پاکستان سے ادویات کی تجارت روکنے کے بعد افغانستان میں طبی بحران پیدا
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
افغان طالبان کے پاکستان سے ادویات کی درآمد روکنے کے فیصلے کے بعد افغانستان میں طبی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ طالبان حکومت کے نائب سربراہ اور معاشی امور کے نگران عبدالغنی برادر نے پاکستانی ادویات کو ’ناقص‘ قرار دیتے ہوئے افغان درآمد کنندگان کو ہدایت دی تھی کہ وہ تین ماہ کے اندر پاکستانی کمپنیوں کے واجبات ادا کریں اور ادویات کے لیے نئے ذرائع تلاش کریں۔
تاہم جرمن میڈیا کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے لیے نئے سپلائرز تلاش کرنا آسان نہیں۔ طالبان کے ڈائریکٹر جنرل برائے انتظامی امور نوراللہ نوری کے مطابق افغانستان میں استعمال ہونے والی ادویات کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ پاکستان سے آتا ہے، مگر دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر کشیدگی اور جھڑپوں کی وجہ سے تقریباً دو ماہ سے سرحد بند ہے۔
ہارث کی سماجی کارکن لینا حیدری نے بتایا کہ ادویات کی شدید قلت کے ساتھ قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں اور مقامی مارکیٹوں میں غیر معیاری، ایکسپائریڈ یا جعلی ادویات کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جرمن میڈیا کے مطابق طالبان حکومت اب ادویات کے لیے دیگر ممالک کا رخ کر رہی ہے۔ اس ہفتے افغان اور بھارتی کمپنیوں کے درمیان طالبان نمائندوں کی موجودگی میں 10 کروڑ ڈالر مالیت کا ادویات کا معاہدہ بھی ہوا۔
اسی دوران بھارت کی وزارتِ خارجہ نے کابل کے لیے 73 ٹن جان بچانے والی ادویات، ویکسین اور طبی سامان بھیجنے کی تصدیق کی ہے، تاہم یہ امداد 4 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک کے لیے صرف علامتی اہمیت رکھتی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پاکستان پر افغان طالبان رجیم کے حملوں کے سبب تاجکستان اور ایران بھی عدم استحکام کا شکار ہیں، افضل رضا
پاکستان اور ایران کے درمیان سفارتی رابطوں میں حالیہ تیزی نے خطے کی سیاست پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر علی لاریجانی کا دورہ پاکستان 10 سال بعد کسی ایرانی اعلیٰ سیکیورٹی عہدیدار کا پہلا دورہ تھا جسے دونوں ممالک کے درمیان ’اعتماد سازی کا اہم موڑ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی جارحیت کے دوران پاکستان نے بھرپور ساتھ دیا، علی لاریجانی
اسلام آباد میں ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا کے پاکستان میں نمائندے افضل رضا نے کہا کہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان اور ایران دونوں حالیہ علاقائی کشیدگی کے دوران ایک دوسرے کی سیاسی حمایت کا برملا اظہار کرچکے تھے۔
افضل رضا کے مطابق لاریجانی کے دورے کا مرکزی مقصد سپریم لیڈر، ایرانی قوم اور ریاستی اداروں کی جانب سے پاکستان کا شکریہ ادا کرنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور ایران کشیدگی کے دوران پاکستان وہ واحد ملک تھا جہاں حکومت، عوام اور پارلیمنٹ نے کھل کر ایران کی حمایت کی۔
افضل رضا نے کہا کہ ’ایرانی پارلیمنٹ میں بھی پاکستان کے حق میں نعرے لگائے گئے، جسے تہران نے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئی کیفیت قرار دیا‘۔
مزید پڑھیے: ایرانی سپریم لیڈر کے ترجمان علی لاریجانی کے دورہ پاکستان کے مقاصد کیا ہیں؟
افضل رضا کا کہنا تھا کہ 2025 اور 2026 میں پاک ایران تعلقات کا فوکس واضح ہے، سرحدی منڈیوں کو فعال کرنا، فری ٹریڈ ایگریمنٹ کو عملی شکل دینا، تجارت کا حجم 3.2 بلین ڈالر سے 10 بلین ڈالر تک بڑھانا، وغیرہ۔
انہوں نے کہا کہ ’ایران کے اسپیکرِ پارلیمنٹ نے حالیہ دورے میں اعلان کیا کہ وہ ذاتی طور پر تجارت بڑھانے کے اقدامات کو فالو کریں گے جبکہ چابہار اور گبد میں تاجروں کی مشترکہ ملاقاتیں بھی طے ہیں اور لاریجانی کا دورہ اسی سلسلے کو مزید مضبوط کرنے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے‘۔
افغانستان: پاکستان اور ایران کے مشترکہ خدشات کیا ہیں؟دونوں ممالک کے تعلقات میں افغانستان ہمیشہ سے ایک اہم فیکٹر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ایرانی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی لاریجانی کی ملاقات، آئی ایس پی آر
افضل رضا کے مطابق سنہ 2021 کے بعد قائم ہونے والا طالبان رجیم اپنے ہمسایوں کے تحفظات دور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پر حملے بڑھ چکے ہیں جبکہ تاجکستان اور ایران بھی عدم استحکام کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایران طالبان سے رابطے ضرور رکھتا ہے مگر تحفظات انتہائی سنجیدہ ہیں، خصوصاً پانی کے حقوق پر سنجیدگی زیادہ ہے‘۔
افضل رضا نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ سنہ 1998 میں طالبان کے ہاتھوں مزار شریف میں 9 ایرانی سفارتکاروں کی ہلاکت ایران آج تک نہیں بھولا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی پالیسی یہ ہے کہ افغان عوام کو طالبان سے الگ رکھا جائے اور بارڈر مینجمنٹ جاری رہے، مگر تلخ ماضی کو بھلانا ممکن نہیں ہے۔
کیا طالبان پاکستان کو چھوڑ کر ایران یا بھارت کی طرف جا سکتے ہیں؟اس حوالے سے سے بات کرتے ہوئے افضل رضا نے کہا کہ چاہ بہار کا راستہ طویل، مہنگا اور افغانستان کے لیے عملی طور پر مشکل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ایرانی ٹاپ سیکیورٹی آفیشل علی لاریجانی کا دورہ، پاک ایران تعاون مزید مضبوط
انہوں نے کہا کہ بھارت نے 9 سال قبل جس بڑے منصوبے کا اعلان کیا تھا، اس پر ابھی تک عملی پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں ںے مزید کہا کہ امریکی استثنیٰ کے باوجود بھارت کی سرمایہ کاری سست رفتاری کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی معیشت کو مکمل طور پر پاکستان سے ہٹانا زمینی حقائق کے برعکس ہوگا کیونکہ پاکستان ہی افغانستان کے لیے سب سے سستا اور محفوظ راستہ ہے۔
کیا پاک ایران تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں؟افضل رضا کا کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ مہینوں میں ہونے والے ایک کے بعد ایک اعلیٰ سطح کے دورے یہ تاثر مضبوط کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک خطے کی نئی سیاست میں ایک دوسرے کو زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب پاکستان سیکیورٹی معاہدے کا ایران کی جانب سے خیر مقدم بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ایران کو گرانے کی کوشش ناکام، اسرائیل کو 12 روزہ جنگ میں پسپائی ہوئی، علی لاریجانی
انہوں نے بتایا کہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق تہران سمجھتا ہے کہ خطے میں استحکام کے لیے اسلام آباد کا کردار فیصلہ کن ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایران پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اسٹریٹجک گہرائی دینا چاہتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران پاک ایران تعلقات پاکستان سیکریٹری سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل ڈاکٹر علی اردشیر لاریجانی نمائندہ ارنا افضل رضا