طالبان کی پاکستان سے تجارت پر پابندی کے بعد افغانستان میں ادویات کا بحران
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
کابل: افغان طالبان کے پاکستان سے ادویات کی تجارت روکنے کے فیصلے کے بعد افغانستان میں شدید ادویات کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔
طالبان حکومت کے نائب سربراہ اور معاشی امور کے نگران عبدالغنی برادر نے حال ہی میں پاکستانی ادویات پر مکمل پابندی کا اعلان کیا اور افغان درآمد کنندگان کو ہدایت دی کہ وہ تین ماہ کے اندر پاکستانی کمپنیوں کے واجبات ادا کریں اور ادویات کے لیے نئے ذرائع تلاش کریں۔
تاہم جرمن میڈیا کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے لیے نئے سپلائرز تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔
طالبان کے ڈائریکٹر جنرل برائے انتظامی امور نوراللہ نوری کے مطابق اس وقت افغانستان میں استعمال ہونے والی ادویات میں 70 فیصد سے زیادہ پاکستان سے آتی ہیں، لیکن دونوں ممالک کے درمیان سرحد تقریبا دو ماہ سے کشیدگی کی وجہ سے بند ہے۔
افغانستان میں ادویات کی قلت کے باعث قیمتوں میں اضافہ اور مارکیٹ میں غیر معیاری، ایکسپائریڈ یا جعلی ادویات کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
جرمن میڈیا کے مطابق طالبان اب دیگر ممالک کے ذریعے ادویات کی فراہمی کے لیے معاہدے کر رہے ہیں۔ اسی دوران بھارت نے کابل کے لیے 73 ٹن ادویات، ویکسین اور طبی سامان بھیجنے کی تصدیق کی ہے، تاہم یہ امداد ملک کی بڑی آبادی کے لیے صرف علامتی اہمیت رکھتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانستان میں ادویات کی کے لیے
پڑھیں:
افغانستان میں انسانی حقوق کی پامالی، آسٹریلیا کا سخت ترین ایکشن سامنے آگیا
آسٹریلیا نے افغانستان میں طالبان کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سخت ردعمل دیتے ہوئے ایک نیا خود مختار پابندیوں کا فریم ورک نافذ کر دیا ہے جس کے تحت طالبان رہنماؤں پر براہِ راست مالی اور سفری پابندیاں عائد کی جاسکیں گی۔
آسٹریلوی وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ فریم ورک افغانستان میں خواتین اور بچیوں پر بڑھتے ہوئے جبر، آزادیوں کی پامالی اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کے خلاف بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھانے کیلئے تیار کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ آسٹریلیا نے تین طالبان وزراء اور چیف جسٹس پر مالی پابندیاں اور سفری پابندیاں نافذ کر دی ہیں، جبکہ افغانستان کو اسلحہ، جنگی مواد یا متعلقہ خدمات فراہم کرنے پر بھی مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔
حکام کے مطابق یہ فریم ورک اقوامِ متحدہ کی اُن فہرستوں پر بھی دباؤ میں اضافہ کرے گا جن میں پہلے سے 140 طالبان اہلکار شامل ہیں۔ آسٹریلوی حکومت نے واضح کیا کہ طالبان کے مسلسل جبر، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دہشت گرد گروہوں کو محفوظ پناہ دینے جیسے اقدامات خطے کیلئے شدید خطرہ بن چکے ہیں۔
آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اب تک وہ افغانستان کو 260 ملین ڈالر سے زائد کی انسانی امداد فراہم کر چکا ہے، جبکہ انسانی حقوق کی خراب صورتحال پر عالمی برادری کے واضح مؤقف کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔