ہزاروں طلبہ کے خواب خطرے میں: برطانوی یونیورسٹیوں میں عارضی پابندی کی وجہ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
برطانیہ کی متعدد یونیورسٹیوں کی جانب سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے داخلوں کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا ہے، جس کے بعد یقینی طور پر دونوں ممالک کے ہزاروں طلبہ متاثر ہوں گے۔
واضح رہے کہ ستمبر 2025 سے برطانوی حکومت نے طلبہ کے ویزا قوانین سخت کر دیے تھے، جن کے تحت یونیورسٹیوں کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ وہ صرف ان ممالک سے طلبہ کو داخلہ دیں جہاں اسٹوڈنٹ ویزا ریفیوزل ریٹ 5 فیصد سے کم ہو۔
مزید پڑھیں: آسٹریلیا کی جانب سے اسٹوڈنٹ ویزا فیس میں آج سے حیران کن اضافہ، آخر وجہ کیا ہے؟
یاد رہے کہ اسٹوڈنٹ ویزا ریفیوزل ریٹ پاکستان کا قریباً 18 فیصد ہے، جس کے باعث یوکے کی کئی یونیورسٹیوں نے پاکستان کو بھی ہائی رسک کیٹیگری میں شامل کیا ہے۔
برطانوی حکومت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ پر داخلوں کی پابندی امتیازی فیصلے کے تحت نہیں بلکہ اسٹوڈنٹ ویزا نظام کی شفافیت اور قانونی تقاضوں کو برقرار رکھنے کے لیے عائد کی گئی ہے۔
برطانوی حکومت نے وضاحت کی ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے داخلے روکنے کا فیصلہ کسی امتیاز کی وجہ سے نہیں بلکہ طلبہ کے ویزا نظام کو شفاف اور محفوظ بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق ان ممالک سے درخواستوں کے مسترد ہونے کی شرح کافی زیادہ تھی، اسی لیے حکومت نے یونیورسٹیوں کے لیے یہ شرط سخت کر دی کہ ان کا ویزا مسترد ہونے کا تناسب 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
’چونکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی شرحیں اس حد سے کہیں زیادہ تھیں، اس لیے بعض یونیورسٹیوں نے انہیں زیادہ خطرے والے ممالک قرار دے کر عارضی طور پر داخلے روک دیے۔‘
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پابندی وقتی ہے اور حالات بہتر ہونے پر دوبارہ داخلے بحال ہو سکتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی پالیسی میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد جب یونیورسٹیوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش سے طلبہ کی بھرتی کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔ ان میں چند نمایاں ادارے جیسا کہ یونیورسٹی آف چیسٹر، وولورہیمپٹن، ایسٹ لندن، ہیرٹفورڈشائر، سَنڈر لینڈ اور کوونٹری شامل ہیں۔
کچھ یونیورسٹیوں کی جانب سے یہ پابندی 2026 تک عائد کی گئی ہے۔ جبکہ بعض نے صرف مخصوص شعبوں یا داخلہ سیشن کے لیے وقتی طور پر یہ قدم اٹھایا ہے۔
یاد رہے کہ یہ پابندیاں حکومت کی جانب سے ستمبر 2025 میں نافذ کیے گئے نئے ضابطوں کے بعد عملی طور پر لاگو ہوئیں۔ حکومتی مؤقف کے مطابق جیسے ہی متعلقہ ممالک کی ویزا کامیابی کی شرح بہتر ہو گی، یہ پابندیاں نرم یا ختم ہو سکتی ہیں۔
یونیورسٹیوں کا مؤقف ہے کہ سخت حکومتی قوانین کے بعد اگر وہ زیادہ ریفیوزل والے ممالک سے طلبہ لیں گی تو ان کا اسپانسر لائسنس منسوخ ہونے کا خطرہ ہے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے طلبہ شدید پریشانی کا شکار ہیں، کیونکہ بڑی تعداد نے پہلے ہی سے انٹیک 26-2025 کے لیے فیسیں، ڈاکومنٹس اور ٹیسٹ مکمل کر رکھے تھے۔
یہ فیصلہ پاکستانی طلبہ کو کتنا متاثر کرے گا؟ اور طلبہ کی جانب سے کون سی ایسی غلطیاں کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ویزا ریفیوزل شرح میں اضافہ ہوتا ہے؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
’غلط معلومات کی فراہمی کے باعث غیرملکی یونیورسٹیاں سخت فیصلوں پر مجبور ہوئیں‘تعلیمی امور کے ماہر اور ایجوکیشن کنسلٹنٹ عادل رئیس کا کہنا ہے کہ پاکستانی طلبہ کی جانب سے جعلی کاغذات، غلط بیانی اور غیر مستند دستاویزات جمع کرانے کے بڑھتے ہوئے واقعات نے غیر ملکی یونیورسٹیوں اور امیگریشن اداروں کو سخت فیصلے کرنے پر مجبور کیا ہے۔
ان کے مطابق بہت سے درخواست گزار بغیر کسی مناسب تعلیمی بنیاد، غلط معلومات یا غیر شفاف طریقوں کے ذریعے داخلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے باعث اصل طلبہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔
عادل رئیس کے مطابق کئی ممالک کی یونیورسٹیاں رواں سال ابتدائی جمع شدہ رقم کی پالیسی ختم کرکے مکمل سالانہ فیس پہلے ادا کرنے کی شرط عائد کر رہی ہیں، تاکہ جعلی یا کمزور درخواستوں کو روکا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے سخت فیصلوں کی بڑی وجہ ان طالب علموں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جو بیرون ملک پہنچ کر تعلیم چھوڑ دیتے ہیں، غیر قانونی قیام اختیار کر لیتے ہیں یا ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں جن سے میزبان ممالک کو نقصان پہنچتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بعض کیسز میں کم عمر طلبہ سے رابطے، ممکنہ اسمگلنگ اور غیر قانونی رہائش جیسے مسائل میں اضافہ بھی سامنے آیا ہے، جس کے بعد کئی ممالک نے نہ صرف برطانیہ بلکہ بھارت سمیت دیگر ریاستوں میں بھی داخلہ پالیسیاں بدلنا شروع کردی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ وہ تمام مسائل ہیں، جو طلبہ کی ایک بڑی تعداد کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور ان طلبہ کے لیے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔ جو بیرون ممالک جاکر نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہاں پر وائٹ کالر جابز کرنے کے خواہشمند بھی ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام ممالک پڑھے لکھے، محنتی اور اسکلڈ افراد کو نہ صرف تعلیم کے لیے ویلکم کرتے ہیں، بلکہ وہ ممالک چاہتے ہیں کہ ایسے طلبہ وہیں رہ کر ان کے ملک کی معیشت اور ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کریں، اس لیے اب ہمیں ان تمام چیزوں پر سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔
عادل رئیس کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی طلبہ مکمل شفاف، قانونی اور مستند دستاویزات کے ساتھ درخواست دیں تو انہیں کسی قسم کی پابندی یا مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، لیکن جعلی درخواست گزاروں کی وجہ سے اصل طلبہ بھی مشکلات کی زد میں آ جاتے ہیں۔
ہمارے اپنے رویے اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں، ثاقب ذیشانایجوکیشن کنسلٹنٹ ثاقب ذیشان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے لیے داخلوں کی معطلی کوئی اچانک قدم نہیں بلکہ کئی برسوں سے جاری غیر شفاف اور غلط پریکٹسز کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے رویے بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔
ثاقب ذیشان کے مطابق جعلی بینک اسٹیٹمنٹ، غیر مستند تعلیمی اسناد، غلط معلومات اور بے بنیاد فنانشل ڈاکومنٹس کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جس نے برطانوی یونیورسٹیوں اور امیگریشن حکام کو زیادہ سنجیدہ اور سخت بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ بہت سے درخواست گزاروں کی اصل نیت تعلیم نہیں بلکہ کام تلاش کرنا، قیام بڑھانا یا نظام کو کسی نہ کسی طرح بائی پاس کرنا ہوتی ہے، جس سے مجموعی طور پر ملک کی ویزا ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یوکے کی یونیورسٹیاں اس وقت سخت دباؤ میں ہیں کیونکہ اگر وہ زیادہ ریفیوزل والے ممالک سے طلبہ لیتی رہیں تو ان کا اسپانسر لائسنس تک متاثر ہوسکتا ہے، اسی لیے وہ احتیاطی طور پر ہائی رسک ممالک کی فہرست میں پاکستان اور بنگلہ دیش کو شامل کر رہی ہیں۔
’مزید یہ کہ غیر پیشہ ور ایجنٹس اور کچھ کنسلٹنٹس کی غلط رہنمائی نے بھی صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔ پاکستانی طلبہ کو چاہیے کہ وہ صرف اور صرف لائسنس شدہ کنسلٹنٹس کو ہی اپنے مستقبل کے لیے چنیں، اور اس معاملے میں نہایت احتیاط برتیں، کیونکہ اگر ان کا ویزا ایک بار ریجیکٹ ہو جاتا ہے، تو پھر اس لسٹ سے ان کے لیے نکلنا بھی تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ریفیوزل ویزوں کی مزید کڑی جانچ کی جاتی ہے۔ تو جس بھی کنسلٹنٹ سے رابطہ کریں، اس کی مکمل معلومات لیں، اور کنسلٹنٹ کی ہر رہنمائی کو کراس چیک ضرور کریں۔‘
ثاقب ذیشان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی طلبہ مکمل شفافیت، درست فنانشل پروف، اصل دستاویزات اور تعلیمی سنجیدگی کے ساتھ اپلائی کریں تو انہیں کسی پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
ایک مزید سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی بہت سی یونیورسٹیوں کے دروازے یوکے میں پاکستانی طلبہ کے لیے کھلے ہیں، مگر قوانین بہت سخت ہو چکے ہیں۔
’خدارا اب کنسلٹنٹ اور طلبہ کو چاہیے کہ ہر قسم کی احتیاطی تدابیر کو مد نظر رکھیں، تاکہ پاکستان کا ایک اچھا امیج جائے اور ہم اس پابندی سے جلد نکل آئیں۔ امید ہے کہ 2026 میں یہ عارضی پابندی ختم ہو جائے گی، کیونکہ کچھ یونیورسٹیوں کی جانب سے ٹائم پیریڈ واضح کر دیا گیا ہے۔‘
واضح رہے کہ ستمبر سے زیادہ تر یونیورسٹیوں کے داخلے شروع ہو جاتے ہیں، اور اس سے قبل تمام طلبہ کی کو شش ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف کنسلٹنٹ کو ہائیر کر لیں، بلکہ لینگویج ٹیسٹ اور دیگر ڈاکومنٹس بھی مکمل کر لیں، جس پر اچھی خاصی رقم خرچ ہو جاتی ہے۔
والدین اور طلبہ کا کہنا ہے کہ بغیر پیشگی اطلاع کے اچانک پابندی نے ان کے تعلیمی مستقبل کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ بہت سے طلبہ کو خدشہ ہے کہ ان کا پورا سال ضائع ہو جائے گا یا انہیں دوسرے ممالک کا رخ کرنا پڑے گا۔
علی رضوی کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ گزشتہ ایک سال سے یونیورسٹی آف چیسٹر میں ایم ایس سی انٹرنیشنل بزنس کے داخلے کی تیاری کر رہے تھے۔
علی کا کہنا ہے کہ اس پابندی نے ان کی تمام محنت ایک لمحے میں غیر یقینی صورتحال میں بدل دی ہے۔
’میں نے پچھلے سال ہی سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ چیسٹر ہی میرا ٹارگٹ ہوگا، اس کے مطابق میں نے آئیلٹس کی تیاری کی، ٹیسٹ دیا اور اچھی بینڈ اسکور حاصل کی۔
’چونکہ میں جانا صرف یوکے ہی چاہتا تھا، اور پھر مجھے وہاں چیسٹر یونیورسٹی سے بہتر اور کوئی آپشن نہیں ملا، اس کے بعد ایچ ای سی سے اپنی ڈگری اور ٹرانسکرپٹس تصدیق کروائیں، جو ایک لمبا اور مہنگا عمل تھا۔ میں نے مختلف کنسلٹنٹس سے ملاقاتیں کیں، ان سے رہنمائی کی، ان کی فیسیں ادا کیں، یہاں تک کہ بینک اسٹیٹمنٹ اور دیگر مالی دستاویزات بھی تیار کر کے رکھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ سب کچھ مکمل ہو چکا تھا اور اب صرف اپلائی کرنا تھا، لیکن اچانک یہ پابندی لگ گئی۔ اب مجھے ڈر ہے کہ میرا پورا سال ضائع نہ ہو جائے، کیونکہ زیادہ تر یونیورسٹیوں کے داخلے ستمبر سے شروع ہو جاتے ہیں، اور اپلائی کرنے کی تاریخ جنوری یا فروری تک رہتی ہے، اب دوبارہ سے سارا ہوم ورک کرنا، کونسا ملک، کونسی یونیورسٹی بہتر ہے، کہاں میرا مستقبل زیادہ سیکیور ہے، اس سب میں بہت وقت لگتا ہے۔
’خود کو اس سب کے لیے تیار کرنا بھی آسان نہیں ہے، یوکے کے حوالے سے سب سوچ چکا تھا، ذہن بنا چکا تھا، اب دوبارہ نئے سرے سے سب کرنا ناممکن سا لگ رہا ہے۔‘
مہرین فاطمہ نے ماسٹر ریسرچ کے لیے یونیورسٹیوں میں اپلائی کیا تھا۔ انہوں نے کئی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز سے رابطے کیے اور اپنا تحقیقی منصوبہ بھی بھیجا۔ دو جگہوں سے انہیں مثبت جواب ملا اور ایک پروفیسر کے ساتھ بات قریباً طے ہو چکی ہے۔
مہرین کا کہنا ہے کہ نئی پابندیوں اور ویزا قوانین کے بعد انہیں خدشہ ہے کہ یہ فیصلے ان کے ریسرچ پروگرام پر اثر نہ ڈالیں، کیونکہ وہ پہلے ہی اپنی تیاری مکمل کر چکی ہیں۔
کہتی ہیں کہ اب یہاں تک پہنچ جانے کے بعد کوئی بھی ایسا فیصلہ جو ان کے اس پورے تحقیقی پروگرام کو خراب کر سکتا ہے، ان کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں ہوگا۔
مزید پڑھیں: جرمنی نے اسٹوڈنٹ ویزا قوانین میں کیا اہم تبدیلیاں کی ہیں؟
واضح رہے کہ حکام نے وضاحت کی ہے کہ پابندی تمام برطانوی یونیورسٹیوں پر لاگو نہیں ہوتی، صرف وہ ادارے متاثر ہوئے ہیں جن کا ویزا کامیابی کا ریکارڈ حکومت کے نئے معیارات پر پورا نہیں اترتا۔ کئی یونیورسٹیاں اب بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کو داخلے دے رہی ہیں، لیکن وہ پہلے سے زیادہ سخت جانچ اور مالی ثبوت طلب کر رہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک اپنے ویزا ریفیوزل ریٹ کو کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ پابندیاں آئندہ برسوں میں نرم یا ختم ہو سکتی ہیں، تاہم موجودہ صورت حال نے دونوں ممالک کے ہزاروں نوجوانوں کے اعلیٰ تعلیم کے خواب کو وقتی طور پر شدید متاثر کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews برطانوی یونیورسٹیاں بیرون ملک تعلیم پابندی پاکستان اور بنگلہ دیش طلبا و طالبان کنسلٹنٹ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانوی یونیورسٹیاں بیرون ملک تعلیم پابندی پاکستان اور بنگلہ دیش طلبا و طالبان کنسلٹنٹ وی نیوز پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کہ پاکستان اور بنگلہ دیش ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں کے پاکستانی طلبہ ہے کہ پاکستان اسٹوڈنٹ ویزا دونوں ممالک کی جانب سے یہ پابندی نہیں بلکہ کی وجہ سے جاتے ہیں انہوں نے ممالک سے ہیں بلکہ کے داخلے کے مطابق رہی ہیں طلبہ کی طلبہ کو طلبہ کے اور اس گیا ہے کے لیے کے بعد رہے کہ کہ اگر کیا ہے
پڑھیں:
اسرائیل کا ڈرائونا خواب کیا ہے؟
غاصب صیہونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل جو1948میں فلسطین پر قائم کی گئی تھی، ہمیشہ سے ایک ڈراؤنے خواب کا سامنا کر رہی ہے۔ اس خواب کی مختلف وجوہات ہیں جن کو متعدد صیہونی تجزیہ نگاروں اور محققین نے بھی بیان کیا ہے۔
ان تمام وجوہات کی طرف جانے سے قبل یہ بات بھی اہم ہے کہ کیونکہ اسرائیل ایک ایسے ناجائز طریقے سے قائم کیا گیا کہ جس میں دوسروں کے وطن پر قبضہ کیا گیا اور اپنے وطن کا اعلان کر کے مقامی لوگوں کو ان کے وطن سے جبری بے دخل کیا گیا۔
تاہم یہ ایک ایسا بنیادی خطرہ بن گیا کہ جو ہمیشہ اسرائیل کو یاد دلواتا ہے کہ تمھاری بنیاد ہی غلط ہے اور غلط بنیادوں پر تعمیر کی جانے والی عمارت کبھی نہ کبھی تو گرتی ہی ہے، لٰہذا غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا سب سے بھیانک اور ڈراؤنا خواب یہی ہے کہ کبھی نہ کبھی اسرائیل کو ختم ہونا ہوگا۔
یہی ڈراؤنا خواب حالیہ دنوں میں زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے،کیونکہ سات اکتوبر کے بعد اس وقت ہر صیہونی آباد کار اور خاص طور پر غاصب صیہونی حکومت کا وزیر اعظم نیتن یاہو بھی اس کرب میں مبتلا ہے اور اسرائیل کبھی بھی بے چینی سے نجات نہیں پاسکے گا۔
اسرائیل اور اس کے عہدیداروں کو ہمیشہ ایک مستقل اور وجودی نوعیت کی گھبراہٹ لاحق رہتی ہے یعنی یہ کہ کیا وہ(اسرائیل) یا اس کے عہدیدار باقی رہیں گے؟ یا پھر یہ کہ اسرائیل ختم ہو جائے گا؟کیا سو سال بعد، بیس سال بعد، یا حتیٰ کہ پانچ سال بعد بھی وہ موجود ہوگا یا نہیں؟
یہی وہ ڈراؤنا خواب ہے جو اندر ہی اندر نیتن یاہوکو بھی کھائے جا رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسرائیل ترقی یافتہ ہے،کس چیز میں ترقی یافتہ ہے؟ اس کے تمام ہتھیار امریکی اور مغربی ممالک سے آئے ہیں۔ حقیقت میں اسرائیل تو صرف ایک بہت بڑی چھاؤنی نما مرکز یا خطے میں مغرب کا تیار شدہ فوجی اڈہ ہے۔
اسی وجہ سے وہاں حقیقی ترقی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ حقیقی ترقی تو یہ ہے کہ شہری کو یہ احساس ہو کہ وہ ایسے علاقے میں زندگی گزار رہا ہے جہاں اسے قبول کیا گیا ہے اور اسے خوش آمدید کہا گیا ہے، لیکن یہاں تو ہر صیہونی آباد کار رات کو اس خوف سے سوتا نہیں ہے کہ کب اسرائیل ختم ہو جائے، یعنی صیہونی آباد کار ایک ڈراؤنے خواب کے ساتھ سوتے ہیں اور ان کی زندگیاں بے چین ہو چکی ہیں۔
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود 1948 میں عمل میں آیا، مگر ابتدا سے ہی یہ غاصب ریاست ایک ایسے ماحول میں وجود میں آئی جسے خود اسرائیلی ماہرین مسلسل عدمِ تحفظ کی فضا کہتے ہیں۔ یہ احساس صرف بیرونی خطرات تک محدود نہیں بلکہ داخلی سیاست، demography، مذہبی اختلافات، عالمی سفارتی تنہائی اور تاریخی محرکات بھی شامل ہیں۔
نتیجتاً اسرائیل کے اندر یہ خدشہ وقتاً فوقتاً ابھرتا جا رہا ہے کہ صیہونیوں کے لیے بنائی گئی یہ غاصب ریاست کسی بھی وقت شدید بحران یا انہدام کی طرف جا سکتی ہے۔صیہونیوں کے لیے یہ ڈراؤنا خواب متعدد وجوہات کی بنا پر ہے جن میں سے اکثر و بیشتر صیہونی رہنماؤں نے خود تشکیل دی ہیں۔
مثال کے طور پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ابتدائی لیڈروں نے ریاستی بقا کے لیے مسلسل خطرے کا بیانیہ تشکیل دیا، جسے فوج، میڈیا اور تعلیمی نظام نے تقویت دی۔ اب یہی خود کا بیانیہ حقیقت کی صورت دھار چکا ہے۔
غاصب صیہونیوں سمیت عہدیداروں اور صیہونی رہنماؤں کے ڈراؤنے خواب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل ایک انتہائی محدود رقبے پر قائم ہے، جہاں وسیع آبادی اور کمstrategic depthکے باعث کسی بڑی جنگ میں پورا ملک محاذ بن جاتا ہے۔
اسی لیے اسرائیلی ماہرین اسے پتلے گلے والی بوتل قرار دیتے ہیں۔ اس کی مثال حالیہ جنگ میں بھی دیکھی گئی ہے۔اسی طرح غاصب صیہونی حکومت چونکہ ایک قابض اور ناجائز ریاست ہے تاہم اس کے پڑوس کے ممالک بھی اس کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
اگرچہ امن کے معاہدے کیے گئے ہیں، لیکن فلسطینی تنازعہ حل نہ ہونا، لبنان اور شام کے محاذ اور ایران کے ساتھ کشیدگی سمیت عرب عوام کی شدید مخالفت جیسے عوامل اسرائیل میں یہ خوف بڑھاتے ہیں کہ اگر حالات بگڑ گئے تو بقا مشکل ہو سکتی ہے، لٰہذا اسرائیل کی نابودی کا ڈراؤنا خواب ہرگزرتے دن کے ساتھ ساتھ تقویت اختیارکر رہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو پیش آنیوالے طوفان اقصیٰ کے واقعے نے اسرائیلی سوچ کو بنیادی طور پر ہلا دیا ہے۔ طوفان اقصیٰ نے اسرائیل کے سیکیورٹی بھرم کو خاک میں ملا دیا۔ اسرائیل کو یقین تھا کہ دفاعی نظام، خفیہ ایجنسیاں اور سپر پاور اتحاد اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیتے ہیں لیکن نتائج نے ثابت کیا کہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔
لٰہذا7 اکتوبر نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کو مکمل طور پر توڑکر رکھ دیا۔ عالمی سطح پر تنہائی نے بھی اسرائیل کو ایک ڈراؤنے خواب میں مبتلا کر دیا ہے کہ اب اسرائیل کو کبھی نہ کبھی ختم ہونا پڑ سکتا ہے۔
یورپ میں بڑے پیمانے پر احتجاج، امریکا کی نئی نوجوان نسل کی اسرائیل مخالف رائے، اقوامِ متحدہ میں تنقید، عالمی عدالتوں کے مقدمات یہ سب اسرائیل کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں۔ معاشی خطرات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور مسلسل جنگوں، ہجرت، سرمایہ کاری کی کمی اور معاشرتی دباؤ نے اسرائیلی معیشت کو کمزورکیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں صیہونی آباد کاروں کا قبرص اور دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرجانا اس ڈراؤنے خواب کو تقویت فراہم کرتا ہے کہ صیہونی غاصب ریاست کو ایک نہ ایک دن نابود ہونا ہے۔دنیا یک قطبی سے کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اسرائیل کے لیے یہ ایک اور ڈراؤنا خواب ہے۔ امریکا کی کمزور ہوتی طاقت اور چین، روس، ایران، سمیت دیگر ممالک کے نئے کردار اسرائیل کے لیے نئے چیلنجز ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت جو غزہ، لبنان، شام، عراق اور یمن میں موجود ہے، اس مزاحمت کے اتحاد نے بھی اسرائیل کے لیے وجودی خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام باتوں کو اگر مد نظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے عہدیداروں اور صیہونی آباد کاروں کا یہ خوف یا اسرائیل کی نابودی کا ڈراؤنا خواب سو فیصد حقیقی ہے اور نظریاتی بھی ہے۔
اسی لیے اسرائیل کے اندر خود ماہرین بارہا کہتے ہیں کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو ریاست مستقبل میں کمزور ہو سکتی ہے۔ یہی وہ ڈراؤنا خواب ہے جو ہمیشہ غاصب صیہونی ریاست کے دل و دماغ میں بے چینی کو جاری رکھے گا۔ یہی فلسطینی عوام، ان کی مزاحمت اور مزاحمت کی حمایت کرنیوالے اتحادیوں کی کامیابی ہے۔