دریائے ہلمند پر ایران افغان تنازع: طالبان رجیم دوستوں کو دشمن بنا رہی ہے
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
افغان طالبان حکومت اور ایران کے درمیان دریائے ہلمند کے پانی پر تنازعہ شدت اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی ایما پر افغان طالبان کی کارروائیوں سے پورا خطہ کس طرح متاثر ہو رہا ہے؟
نومبر 2025 میں ایران نے اعتراض کیا کہ گزشتہ برس دریائے ہلمند پر دونوں ملکوں کے مابین 1973 کے معاہدے کے خلاف صرف تقریباً 16 فیصد یعنی معاہدہ کردہ پانی کا بہت کم حصہ پانی ملا جو ناقابل قبول ہے۔ اس موقعے پر ایرانی دفترِ خارجہ نے مشترکہ تکنیکی کمیٹی بنانے کی بھی بات کی۔
اس پر افغان طالبان حکومت نے اپنے ردعمل میں دعویٰ کیا کہ پانی کی کمی خشک سالی اور پانی کی قدرتی کمی کی وجہ سے ہے، اور وہ ’ممکنہ حد تک‘ معاہدے پر کاربند ہیں لیکن ایرانی میڈیا نے طالبان کے ایک سینیئر وزیر کو ’گمراہ کن بیانات‘ دینے پر تنقید کی ہے اور ایران نے کہا ہے کہ اگر پانی فراہم نہ ہوا تو وہ سفارتی و سیاسی ذرائع استعمال کرے گا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان دریائے کابل کا پانی روکنے کی پاکستان کو بھی اس طرح کے دھمکیاں دے چکا ہے لیکن اس روّیے سے افغانستان اپنے قابل اعتبار پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو بگاڑ کر اپنے لیے معاملات خراب کر رہا ہے۔
دریائے ہلمند تنازع کیا ہے؟ہلمند دریا افغانستان کا سب سے طویل دریا ہے جو ہندوکش کے پہاڑی سلسلے سے نکل کر جنوب مغرب کی سمت بہتا ہوا بالآخر ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں واقع ہَمون جھیلوں کو پانی فراہم کرتا ہے۔
دونوں ممالک یعنی ایران اور افغانستان کے درمیان اس دریا کے پانی کی تقسیم کے لیے سنہ 1973 میں ایک باقاعدہ معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت افغانستان نے ایران کو سالانہ تقریباً 820 ملین مکعب میٹر پانی دینے پر اتفاق کیا۔
مزید پڑھیے: ایران نے افغانستان کے ساتھ بارڈر سیل کرنے کا بڑا فیصلہ کیوں کیا؟
تاہم اس معاہدے کے باوجود کم بارش، طویل خشک سالی اور افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر اور پانی کو موڑنے والے منصوبوں کی وجہ سے ہلمند کے بہاؤ میں نمایاں کمی واقع ہوئی جس میں کاجکی ڈیم اور کمال خان ڈیم خاص طور پر نمایاں ہیں۔
نتیجتاً ایران کے سرحدی علاقوں، خصوصاً صوبہ سیستان و بلوچستان میں آبی قلت پیدا ہوئی جس سے زراعت، مقامی معیشت اور ماحولیاتی نظام شدید متاثر ہوئے، ہَمون جھیلیں بڑی حد تک خشک ہو گئیں اور مقامی آبادی و مویشی پالنے والوں کو سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
طالبان حکومت ایرانی پانی کے حقوق دانستہ پامال کر رہی ہے، افضل رضاپاکستان میں ایرانی خبر رساں ادارے اِرنا کے بیوروچیف افضل رضا نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ افغان طالبان رجیم ایران کے پانی کے حقوق کو دانستہ طور پر بار بار تاخیر کا شکار کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے دور میں افغانستان اور ایران کے درمیان پانی کا یہ تنازع اِس طرح سے نہیں تھا لیکن افغان طالبان رجیم ایران کو نیچا دِکھانے کے لیے ایسا کر رہی ہے حالانکہ ایران کے شہید صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے سیستان بلوچستان کے دورے کے دوران طالبان کو سخت الفاظ میں متنبہ کیا تھا کہ طالبان کو اپنا روّیہ درست کر کے اس طرح کی حرکتوں سے باز آنا چاہیے۔
افضل رضا نے کہا کہ اسی پانی کے مسئلے کی وجہ سے ایرانی وزیرخارجہ آغا عباس عراقچی نے حال ہی میں کابل کا دورہ بھی کیا تھا جس میں اُنہوں نے افغانستان سے کہا کہ ہمارے پانی کے حقوق کو متنازع نہ بنائیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان کے پشدان ڈیم پراجیکٹ پر ایران کے کیا تحفظات ہیں؟
انہوں نے کہا کہ گو کہ ایران نے افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن ہمسائیگی اور مشترکہ سرحد کی وجہ سے اور خاص طور پر افغانستان کے عوام کا خیال کرتے ہوئے ایران کوئی راست قدم نہیں اُٹھانا چاہتا۔
افضل رضا نے بتایا کہ ایرانی حکومت اِس معاملے کو پوری سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اِس معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ افغان طالبان رجیم پاکستان کے خدشات کو خاطر میں نہیں لاتے لیکن ایران اپنے حقوق کے لئے کوئی بھی قدم اُٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اکتوبر 2025 پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات کی کشیدگی سے قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی حجم لگ بھگ 2 ارب ڈالر جبکہ ایران اور افغانستان کے درمیان چار ارب ڈالر تھا۔ افغانستان اپنی زیادہ تر ضروریات کے لیے اِنہی 2 پڑوسی ملکوں پر انحصار کرتا آیا ہے اور ہر قسم کے جنگی حالات میں اِنہی 2 ملکوں نے افغانستان کے مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: چمن سرحد کی طویل بندش، افغانستان کو ادویات اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا
پاکستان کے ساتھ تجارتی راستے بند ہونے کے بعد افغانستان کی تجارت کا زیادہ انحصار ایرانی بندرگاہ چاہ بہار پر بڑھ گیا ہے لیکن افغانستان اپنے ان دو پڑوسی ملکوں کے ساتھ تنازعات کو ہوا دینے جبکہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان ایران ایران افغانستان تنازع دریائے ہلمند.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان ایران ایران افغانستان تنازع دریائے ہلمند اور افغانستان کے درمیان افغان طالبان دریائے ہلمند طالبان حکومت طالبان رجیم اور ایران کی وجہ سے ایران نے نے افغان ایران کے افضل رضا کہ ایران پانی کے کے ساتھ کہا کہ رہی ہے کے لیے نے کہا
پڑھیں:
موضوع: افغانستان پاکستان مذاکرات۔۔۔۔ تازہ ترین صورت حال
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں تازہ ترین مسائل کے بارے میں نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کی جاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںتجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: افغانستان پاکستان مذاکرات۔۔۔۔ تازہ ترین صورت حال
مہمان تجزیہ نگار: محترمہ ڈاکٹر عائشہ طلعت صاحبہ
میزبان: سیدانجم رضا
پیشکش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
ممکنہ سوالات
پاکستان افغانستان مذاکرات کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟
دونوں ممالک کو مذاکرات آگے بڑھانے میں کیا رکاوٹیں ہیں؟
ایران اور سعودی عرب نے ثالثی کی پیشکش کی اس سے پہلے قطر اور ترکی نے بھی کردار ادا کیا لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے ، مذاکرات کا مستقبل کیسا دیکھا جا رہا ہے؟
خلاصہ گفتگو و اہم نکات:
پاک افغان اختلاف صرف دو ممالک کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ پورے خطے کے امن، تجارت، انسانی زندگی اور مستقبل سے جڑا سوال ہے
ریاض میں طالبان پاکستان مذاکرات بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئے۔
ریاض میں ملاقات کی جس میں اہم سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے طریقے تلاش کیے گئے
ذرائع کے مطابق مذاکرات بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہوئے اور دونوں فریق اپنے سابقہ موقف پر قائم رہے۔
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی خرابی میں اہم مسئلہ باہمی اعتماد کی کمی ہے
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لئے مثبت ڈپلو میٹک اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے
چین اور ایران پاکستان کے تعلقات کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں
پاکستان کو بھی افغانستان کے حوالہ سے اپنی پالیسیوں کو درست سمت میں کرنے کی ضرورت ہے
امریکہ بگرام ایئر پورٹ پہ قبضہ کی ہوس رکھے ہوئے ہیں
چین اور ایران جیسے دوست ممالک امریکہ کو افغانستان میں سہلکاری دینے پہ پاکستان سے خوش نہ ہونگے
پاک افغان قضیئے مین تشویش ناک بات دو مسلم ممالک کا استعماری شہ پہ باہمی بر سر پیکار ہونا ہے
مسلم ممالک کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئں ،اور باہمی اتفاق کو قائم رکھنا چاہیئے
مسلم ممالک باہمی اتفاق سے مل کر رہنے کے لئے متفقہ لائحہ عمل بنانا چاہیئے
پاکستان میں امریکی مداخلت کو دن بدن بڑھتے ہوئے دیکھ کر چین نے سی پیک پلس کا آئیڈیا دیا تھا
سی پیک پلس میں ایک سڑک براستہ پاک افغان ایران تک پہنچنے کا منصوبہ ہے
لگتا ہے کہ سی پلس آئیڈیا نے امریکہ کو پریشان کردیا ہے
امریکی دباؤ بھی پاک افغان تعلقات کو بہتر نہیں ہونے دے رہا
بھارت جیسے ازلی دشمن کو بھی افغانستان میں مزید اپنی جڑیں پھیلانے کا موقع مل گیا ہے
بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بھی پاک افغانستان تعلقات کو بہتر نہیں ہونے دے رہا۔
افغانستان کو بھارت کی مسلم دشمنی اور مکار سوچ سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے
امریکی استعمار کی ملکی معیشت جنگی صنعت کاری اور انڈسٹری پہ چلتی ہے
امریکی خارجہ پالیسی میں چالاک لومڑی کی مکار سوچ کارفرما رہتی ہے
امریکی مدد کاغزہ میں یہ حال تھا کہ آٹے کے تھیلوں میں سے منشیات نکلی تھیں
پاکستان ایران اور افغانستان اس خطے کے اہم مسلم ممالک ہیں
افغانستان اور ایران کو بھارت سے خبردار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے
امریکہ نے بہت پلاننگ کے ساتھ پاکستان کی معیشت کو برباد کیا اور ہمیں آئی ایم ایف کا محتاج بنادیا ہے
پاکستان کو امریکی ہتھکنڈوں سے خبر دار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے