اسرائیل کیساتھ "برستی آگ تلے مذاکرات" کسی صورت قابل قبول نہیں، ولید جنبلاط
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
لبنانی اسپیکر پارلیمنٹ کیساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے لبنانی دروزی رہنما نے "جنوبی لبنان میں طمع و لالچ" پر مبنی تل ابیب کے "قدیمی عزائم" پر خبردار کیا اور تاکید کی ہے کہ "برستی آگے تلے" اسرائیل کیساتھ مذاکرات کسی صورت قابل قبول نہیں! اسلام ٹائمز۔ لبنان کی ترقی پسند سوشلسٹ پارٹی کے سابق سربراہ و معروف دروزی رہنما ولید جنبلاط نے پارٹی کے موجودہ سربراہ تیمور جنبلاط کے ہمراہ عین التینا میں لبنانی اسپیکر پارلیمنٹ نبیہ بری کے ساتھ ملاقات کی ہے جس میں لبنان کے ساتھ ساتھ خطے بھر کی عمومی و سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ رأی الیوم کے مطابق اس ملاقات کے بعد صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں ولید جنبلاط کا کہنا تھا کہ ہم صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں جبکہ مذاکرات کے بارے مَیں پہلے بھی اپنی ذاتی رائے دے چکا ہوں۔ ولید جنبلاط نے کہا کہ مختلف شعبوں میں یا مختلف ممالک کے ساتھ مذاکرات جائز ہیں لیکن ہم اس بات کو کسی صورت قبول نہیں کر سکتے کہ ان مذاکرات کو "برستی آگ تلے" انجام دیا جائے۔
دروزی سیاسی رہنما نے زور دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات کو منظم کرنے والا معاہدہ وہی جنگ بندی معاہدہ ہے کہ جس پر ہم عمل پیرا ہیں حالانکہ 1949 کی جنگ بندی کے حالات آج سے بہت زیادہ مختلف تھے کیونکہ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، سیاسی، فوجی و الیکٹرانک پیشرفت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے لیکن پھر بھی ہم زمینی اصولوں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ولید جنبلاط نے کہا کہ جب میں زمین کی بات کرتا ہوں تو میرا مطلب سطح اور اس کے نیچے کا حصہ ہے، اور حتی یہ کہ اگر آج کا موسم سرما "بلا بارش" بھی ہو تو بھی ہمیں "لیطانی کے پانیوں" اور "دیگر وسائل" سے متعلق "اسرائیل کے قدیمی طمع و لالچ" کو ہر گز نہیں بھولنا چاہیئے۔ ولید جنبلاط نے کہا کہ اس "تاریخی حافظے" کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے جبکہ میں اپنے رہنما، دوست اور تاریخی اتحادی نبیہ بری کے ساتھ اس دوستانہ اور گرم ملاقات کے بعد "اسی بات" کا اظہار کرنا چاہتا ہوں!
اسرائیل کے دوستانہ و اقتصادی تعلقات کی استواری کے بارے مذاکرات سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ولید حنبلاط نے کہا کہ دیکھیں، واشنگٹن میں اسرائیلی سفیر نے دوستانہ تعلقات کے حوالے سے بات کی ہے.
ہتھیاروں پر لبنانی حکومت کی اجارہ داری اور اسرائیلی جارحیت کے تسلسل کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ولید جنبلاط نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم، لبنانی فوج کو مضبوط بنانے اور جنوب میں، دریائے لیطانی کے جنوب میں ہتھیاروں کو محدود کرنے اور جنوبی سرزمین پر حکومتی خودمختاری کو مستحکم کرنے کے لئے جو اقدامات چل رہے ہیں، سے متفق ہیں.. جس کے بعد بعد ان اقدامات کو پوری لبنانی سرزمین میں پھیلا دیا جانا چاہیئے! لبنانی سیاسی رہنما نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ مت بھولئے کہ لبنانی فوج کو کہاں سے مدد ملتی ہے، صرف واحد ملک کہ جو بہت ہی کم مالی امداد فراہم کرتا ہے قطر ہے.. ہمیں مزید فوجیوں کی بھرتی کے لئے مدد کی ضرورت ہے.. ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ مزید 1 سال کے بعد جنوبی لبنان عالمی فورسز سے خالی ہو جائے گا لہذا ہمیں مزید فوجیوں کی ضرورت ہے.. جنوبی سرزمین کے لئے.. لبنان - شام سرحد کے لئے یا اس کے دوسرے حصوں کے لئے..
امریکی ایلچی ٹام بارک کے اس بیان کہ حزب اللہ لبنان کو "غیر مسلح" کرنے کی "کوئی ضرورت ہی نہیں" بلکہ اس اسلحے کے استعمال کو روکنا ضروری ہے، کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ولید جنبلاط نے مزید کہا کہ فی الحال تو "شکل" کے بارے بات کی جا رہی ہے جبکہ "مواد" کے لحاظ سے 5 رکنی کمیٹی موجود ہے.. ہم بھی اسی کے بیانات و طریقہ کار پر اکتفاء کرتے ہیں!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ولید جنبلاط دیتے ہوئے نے کہا کہ کے ساتھ کے بارے کے لئے کے بعد
پڑھیں:
جرمنی بھی فلسطین کے دو ریاستی حل کا حامی، ریاست کا قیام اور امن مذاکرات ناگزیر قرار
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دوبارہ فلسطین کے دو ریاستی حل سے انکار کرتے ہوئے کہا فلسطینی ریاست کا مقصد اسرائیل کو تباہ کرنا ہے، ہمارے عوام فلسطینی ریاست کے خلاف ہیں، مغربی کنارے کی موجودہ صورتحال برقرار رہے گی۔ اسلام ٹائمز۔ جرمنی بھی فلسطین کے دو ریاستی حل کا حامی، فلسطینی ریاست کا قیام اور امن مذاکرات ناگزیر قرار دے دیئے۔ جرمن چانسلر نے تل ابیب میں نیتن یاہو کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ٹرمپ پلان کے دوسرے مرحلے کا آغاز ضروری ہے، اسرائیل کو بعض معاملات میں انٹرنیشنل نگرانی قبول کرنا ہوگی، حماس کا غزہ میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نیا مشرق وسطیٰ چاہتے ہیں، جہاں فلسطینی ریاست تسلیم کی جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دوبارہ فلسطین کے دو ریاستی حل سے انکار کرتے ہوئے کہا فلسطینی ریاست کا مقصد اسرائیل کو تباہ کرنا ہے، ہمارے عوام فلسطینی ریاست کے خلاف ہیں، مغربی کنارے کی موجودہ صورتحال برقرار رہے گی۔