Jasarat News:
2025-10-31@03:54:36 GMT

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

اشاعت کی تاریخ: 31st, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مغربی فکر کا مقابلہ کیسے کریں؟
سب سے پہلا کام ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی فکر اور مغربی فلسفۂ حیات کا جو طلسم بندھا ہوا ہے‘ اس کو توڑ ڈالا جائے۔ ایک معقول اور مدلل علمی تنقید کے ذریعے یہ بات ثابت کی جائے کہ مغربی علوم و فنون میں جتنے حقائق اور واقعات ہیں‘ وہ دراصل تمام دنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہیں اور اس کے ساتھ کسی تعصب کا کوئی سوال نہیں ہے۔ لیکن ان معلومات و حقائق کو جمع کرکے جو فلسفۂ حیات اہلِ مغرب نے بنایا ہے‘ وہ قطعی باطل ہے۔ ان کو مرتب کرکے جو طرزِ فکر اور کائنات کے متعلق جو تصور اور انسان کے بارے میں جو تصور انہوں نے قائم کیا ہے اور جس کے اوپر اپنی پوری تہذیب کی عمارت انہوں نے اٹھائی ہے‘ وہ ساری کی ساری از اَوّل تا آخر باطل ہے۔ جو معاشرتی علوم (Social Sciences) انہوں نے مرتب کیے ہیں‘ جو معاشرتی فلسفہ (Social Philosophy) انہوں نے گھڑا ہے‘ وہ مُوجبِ فتنہ و فساد ہے‘ وہ انسان کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ انسان کی تباہی کے لیے ہے اور خود ان کی اپنی تباہی کے لیے ہے۔ یہ پہلا ضروری کام ہے‘ جس کے ذریعے سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر مغربی فکر و فلسفے کا جو سحر ہے‘ وہ ختم ہوجائے گا اور جس کے بغیر مسلمانوں کو اس ذہنی مرعوبیت اور ذہنی شکست خوردگی کی حالت سے نہیں نکالا جاسکتا جس میں وہ مبتلا ہیں۔ جب تک مسلمان اس ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا ہیں‘ اس وقت تک آپ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ دنیا کے ’’مقلد‘‘ کی زندگی چھوڑ کر ’’مجتہد‘‘ کی زندگی اختیار کریں گے۔ اس وقت تک تو ان کا کام آنکھیں بند کرکے اہلِ مغرب کے پیچھے چلنا ہے۔ اس حالت کو آپ نہیں بدل سکتے جب تک کہ اس سحر کو نہ توڑ دیں اور اس حقیقت کو واضح نہ کردیں کہ علمی حقائق اور چیز ہیں اور علمی حقائق کو ترتیب دے کر ایک فلسفۂ زندگی اور نظامِ حیات مرتب کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ حقائق اپنی جگہ بالکل صحیح ہوسکتے ہیں‘ لیکن فی الحقیقت ان کو مرتب کرکے مغرب میں جو فلسفۂ حیات بنایا گیا ہے‘ وہ بالکل غلط ہے!
٭—٭—٭

اس کے آگے جو دوسرا کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام علوم و فنون کو نئے اسلوب اور نئے طریقے پر مرتب کیا جائے تاکہ وہ ایک اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔ اسی طرح اسلام کے مطابق ہمیں ایک فلسفہ درکار ہے‘ جو انسان کے ذہن کی اس تلاش کو تسکین دے کہ حقیقت کیا ہے‘ مگر یہ تسکین اس عقیدے کے مطابق دے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔ حقیقت کی تلاش اور اس کی تڑپ انسان کی فطرت میں ہے‘ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مگر تلاشِ حقیقت کے مختلف راستوں میں سے صحیح راستہ ہمارے نزدیک وہ ہے جو انبیاء علیہم السلام کا تھا۔ اس راستے کے مطابق تلاشِ حقیقت‘ کائنات کی حقیقت‘ حیاتِ انسانی کی حقیقت‘ نیز اس کے مآل (انجام‘ نتائج) کو ایک فلسفے کی شکل میں مرتب کرنا تاکہ آدمی کو اس کے مطابق ڈھالا جائے۔ ظاہر ہے یہ اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک فلسفہ اسلام کے نقطۂ نظر کے مطابق مرتب کریں۔ اس کام کو کیے بغیر یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ آپ کی یونیورسٹیوں اور آپ کے کالجوں میں جو فلسفہ پڑھایا جاتا ہے یا نفسیات کے جو علوم پڑھائے جاتے ہیں یا جن دوسرے فلسفیانہ علوم کی تعلیم دی جاتی ہے‘ ان کو تبدیل کردیا جائے اور ان کی جگہ کوئی دوسرا فلسفہ پڑھایا جائے (تہذیبی کشمکش میں علم و تحقیق کا کردار)۔

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انہوں نے کے مطابق

پڑھیں:

اگر  خوبرو ’دیئیلا‘ پاکستان میں آ جائے تو؟

ذرا تصور کیجیے، اگر  البانیہ کی حسینہ ’دیئیلا‘ کی کوئی بہن پاکستان میں پیدا ہو،
یہاں کی وزارتِ اطلاعات، وزارتِ خزانہ یا وزارتِ داخلہ کا قلم دان سنبھال لے،
اور اپنے سینکڑوں ’بچوں‘ کے ساتھ پارلیمان اور بیوروکریسی کی نگرانی شروع کر دے …
تو کیا نظارہ ہو؟

اس سے پہلے کہ بات مزید بڑھے، جو لوگ ’دیئیلا‘ کو نہیں جانتے، وہ اس خوبصورت وزیر سے متعارف ہوجائیں تو زیادہ بہتر ہے۔

دیئیلا  نامی ایک وزیر البانیہ کی وفاقی کابینہ میں شامل ہے۔ اس کی تخلیق آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے ہوئی۔ یہ ڈیجیٹل کوڈ اور پکسلز پر مشتمل حسینہ ہے۔ جنوری 2025 سے یہ البانیا کے پلیٹ فارم ای البانیا(e-Albania) پر شہریوں کو آن لائن سرکاری خدمات فراہم کر رہی ہے۔

’ دیئیلا ‘ کے معانی البانوی زبان میں ’سورج‘ کے ہیں۔ اسی لیے اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ سورج کی مانند روشن وزیر ہے۔ اور وہ البانیہ کے ہر شعبہ زندگی اور اس کے تمام معاملات کو روزِ روشن کی طرح ہر البانوی شہری پر عیاں کردے گی۔ کسی سے کچھ بھی چھپا نہیں رہے گا۔

’ دیئیلا  ‘ کے فرائضِ منصبی میں شامل سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ سرکاری خریداری کے نظام (سرکاری ٹینڈرز) کو مکمل طور پر شفاف بنائے گی، اس نظام کو تیز رفتار بنائے گی۔ اس پر بدعنوانی کا سایہ بھی نہیں پڑنے دے گی۔

البانوی وزیراعظم کا خواب ہے کہ ان کے ملک کے تمام سرکاری ٹھیکے 100 فیصد صاف، شفاف ہوں اور کرپشن سے پاک ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دیئیلا سرکاری ٹھیکوں میں انسانوں کی پسند ناپسند، رشوت، طرف داری اور سیاسی مداخلت کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ ایک ایسا نظام لا رہی ہے جس میں ٹھیکہ لینے والوں کی اہلیت کا معیار  طے کرنے، قیمت کی حد مقرر کرنے اور جمع کرائی گئی دستاویزات کی تصدیق کرنے کے مراحل خودکار انداز میں طے ہوں گے۔

فی الحال دیئیلا صرف آن لائن دستاویزات کا اجرا کرتی ہے،  اور عوامی خدمات کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

البانوی حکومت تیزی سے ڈیجیٹل طرز حکمرانی کی راہ پر پیش قدمی کر رہی ہے تاہم بعض ماہرین آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘ پر انسانی نگرانی کو ضروری سمجھ رہے ہیں اور بعض کو خطرہ ہے کہ بدعنوانی اس ڈیجیٹل نظام میں بھی چوہوں کی طرح سوراخ کردے گی۔

چند روز پہلے البانیا کے وزیراعظم ’ادی راما‘ نے ایک حیران کن اعلان کیا کہ ملک کی مصنوعی ذہانت پر مبنی وزیر ’دیئیلا‘ حاملہ ہے، وہ جلد 83 ’بچوں‘ کو جنم دے گی۔

پھر انہوں نے مزید وضاحت کی کہ یہ ’بچے‘ انسان نہیں ہوں گے بلکہ ڈیجیٹل اسسٹنٹ ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک ملکی پارلیمان کے 83 ارکانِ اسمبلی میں سے ہر رکن کے  ذاتی معاون کے طور پر کام کرے گا۔

البانوی وزیراعظم کے بقول ان میں سے ہر بچہ اپنے ’باس‘ (رکن اسمبلی) کے پارلیمانی اجلاسوں کی مکمل ریکارڈنگ کرے گا، اگر وہ رکن اسمبلی کسی اجلاس میں شریک نہ ہوسکا تو اسے بتائے گا کہ اجلاس میں کیا کچھ زیرِ بحث آیا، اور کون سے فیصلے ہوئے۔

یہ ورچوئل اسسٹنٹ اپنے ’باس‘ کو یہ مشورہ بھی دے گا کہ کس معاملے پر کیا اور کب ردعمل دینا ہے۔

یہ پورا نظام اگلے برس 2026 تک پوری طرح فعال ہوجائے گا۔ وزیراعظم کو یقین ہے کہ اس نئے نظام سے پارلیمان کے کام میں شفافیت آئے گی اور اس کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔

’ دیئیلا  ‘ اور اس کے ہونے والے 83بچوں پر مشتمل گھرانہ البانیہ میں کیسے تبدیلی لا رہا ہے، اگر آپ بحیثیت پاکستانی مزید سمجھنا چاہتے ہیں تو یوں سمجھ لیجیے۔

’دیئیلا‘ کی ایک سہیلی کا کہنا ہے، اگر ’دیئیلا‘ جیسی وزیر پاکستان میں کام کرنے کا تہیہ کرلے، اسے کام کرنے کے تمام مواقع اور سہولیات بھی فراہم کردی جائیں، فرض کریں اسے  وزارت اطلاعات، وزرات خزانہ یا وزارت داخلہ کا قلم دان سونپ دیا جائے تو سب سے پہلی تبدیلی جو آئے گی، وہ ڈیٹا کی شفافیت کی صورت میں ہوگی۔

وہ ہر ٹھیکے، فنڈ اور ادائیگی کا خودکار ریکارڈ رکھے گی۔ کوئی افسر یا وزیر اپنی مرضی سے فائل دبا یا غائب نہیں کر سکے گا۔
ہر شہری اپنے موبائل پر جا کر دیکھ سکے گا کہ کس منصوبے کے لیے کتنی رقم منظور ہوئی، کب خرچ ہوئی، اور کس کمپنی کو ملی۔

اگر ’دیئیلا‘ کے 342 ڈیجیٹل اسسٹنٹس پاکستان کی قومی اسمبلی کے ارکان کے لیے کام کریں تو ہر رکن کی حاضری، تقاریر، ووٹنگ رویے اور کارکردگی کی خودکار رپورٹ عوام کو دستیاب ہو سکتی ہے۔
یعنی ’صاحب اجلاس میں آئے بھی تھے یا نہیں؟‘ یہ بات اب چھپ نہیں سکے گی۔ نہ صرف ’صاحب‘ کو اجلاس میں شریک ہونا پڑے گا بلکہ ایک فعال رکن اسمبلی بن کر وہ کردار بھی ادا کرنا پڑے گا، جس کے لیے اسے پارلیمان میں بھیجا گیا تھا۔

  وزیر موصوفہ کسی بھی غیر معمولی ٹرانزیکشن، بے ضابطگی یا ٹینڈر میں مشکوک ڈیٹا کو فوراً فلیگ کر سکتی ہیں۔
رشوت یا کمیشن کا عمل خودکار ڈیجیٹل ٹریکنگ سے تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔

اور

ایسی ’حسینہ‘ کی ماتحتی میں تمام شہری خدمات (شناختی کارڈ، لائسنس، زمین کے ریکارڈ، ٹیکس ریٹرن) ایک ہی ڈیجیٹل پورٹل سے ممکن ہو سکتی ہیں، نہ قطار، نہ سفارش، نہ رشوت۔

پھر کیا خیال ہے، قبول ہے یہ حسینہ؟؟

اگر پاکستان میں ’دیئیلا‘ جیسی کوئی وزیر آ جائے
تو شاید فائلوں، نوٹ شیٹس، اور ’حاضر باش سرکاری افسران‘ کا دور ختم ہو جائے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اسے محض پروجیکٹ نہیں، بلکہ شفافیت کا حامل عہد سمجھ کر اپنائیں۔

ہو سکتا ہے وہ دن دور نہ ہو جب اسلام آباد کے کسی دفتر میں ایک ڈیجیٹل وزیر بیٹھا ہو،  جو کہے:

’جناب، آپ کی فائل ہم نہیں، سسٹم دیکھتا ہے۔‘

تب شاید، پاکستان کی سیاست، انتظامیہ، اور عوام سب پہلی بار ایک ہی صفحے پر ہوں۔

 مگر خطرہ یہ بھی ہے…

مصنوعی ذہانت جتنی طاقتور ہے، اتنی ہی خطرناک بھی ہے۔ اگر یہ نظام کسی سیاسی جماعت یا طاقتور طبقے کے زیرِ اثر آ گیا، تو شفافیت کے بجائے ڈیجیٹل نگرانی کا نیا جال بچھ سکتا ہے۔
اور جہاں نظام میں انسان شامل ہو، وہاں ’ڈیجیٹل چوہے‘ بھی کبھی کبھار سوراخ کر ہی لیتے ہیں۔

اس لیے اس ممکنہ خطرے کا پیشگی انتظام ضروری ہوگا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

اردو کالم البانیا اے آئی وزیر عبیداللہ عابد

متعلقہ مضامین

  • بھارتی میڈیا کی من گھڑت مہم بے نقاب، پاکستان نے حقائق سے صفایا کر دیا
  • ماہیما چوہدری کی دوسری شادی کی افواہیں،اصل حقیقت سامنے آگئی
  • مذہب، فلسفہ اور ریاست
  • آرٹیفیشل انٹیلی جنس چیٹ بوٹس درست معلومات فراہم نہیں کرتے،تحقیق میں انکشاف
  • 56 سالہ نصیبو لعل کے ہاں بیٹے کی پیدائش؟ حقیقت جانیے
  • اگر  خوبرو ’دیئیلا‘ پاکستان میں آ جائے تو؟
  • صرف ایک کام— بدل دو نظام
  • پاکستان، جنوبی افریقا کے درمیان ٹی ٹوئنٹی میچ کیلیے سیکیورٹی و ٹریفک پلان مرتب
  • کیا پاکستان نے سلمان خان کو دہشت گرد قرار دیا ہے؟ حقیقت سامنے آگئی