آسٹریلیا نے افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی حقوق کی صورتحال، خصوصاً خواتین اور بچیوں کے خلاف عائد شدید پابندیوں کے پیشِ نظر، طالبان حکومت کے 4 اعلیٰ حکام پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

آسٹریلیا کی وزیرِ خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ یہ حکام خواتین اور بچیوں کے حقوق سلب کرنے اور افغانستان میں اچھی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کو کمزور کرنے میں ملوث ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: افغانستان سے بڑھتی دہشت گردی، عالمی رد عمل کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟

واضح رہے کہ آسٹریلیا ان ممالک میں شامل تھا جس نے اگست 2021 میں افغانستان سے اپنے فوجی نکال لیے تھے۔ آسٹریلیا 2 دہائیوں تک نیٹو کی زیرِ قیادت بین الاقوامی فورس کا حصہ رہا، جس نے افغان سیکیورٹی فورسز کو تربیت دی اور طالبان کے خلاف کارروائیاں انجام دیں۔

طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے عالمی سطح پر انہیں خواتین کے حقوق اور آزادیوں پر سخت پابندیاں عائد کرنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے، جن میں تعلیم، ملازمت، سفر اور عوامی زندگی میں حصہ لینے پر قدغن شامل ہیں۔ طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی قانون اور مقامی روایات کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب

پینی وونگ کے مطابق پابندیوں کا نشانہ بننے والوں میں 3 طالبان وزرا اور چیف جسٹس شامل ہیں، جن پر خواتین اور بچیوں کے بنیادی حقوق محدود کرنے کا الزام ہے۔

وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ یہ اقدامات آسٹریلوی حکومت کے نئے فریم ورک کے تحت کیے گئے ہیں، جس کے ذریعے وہ براہِ راست ایسی پابندیاں لگا سکتی ہے جن کا مقصد طالبان پر دباؤ بڑھانا اور افغان عوام کے استحصال کو روکنا ہے۔

طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد آسٹریلیا نے ہزاروں افغان شہریوں خصوصاً خواتین اور بچوں کو اپنے ملک میں پناہ دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آسٹریلیا افغان طالبان پابندی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: آسٹریلیا افغان طالبان پابندی خواتین اور

پڑھیں:

ایران میں بغیر حجاب خواتین کا میراتھون ایونٹ، منتظمین گرفتار

ایران میں خواتین کی بغیر حجاب میراتھن میں شرکت پر حکام نے میراتھن کے دو منتظمین کو گرفتار کر لیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق گرفتاری اُس وقت عمل میں آئی جب جنوبی ایران کے ساحل کے قریب واقع جزیرہ کِش میں ہونے والی میراتھن کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں جن میں متعدد خواتین کو بغیر حجاب دوڑ میں شریک دیکھا گیا۔

اس میراتھن میں دو ہزار خواتین اور تین ہزار مردوں نے الگ الگ حصہ لیا تھا۔ تصاویر میں کئی خواتین سرخ شرٹس پہنے بغیر حجاب دوڑتی نظر آئیں جبکہ بعض نے سر بھی نہیں ڈھانپا ہوا تھا، جس کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا۔

تبدیلی کے حامی ایرانی شہریوں نے اسے خواتین کی جانب سے سرکاری پابندیوں کے خلاف ایک بہادرانہ قدم قرار دیا، جبکہ حکام کے مطابق یہ اقدام بنیادی قوانین کی خلاف ورزی اور موجودہ نظام کے لیے چیلنج ہے۔

ایرانی عدلیہ نے فوری ایکشن لیتے ہوئے منتظمین کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ نہ صرف حجاب قانون کی خلاف ورزی قابل اعتراض ہے بلکہ اس بات پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ ایسی میراتھن کے انعقاد کی اجازت کیوں دی گئی۔

واضح رہے کہ ایران میں عوامی مقامات پر خواتین کا سر ڈھانپنا لازمی ہے، اور 2022 میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد ملک بھر میں شدید مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • آسٹریلیا نے طالبان پر سخت ترین مالی و سفری پابندیاں لگا دیں
  • ایران میں بغیر حجاب خواتین کا میراتھون ایونٹ، منتظمین گرفتار
  • پاک افغان تعلقات کب تک معمول پر آ سکتے ہیں، اور عالمی سطح پر افغانستان مخالف دباؤ کیا شکل اختیار کر سکتا ہے؟
  • آسٹریلیا نے افغان طالبان پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کردیں
  • افغان ڈیموکریٹک اپوزیشن نے طالبان سے یورپ سمیت خطے کو درپیش خطرات سے آگاہ کر دیا
  • اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سفاکیت کا پردہ چاک کر دیا
  • اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سفاکیت کا پردہ چاک کردیا
  • افغانستان کیساتھ صرف انسانی امدادی کارروائی کیلیے کھولی ،دفتر خارجہ
  • واشنگٹن میں افغان شہری کے حملے میں امریکی اہلکار ہلاک؛ طالبان کا پہلا بیان سامنے آگیا