مسجد کےلیے مختص زمین پر قبضہ کرکے رہائشی مقاصد کےلیے استعمال کیےجانے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ نے گلستان جوہر میں ایس ٹی 6 رفاحی پلاٹ سے قبضہ ختم کرنے سے متعلق درخواست پر ڈی جی کے ڈے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
جسٹس یوسف علی سعید اور جسٹس عبد المبین لاکھو پر مشتمل آئینی بینچ کے روبرو گلستان جوہر میں ایس ٹی 6 رفاحی پلاٹ سے قبضہ ختم کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔
درخواستگزار کے وکیل قائم علی میمن ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ مسجد کے لیئے مختص ہزار گز کے پلاٹ پر برطرف اہلکار اسحاق لاشاری اور دیگر نے قبضہ کیا ہے۔ 9 سال گزر جانے کے باوجود قبضہ ختم کروانے عدالت کے ڈی اے پر برہم ہوئی۔
جسٹس یوسف علی سعید نے ریمارکس دیئے حیرت ہورہی ہے عدالتی احکامات کے باوجود کے ڈی اے قبضہ ختم نہیں کروا پا رہا۔ کے ڈی اے کچھ نہیں پارہا یا کچھ کرنا نہیں چاہتا،دونوں صورتیں بہت خوفناک ہیں۔
جسٹس عبد المبین لاکھو نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کب سے آرڈر کررہی ہے مسجد کے لیے مختص زمین کو قبضہ کرکے رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
عدالت نے ڈی جی کے ڈے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ عدالت نے احکامات پر عملدرآمد کروا کر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
برطانیہ میں پاکستانی طلبا کی مشکلات
برطانیہ کا نظام تعلیم دنیا بھر میں اپنے قدیم و جدید معیار کے اعتبار سے ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ تحقیق و ایجادات کے اعتبار سے یہاں کی بڑی جامعات آج بھی اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ خاص بات یہ کہ ان جامعات میں دنیا بھر کے طلبا ایک جگہ اکھٹے ہوتے ہیں۔
اس تنوع کے ماحول میں ایک دوسرے کے تہذیب، ثقافت، تمدن، عادات وغیرہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے، جو طلبا کی ذہنی نشوونما اور سوچ و فکر کی صلاحیت میں مزید نکھار کا سبب بنتا ہے۔ الگ الگ ممالک کے طلبا آپس میں مکالمہ کرتے ہیں، بات چیت ہوتی ہے، طلبا یونینز کے باقاعدہ انتخابات منعقد ہوتے ہیں، دوستیاں اور نیٹ ورکنگ کا موقع ملتا ہے، بین الاقوامی اساتذہ سے استفادہ میسر آتا ہے، نئے طرز تعلیم سے واسطہ پڑتا ہے، ایونٹس اور پروگرامز تشکیل پاتے ہیں، مختلف اہم ایام کے موقع پر سب کو اپنی اپنی تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کی اجازت ہوتی ہے۔ یعنی اس ماحول سے سیکھنے کے ساتھ ساتھ پروفیشنل لائف میں اس تنوع کے ماحول سے بے شمار مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
پاکستان کے مڈل کلاس نوجوانوں کےلیے برطانیہ آنا محض ایک خواب ہی کی صورت ہوتا ہے جسے کسی معجزہ کے انتظار کے بعد ہی شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ معجزہ بھی یوں کہ اولاً تو گھریلو حالات اجازت نہیں دیتے کہ پچاس ستر لاکھ روپے خرچ کرکے اعلیٰ تعلیم کےلیے بچوں کو برطانیہ جیسے ملک بھیجا جائے۔ دوم اگر وسائل ممکن بھی ہوجائیں تو مائیں واپس نہ آنے کے خوف سے بچوں کو پردیس بھیجنے کا فیصلہ ترک کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ گھر اور باہر اردگرد کے خاص ماحول سے ایک دم کسی دوسرے ایسے ماحول میں جانا جہاں تہذیب و ثقافت، رہن سہن، زبان و لباس سب ایک دوسرے زاویے میں ہوں، یقیناً ابتدائی وقت میں ڈھال لینا خاصا مشکل کام ہوتا ہے۔ کھانا بنانا، کپڑے دھونا، پریس کرنا، شوز پالش کرنا، برتن دھونا، گھر کی صفائی کرنا، کام کاج اور یونیورسٹی کےلیے اپنا شیڈول مرتب کرنا، الغرض یہاں ماں کی صفات کا مظہر خود ہونا پڑتا ہے۔
پردیس کسی وقت میں سعودی عرب یا مشرقی وسطی ممالک جانا تصور کیا جاتا تھا لیکن گزشتہ چند برسوں سے یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ نے بریگزٹ کے بعد اپنے دروازے دنیا بھر کے طلبا کےلیے کھول دیے۔ یوں اچانک سے برطانیہ میں دنیا بھر کے طلبا آنا شروع ہوئے۔ یورپی ممالک کے رہائشی باشندوں نے واپس جانا شروع کیا اور ساؤتھ ایشیا سے خاص طور پر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے لاکھوں طلبا گزشتہ چند سال سے اعلیٰ تعلیم کی غرض سے برطانیہ گئے۔ ان ممالک میں سے بھی زیادہ تعداد بھارتی طلبا کی ہے جو یہاں حصول تعلیم کےلیے پہنچے۔
برطانوی حکومت نے بریگزٹ کے اثرات اور نقصانات کو زائل کرنے کےلیے یہاں تعلیمی ویزا کے حصول کو آسان بنایا جس میں سب سے پرکشش کام طلبا کو ایک سال تعلیم مکمل کرنے کے بعد دو سال تک یہاں رکنے اور کام کی تلاش کرنے کا موقع فراہم کرنا اور دوسرا ایک ہفتہ میں بیس گھنٹے کام کرنے کی اجازت دینا تھا، جس سے وہ یہاں اپنے اخراجات کو برداشت کرسکیں۔ اس سے قبل تعلیمی ویزا پر آنے والے طلبا کو یہ مواقع دستیاب نہیں تھے۔ گویا حکومت نے خود ہی کشش پیدا کرکے امیگریشن پالیسیز کو آسان بنایا تاکہ یہاں افرادی قوت کی کمی کو پورا کیا جاسکے، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ شاید برطانوی سرکار بھی اس دلچسپی سے لاعلم تھی کہ اس تعداد کے اعتبار سے طلبا برطانیہ کا رخ کریں گے۔
ایک طالب علم کو ہزاروں پاؤنڈز سالانہ فیس کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں، مزید کام کی تنخواہ پر ٹیکسز الگ۔ یعنی اب نجی تعلیمی شعبے کو باقاعدہ انڈسٹری کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے۔ افرادی قوت کی کمی پورا ہونے اور بلینز پاؤنڈز منافع کمانے کے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت کو بڑا چینلج اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبا کا یہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسائلمز یعنی سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواستوں کا موصول ہونا ہے۔
برطانوی امیگریشن طلبا کے ان رویوں اور رجحانات سے تشویش میں ہے کہ تعلیمی ویزا کے حصول کو بطور راستہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2024-25 میں پانچ ہزار سے زائد پاکستانی طلبا جبکہ گیارہ ہزار سے زائد مختلف طرح سے برطانیہ آنے والے پاکستانیوں نے سیاسی پناہ کےلیے درخواست دے رکھی ہے۔ یہ تعداد گزشتہ برسوں میں مجموعی طور پر اس سے کہیں زیادہ ہے، جو ایک الارمنگ صورتحال ہے۔
اس اعداد و شمار کے پیش نظر برطانوی حکومت نے سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ خبروں کے مطابق اب تک نو سے زائد برطانوی جامعات نے پاکستان و بنگلہ دیش کے طلبا کے داخلے مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر جامعات کو برطانوی ہوم آفس نے اپنی داخلہ پالیسی پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبا کےلیے دس فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد سے بھی کم کرنے کا کہا ہے۔ اگر جامعات اس پالیسی کی خلاف ورزی کریں گی تو ایسی جامعات کے لائسنس ختم کرنے کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ یہ ابتدائی مرحلے کا عمل ہے۔
برطانوی حکومت میں داخلہ کی وزیر شبانہ محمود کے خاندان کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے، اس حوالے سے انہیں ساؤتھ ایشیائی ممالک کے باشندوں کے رویوں کا ادراک ہے جس سے نبردآزما ہونا ان کےلیے مشکل بات نہیں۔ وہ اس سے قبل حصول تعلیم کےلیے آئے طلبا کی سیاسی پناہ کی درخواست دینے پر پابندی عائد کرنے اور موجودہ درخواستوں کو جلد نمٹانے کا اعلان کرچکی ہیں۔
برطانوی حکومت کا یہ فیصلہ اچانک نہیں کیونکہ ان فیصلوں کے پیچھے عوامل کے آثار پہلے ہی نظر آنا شروع ہوچکے تھے۔ ہر طالب علم جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنا قانونی رہائشی اسٹیٹس مکمل کرتا ہے، اس دوران اپنے لیے جاب تلاش نہیں کرپاتا تو سیاسی پناہ کی درخواست دینے کا راستہ تلاش کیا جاتا ہے۔ طلبا سے گنجان آباد برطانیہ بعض اوقات اسٹریس اور فرسٹریشن بھی بڑھا دیتا ہے۔ طلبا کے رش میں جاب کی تلاش کرنا آسان بھی نہیں۔ بھاری بھرکم فیسوں اور ٹیکسز ادا کرنے کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے گویا ابھی گزشتہ قرض کی رقم مکمل ادا نہیں ہوئی تو واپس اپنے ملک جانے کا فیصلہ کیسے کیا جائے؟ لہٰذا بہتر مستقبل کے خواب لیے اس دشوار راستے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
برطانوی حکومت کی ان پابندیوں اور سخت اقدامات کا فیصلہ اور ذمے داری پاکستانی طلبا پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ وقتی بنیادوں پر ہو تاہم اس صورتحال پر قابو پانے تک یہ سختیاں پاکستانی طلبا کےلیے برقرار رہیں گی۔ امیگریشن میں بہتر اسکریننگ، انٹرویوز، مالی تصدیق کا عمل اور میکنزم پہلے بھی موجود ہے لیکن مسئلہ یہاں آنے کے بعد طلبا کے رویوں کا ہے۔ جامعات میں حاضری کی عدم دلچسپی، بروقت فیس کی ادائیگی نہ کرنا، تعلیمی میکنزم کی خلاف ورزی کرنا، جیسے رویوں سے جامعات اب مزید سخت فیصلے کررہی ہیں۔
اس بحران سے قطعی اخد نہیں کیا جاسکتا کہ برطانوی حکومت کا رویہ بدل رہا ہے بلکہ عام بات یہی ہے کہ غلطی پر طلبا ہی ہیں۔ کیونکہ یہ بظاہر اعتماد کا بحران نہیں، نہ ہی کسی سیاسی مقصد کا حصہ ہے، ورنہ پہل حکومت کی طرف سے کی جاتی۔ سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے طلبا کو ایسے غیر سنجیدہ اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس کے باعث نافذ شدہ نئی پالیسیوں سے یہاں مقیم اور نئے آنے والے طلبا متاثر ہوں۔ ایسے پاکستانی طلبا کی وجہ سے واقعتاً حصول تعلیم کےلیے آنے والے طلبا کےلیے بھی دروازے بند ہوں گے۔
برطانوی جامعات سے تعلیم حاصل کرنا یہاں کے ماحول میں وقت گزارنا کسی بھی عام طالب علم کو بہتر بناسکتا ہے۔ یہاں کے مقامی باشندے وقت، کام اور گھریلو ذمے داریوں کے اعتبار سے پرفیکٹ ہیں، وقت کی قدر کرتے ہیں، کام کو ترجیح دیتے ہیں، یوں گھریلو زندگی کو پرسکون بناتے ہیں۔ مواقع دیکھے جائیں تو اس سرزمین کے متعلق یہی رائے ہے کہ یہ مستقل مزاج اور محنت کرنے والوں کو ان کا پھل ضرور دیتی ہے، اور یہ بھی کہ جو برطانیہ پہنچ کر زندگی کی دوڑ میں آگے نہ بڑھ پایا وہ ساری دنیا میں بھی ناکام رہتا ہے۔
بین الاقوامی عالمی تعلیمی پالیسیوں کا حصہ ایسے اقدامات یقیناً برطانوی حکومت کےلیے مشکل فیصلہ ہیں لیکن دونوں ممالک تعلیم کی خواہش کےلیے آنے والے طلبا کےلیے اس راستے کو محفوظ بناکر مستقبل قریب میں اس کے غلط استعمال کو روک سکیں گے تاکہ یہ دونوں ملکوں میں تعلیمی اور سفارتی تعلقات پر اثر انداز نہ ہوں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔