنزلی نے غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچایا۔
غیرملکی فنڈ مینیجرز پاکستان کو طویل المدتی سرمایہ کاری کے بجائے ٹیکٹیکل ٹریڈ کے طور پر دیکھنے لگے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کم ویلیوایشنز اپنی جگہ، مگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلیے بار بارکی شرح سودمیں بے تحاشا تبدیلیاں، کرنسی گراوٹ، کم زرمبادلہ ذخائراوربیرونی مدد پر انحصار بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔
اس کے باوجود اگلے پانچ سال پاکستان کیلیے غیر معمولی موقع رکھتے ہیں،اصلاحات جاری رہتی ہیں تو ہرسال 40 سے 50 کروڑ ڈالر کے غیرملکی پورٹ فولیو فلو کا امکان ہے۔
پی آئی اے اور خسارے میں چلنے والی ڈسکوزکی نجکاری،سرکلر ڈیٹ کاکنٹرول، ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں اضافہ، گیس و ایل این جی کے استعمال میں شفافیت اور پالیسی تسلسل ناگزیر ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کی پائیدار ترقی کا دارومدار 4 سے 5 فیصد سالانہ جی ڈی پی گروتھ پر ہے، جو قرضوں نہیں بلکہ برآمدات اور ایف ڈی آئی سے چلنی چاہیے۔
آئی ٹی، زرعی ویلیو چینز،منرلز،سروسز، لاجسٹکس اورگرین انرجی کیشعبے ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتمادکی اصل شرط تین سے پانچ سال مسلسل معاشی سمت کابرقراررہناہے۔
ٹیکس اصلاحات کا تسلسل، ایس او ایزکی نجکاری، صنعتی سرمایہ کاری کیلیے مراعات اورسرمایہ کی آزادانہ نقل وحمل بنیادی عوامل ہیں،جنہیں عالمی سرمایہ کارسب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
اسٹاک مارکیٹ اعتماد ظاہر کر رہی، مگر حقیقی سرمایہ کاری اسی وقت آئیگی، جب تک اصلاحات صرف شروع نہیں ہونگی، بلکہ پوری بھی ہوں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرمایہ کاروں سرمایہ کاری
پڑھیں:
قدرتی وسائل پر پہلا حق مقامی آبادی کا ہے‘سہیل آفریدی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251207-01-8
پشاور(صباح نیوز)وزیر اعلی سہیل آفریدی نے کہاہے کہ قدرتی وسائل پر پہلا حق مقامی آبادی کا ہے اور تمام فیصلے اسی مفاد کو مدنظر رکھ کر کیے جائیں گے۔ خیبر پختونخوا توانائی
کے شعبے میں خود کفالت اور آمدنی کے نئے ذرائع کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ہفتے کووزیر اعلی سہیل آفریدی کی زیر صدارت میران بلاک کے شیئرز کی پارٹنر اداروں کو منتقلی کی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب میں صوبائی وزیر ریاض خان، معاونِ خصوصی شفیع جان، ممبر قومی اسمبلی شہریار آفریدی، ممبر قومی اسمبلی شاہد خٹک، ممبران صوبائی اسمبلی اور متعلقہ حکام شریک تھے۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ میران بلاک کے 49 فیصد شیئرز او جی ڈی سی ایل کو منتقل کر دیے گئے ہیں، جبکہ 51 فیصد شیئرز کے پی او جی سی ایل کے پاس رہیں گے۔ میران بلاک کنسورشیم کی قیادت او جی ڈی سی ایل کرے گا، جبکہ جی ایچ پی ایل اور پی پی ایل اس کے شراکت دار ہوں گے۔ بریفنگ کے مطابق کنسورشیم کے تحت کے پی او جی سی ایل کے 51 فیصد شیئرز کی سرمایہ کاری بھی فراہم کی جائے گی، جس کے نتیجے میں تقریبا 22 ارب روپے کی سرمایہ کاری خیبر پختونخوا میں آئی ہے۔ اس معاہدے سے صوبائی حکومت اور کے پی او جی ڈی سی ایل کو 12 ارب روپے کی نمایاں بچت ہوئی۔ وزیر اعلی سہیل آفریدی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ خیبر پختونخوا میں تیل و گیس کی تلاش و دریافت کے نئے دور کی بنیاد رکھے گا۔ تیل و گیس کی دریافت سے مقامی روزگار، کاروبار اور صنعت کو بھرپور فروغ ملے گا۔ قدرتی وسائل پر پہلا حق مقامی آبادی کا ہے اور تمام فیصلے اسی مفاد کو مدنظر رکھ کر کیے جائیں گے۔ خیبر پختونخوا توانائی کے شعبے میں خود کفالت اور آمدنی کے نئے ذرائع کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ صوبے میں سرمایہ کاری اور صنعتی ترقی کے لیے ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی اور سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے امن و امان پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ توانائی کے منصوبوں پر معمول سے ہٹ کر کام جاری ہے اور صوبائی حکومت سرمایہ کاری اور صنعتی شعبے کے فروغ کے لیے مکمل تعاون فراہم کرے گی۔