آسٹریلیا نے افغانستان کی طالبان حکومت کے چار اعلیٰ عہدیداروں پر مالی پابندیاں اور سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

آسٹریلوی وزیرِ خارجہ پینی وونگ کے مطابق یہ اقدام افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی حقوق کی صورتحال، خصوصاً خواتین اور بچیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی پابندیوں کے باعث اٹھایا گیا ہے۔

پینی وونگ کا کہنا ہے کہ ان طالبان حکام پر الزام ہے کہ وہ خواتین کی تعلیم، ملازمت، نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں شرکت پر سخت پابندیاں لگا رہے ہیں، جو بنیادی انسانی اقدار کے خلاف ہے۔ پابندیوں کا نشانہ بننے والوں میں تین طالبان وزراء اور چیف جسٹس شامل ہیں۔

آسٹریلیا نے ایک نیا حکومتی فریم ورک متعارف کرایا ہے جس کے تحت وہ براہ راست ایسے افراد پر پابندیاں لگا سکے گا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہوں۔ آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد طالبان پر دباؤ بڑھانا اور افغان عوام کی حمایت کرنا ہے۔

یاد رہے کہ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد آسٹریلیا نے ہزاروں افغان شہریوں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے، کو بطور مہاجر قبول کیا تھا۔ افغانستان میں اس وقت بھی بڑی تعداد میں لوگ انسانی امداد پر انحصار کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آسٹریلیا نے

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات کب تک معمول پر آ سکتے ہیں، اور عالمی سطح پر افغانستان مخالف دباؤ کیا شکل اختیار کر سکتا ہے؟

تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات کی بہتری کے اِمکانات بہت محدود ہیں لیکن افغان طالبان رجیم عالمی ردعمل کا شکار ہو سکتی ہے جس سے افغان عوام کی زندگیاں مزید متاثر ہو سکتی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو مشکل حالات میں سہارا دیا لیکن طالبان رجیم نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی خراب کر لیے جن کا فوری طور پر حل مشکل نظر آتا ہے۔

ایک روز قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن سرحد پر شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ بعض خبروں کے مطابق افغانستان میں ان حملوں سے جانی نقصان ہوا ہے جبکہ پاکستان کے سرحدی گاؤں میں 3 لوگ زخمی ہوئے۔

مزید پڑھیں: افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب

اس صورتحال نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے اور پہلے سے مذاکرات کے اندر ڈیڈ لاک کی کیفیت کو مزید ابتر کردیا ہے۔

دوسری طرف اقوامِ متحدہ کی درخواست پر پاکستان نے انسانی امداد کی فراہمی کے لیے جب طورخم سرحد کھولنے پر آمادگی ظاہر کی تو افغان طالبان رجیم کی جانب سے کہا گیا کہ وہ انسانی امداد تو قبول کریں گے لیکن اگر کسی اور ملک کی سرحد کے ذریعے سے بھجوائی جائے۔

پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ممالک اس وقت نا صرف افغانستان کو دہشتگردی کے مرکز کے طور پر دیکھ رہے ہیں بلکہ عالمی تنظیمیں افغانستان میں عورتوں کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے افغان طالبان حکومت کے خلاف مزید سخت پابندیوں کے مطالبات کر رہی ہیں جن کی وجہ سے افغان عوام کی زندگیاں مزید متاثر ہو سکتی ہیں۔

افغان طالبان اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، مسعود خان

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب مسعود خان نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان سے جنگ چھیڑ کر افغان طالبان رجیم اپنی اندرونی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ افغانستان کو حالت جنگ میں مبتلا کرکے وہ پورے افغان عوام کو پاکستان کی دشمنی پر مائل کرنا چاہتے ہیں تاکہ جو آوازیں ان کے خلاف اٹھ رہی تھیں وہ پاکستان کے خلاف ہو جائیں۔ کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی بنیادی دشمنی نہیں ہے۔ لیکن یہ خطے کے استحکام کے لیے خطرناک ہے۔

افغانستان پر بڑھتا ہوا عالمی دباؤ

پاکستان اور ایران نے حالیہ برسوں میں لاکھوں افغان شہریوں کو ان کے وطن واپس بھجوایا ہے جس کی بعض دیگر کئی وجوہات کے ساتھ ساتھ یہ وجہ بھی اہم تھی کہ افغان شہریوں کے حوالے سے کہا گیا کہ وہ دہشتگردی کے سہولت کار ہیں۔

’دوسری طرف دہشتگردی کے الزامات کے تحت افغان شہریوں کی امریکا میں گرفتاریاں اور افغان سرزمین سے تاجکستان پر ہونے والے حملوں کے بعد سے نہ صرف افغان شہریوں کو دنیا بھر میں خطرے کی علامت کی طور پر پیش کیا جا رہا ہے بلکہ افغانستان کو دہشتگردی کے مرکز کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے افغان حکومت مشکلات کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔‘

عالمی امداد حاصل کرنے کے باوجود طالبان کی جابرانہ پالیسیاں جاری

امریکا کے اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان ریکنسٹرکشن (سگار) نے افغان طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد جاری کردہ رپورٹ میں کہا تھا کہ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے قریباً 3.71 بلین ڈالر کی امداد خرچ کی گئی جس میں سے 64.2 فیصد اقوام متحدہ کی ایجنسیوں یو این ایم اے ایم اور اور ورلڈ بینک کے زیر انتظام افغانستان ریزیلینس ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے تقسیم کیا گیا۔

لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ اتنی بڑی امداد کے باوجود افغان طالبان کی جابرانہ پالیسیاں جاری ہیں۔ افغان طالبان نے تاحال خواتین کی تعلیم پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

سگار کی حالیہ رپورٹ جو طالبان سے پہلے کے دور کا احاطہ کرتی ہے وہ 3 دسمبر 2025 کو جاری ہوئی جس کے مطابق افغانستان میں 2001 سے 2021 تک قریباً 20 سال کے دوران تعمیرِ نو اور ریاستی استحکام کے لیے خرچ کیے گئے قریباً 148 ارب ڈالر اپنے بنیادی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

رپورٹ کے مطابق اس پورے عمل کو بدعنوانی، ناقص نگرانی، غلط مفروضات اور مقامی حقائق کو نظر انداز کرنے نے شدید نقصان پہنچایا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ شفاف اور پائیدار حکومتی ڈھانچہ قائم نہ ہو سکا، افغان سیکیورٹی فورسز بیرونی مدد کے بغیر خود کو برقرار نہ رکھ سکیں، بڑی مقدار میں امدادی رقوم اور وسائل ضائع ہوئے اور بعض معاملات میں طالبان کے کنٹرول میں بھی چلے گئے، جس کے نتیجے میں قانون کی حکمرانی، عوامی اعتماد اور ادارہ جاتی صلاحیت مضبوط نہ بن سکی۔

اسی ناکامی کی قیمت نہ صرف امریکی ٹیکس دہندگان بلکہ عام افغان عوام نے بھی ادا کی، یہی وجہ ہے کہ آج عالمی برادری افغانستان کے معاملے میں امداد کو سخت شرائط، انسانی حقوق خصوصاً خواتین کی تعلیم و آزادی، اور بہتر حکمرانی سے مشروط کرنے پر زور دے رہی ہے۔

آسٹریلیا کی جانب سے اعلیٰ افغان عہدیداروں پر پابندیاں

آسٹریلیا کی حکومت نے گزشتہ روز چار افغان اعلیٰ عہدیداروں پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کی ہیں جن میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وزیر محمد خالد حنفی، وزیر اعلیٰ تعلیم ندا محمد ندیم، وزیرِ انصاف عبدالحکیم شرعی اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی شامل ہیں۔

آسٹریلیا کی حکومت نے افغان اعلیٰ عہدیداروں پر پابندیاں عورتوں کے حقوق سلب کرنے کے الزامات کے تحت لگائی ہیں۔

اس سال فروری میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی خواتین وزرائے خارجہ نے ایک اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے افغانستان میں طالبان کی ڈی فیکٹو اتھارٹیز کی جانب سے انسانی حقوق کی جاری اور منظم خلاف ورزیوں پر شدید تشویش پر تبادلہ خیال کیا اور اپنے اس مؤقف کی توثیق کی، خصوصاً وہ خلاف ورزیاں جو خواتین اور لڑکیوں کو متاثر کر رہی ہیں۔

ہو سکتا ہے سعودی عرب کی میزبانی میں مذاکرات چلتے رہیں، طاہر خان

افغانستان کے حوالے سے معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان تعلقات کب تک معمول پر آئیں گے یہ کہنا مُشکل ہے۔

انہوں نے کہاکہ سہ فریقی مذاکرات تو ناکام ہو گئے ہیں لیکن سعودی عرب کی میزبانی میں جو حالیہ مذاکرات ہوئے ہیں گو کہ اُن میں فریقین کا مؤقف سخت ہے لیکن ممکن ہے یہ مذاکرات چلتے رہیں۔

طاہر خان نے کہاکہ پاکستان افغان طالبان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتا نہ طالبان پاکستان کے مطالبات مان رہے ہیں اِس لیے اس وقت ایک ڈیڈ لاک کی کیفیت ہے۔

مزید پڑھیں: چمن سیکٹر میں افغان طالبان کی بلا اشتعال فائرنگ، پاکستان کا بھرپور اور مؤثر جواب

’ساتھ ساتھ میں جب حملے اور پُرتشدد کارروائیاں ہوتی رہیں گی تو معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ کل جو چمن پر فائرنگ ہوئی اس نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، کیونکہ اب جنگوں میں یہ ہوگیا ہے کہ راستوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے اور اِسی وجہ سے بہت زیادہ تلخی پیدا ہو گئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی درخواست پر پاکستان نے انسانی امداد کے لیے طورخم بارڈر کھولنے پر رضامندی ظاہر کی تو طالبان کہتے ہیں کہ وہ کسی اور ملک کے بارڈر سے انسانی امداد لینے کو تیار ہیں نہ کہ پاکستان کے راستے سے۔ تو اب مزید تلخی بڑھ گئی ہے جس کے فی الوقت کم ہونے کا اِمکان نظر نہیں آتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews افغان طالبان رجیم پاک افغان کشیدگی چمن بارڈر فائرنگ سعودی عرب سہ فریقی مذاکرات مذاکرات ڈیڈلاک وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • آسٹریلیا نے افغان طالبان عہدیداران پر پابندیاں عائد کر دیں
  • افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، آسٹریلیا کا طالبان حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان
  • پاک افغان تعلقات کب تک معمول پر آ سکتے ہیں، اور عالمی سطح پر افغانستان مخالف دباؤ کیا شکل اختیار کر سکتا ہے؟
  • افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب
  • آسٹریلیا نے افغان طالبان پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کردیں
  • افغان ڈیموکریٹک اپوزیشن نے طالبان سے یورپ سمیت خطے کو درپیش خطرات سے آگاہ کر دیا
  • افغانستان کیساتھ صرف انسانی امدادی کارروائی کیلیے کھولی ،دفتر خارجہ
  • امریکا کی سفری پابندی 19سے بڑھاکر 30 سے زائد ملکوں پر لگانے کی تیاری
  • افغانستان: ایک ہی گھر کے 13 افراد کے قاتل کو سرعام سزائے موت