data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خوف کے معنی ہیں ڈر یا اندیشہ کہ کچھ ہو جائے گا‘ جو ملنے والا ہے وہ نہیں ملے گا‘ یا کوئی ایسی چیز مل جائے گی جو ناخوش گوار اور ناقابل برداشت ہو گی اور نقصان کا باعث ہوگی۔
 حزن سے مراد اس بات کا غم کہ کچھ چھن گیا یا نقصان ہوگیا‘ کوئی ضرب پڑگئی‘ کوئی چیز ملنا چاہیے تھی نہ ملی اور جو چیز نہ ملنا چاہیے تھی وہ مل گئی۔ غم کی اس کیفیت کو حزن وملال کہا جاتا ہے۔
 دراصل نفس کے اندر کی یہ وہ کیفیات ہیں جن سے اصل رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر آدمی خوف اور اندیشوں پر پہلے سے قابو نہ پائے تو جن چیزوں کا خوف و اندیشہ اس کو لاحق رہتا ہے وہ اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ خدشات کہ اگر میں نے ایسا کیا تو یہ ہوجائے گا‘ ایک چیز جو ہاتھ لگنے والی ہے اگر ہاتھ نہ لگی تو یہ بڑا نقصان ہو جائے گا‘ میری عزت کو‘ میری دولت کو‘ معاشرے میں میرے مقام ومرتبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘ سیاسی‘ مادی‘ مالی یا جو کچھ بھی حیثیت ہے‘ ہاتھ سے نکل جائے گی ۔۔۔ یہ خوف وخدشات جب آدمی کے اوپر طاری ہوتے ہیں‘ تو پھر بالآخر وہ ان کے ڈر سے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔
 دوسرا پہلو غم اور حزن کا ہے‘ یعنی یہ کہ جو چیز حاصل تھی وہ ہاتھ سے نکل گئی‘ کوئی مرگیا یا مال کا نقصان ہوگیا‘ یا کسی نے عزت کے اوپر حملہ کردیا‘ گالی دے دی وغیرہ۔ جب کوئی نقصان ہوجاتاہے یا عزت تک ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو آدمی کو اس کا غم ہوتا ہے۔ غم ہو تو پھر غصہ بھی آتا ہے۔ غم وغصہ کا لفظ تو ہماری زبان میں‘ اردو ادب میں استعمال ہوتا ہے۔ جہاں غم پیدا ہوتا ہے وہاں غصہ بھی لازماً آتا ہے‘ کہ یہ چیز کیوں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی‘ میری عزت پہ یہ حملہ کیوں ہو گیا‘ جو چیز مجھے ملنے والی تھی وہ کیوں کوئی چھین کے لے گیا۔ اس طرح ایک طرف تو غم ہوتا ہے جو غصے کے اندر تبدیل ہو جاتا ہے‘ اور پھر غصہ بالآخر اشتعال دلاتا ہے اور اس اقدام پر مجبور کرتا ہے جو صبر کے منافی ہو۔
 یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نیک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کی اس صفت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ نہ خوف اور اندیشے کا شکار ہوں گے اور نہ کسی غم کے اندر مبتلا ہوں گے۔ جنت کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ جنت کی زندگی کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ وہاں نہ مستقبل کا اندیشہ ہو گا اور نہ کسی چیز کے چھننے کا خدشہ ہوگا (البقرۃ: 38)۔ کوئی مصیبت پڑنے کا خوف بھی دل کے اوپر طاری نہیں ہوگا‘ اور نہ کوئی چیز ہاتھ سے نکل جانے کا غم وغصہ ہوگا بلکہ اطمینان ہوگا کہ صحیح زندگی گزار آئے اور صلہ پالیا۔ کوئی حسرت نہیں ہوگی کہ یہ کام کیوں نہیں کیا اور اگر یہ کرتے تو یہ پیش نہ آتا۔ اگر غور کیا جائے تو دراصل یہی دو چیزیں ہیں جو صبر کے سرچشمے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں‘ اور صبر کے راستے میں جو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ان کا اظہار بھی انھی دو باتوں سے ہوتا ہے‘ یعنی خوف اور حزن۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہاتھ سے نکل نقصان ہو خوف اور جو چیز
پڑھیں:
اسرائیلی جارحیت خطے میں امن کیلئے نقصان دہ ہے) دفتر خارجہ(
پاکستان کی غزہ میں تازہ حملوں کی شدید مذمت، قابض فوج نے مزید فلسطینیوں کو شہید کیا
 عالمی برادری جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کو رکوانے کیلئے مؤثر کردار ادا کرے
حالیہ صیہوی کارروائیوں کے حوالے سے دفترخارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت خطے میں پائیدار امن کیلئے نقصان دہ ہے، واقعات کے مطابق پاکستان نے غزہ میں اسرائیل کے تازہ حملوں کی شدید مذمت کی ہے، جس میں قابض فوج نے مزید فلسطینیوں کو شہید کیا ہے۔وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائیاں بین الاقوامی قوانین، حال ہی میں طے پانے والے امن معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی اور اسرائیلی جارحیت خطے میں پائیدار امن کیلئے نقصان دہ ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی افواج کے ایسے جارحانہ اقدامات خطے میں پائیدار امن و استحکام کیلئے جاری عالمی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس پر پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کو فوری طور پر رکوانے کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان اپنے اصولی مؤقف کا اعادہ کرتا ہے کہ فلسطین کو 1967ء سے قبل کی سرحدوں کے مطابق ایک آزاد، خودمختار اور مستحکم ریاست کے طور پر قائم کیا جائے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، جبکہ امن معاہدے کے بعد اسرائیلی جارحیت خطے میں پائیدار امن کیلئے نقصان دہ ہے۔
 کراچی ایکسپو سینٹر میں پاکستان میں بننے والے وینٹیلیٹر کا افتتاح
کراچی ایکسپو سینٹر میں پاکستان میں بننے والے وینٹیلیٹر کا افتتاح