Jasarat News:
2025-10-29@00:36:19 GMT

صرف ایک کام— بدل دو نظام

اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251029-03-6

 

احمد حسن

زندگی کے جتنے بھی شعبے ہیں پاکستانی معاشرہ ان میں سے ہر ایک میں ترقی معکوس کا شکار ہے، ہر جانب تنزل اور ابتذال نظر آتا ہے، مختلف شعبوں میں درجہ بندی کے حوالے سے جب بھی کوئی بین الاقوامی سروے رپورٹ جاری ہوتی ہے محب وطن پاکستانیوں کی گردنیں شرم سے جھک جاتی ہیں، نظام عدل کے حوالے سے پاکستان 142 میں سے 129 ویں نمبر پر کھڑا ہے، انسانی ترقی کے انٹرنیشنل انڈیکس میں وطن عزیز 193 میں سے 168 ویں نمبر پر ہے، صحافت کی جانب نظر کی جائے تو ہمارے ملک کی پوزیشن 180 میں سے 158 ویں ہے۔ پورے ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ ہے، تہذیب اور دلیل معاشرے سے ختم ہو گئی ہے، ہر طرف افرا تفری ہے، طاقتور، بااثر، دولت مند افراد کے لیے ملک چراگاہ بن گیا ہے، کمزور بے اثر اور غریبوں کے لیے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے، بہت بڑی تعداد میں لوگ ملک سے جا چکے ہیں، ان میں بے روزگار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنرمند نوجوانوں کے ساتھ ساتھ اب اعلیٰ مناصب پر فائز افسران بھی باہر جانے کو ترجیح دے رہے ہیں، حال ہی میں سائبر کرائم انویسٹی گیشن سے وابستہ متعدد افسران لاپتا ہوگئے تھے اب ان کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ خود ملک سے باہر جا چکے ہیں، جبر کا یہ عالم ہے کہ مقابلے کے امتحان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے والا نوجوان جو ایس پی کے عہدے پر متمکن تھا خودکشی کر لیتا ہے اور ایک دو روز میڈیا پر خبریں آنے کے بعد سکوت طاری ہو جاتا ہے، کچھ پتا نہیں چلتا کہ شدید جبر اور نا انصافی کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟

سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی غرض کہیں اس پر کوئی آواز بلند نہیں کی گئی کسی نے ارباب حل و عقد سے نہیں پوچھا کہ ایک ذہین، با اعتماد، تعلیم یافتہ افسر پر کس نے ظلم ڈھائے کہ وہ دنیا چھوڑنے پر مجبور ہو گیا، جب برطانوی وزیراعظم چرچل سے عوام نے شکایت کی کہ ملک کے حالات بہت زیادہ خراب ہیں تو انہوں نے پوچھا کیا برطانوی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں جب انہیں بتایا گیا کہ جی ہاں عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو انہوں نے یقین دلایا کہ ایسا ہے تو باقی سب خرابیاں دور ہو جائیں گی، لیکن پاکستان میں ہر حساس شخص کا دل بیٹھا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں سب سے برا حال نظام عدل کا ہی ہے، ملک میں کئی طبقات ایسے ہیں جن پر کتنا بھی ظلم ہو جائے ان کے لیے عدالت سے رجوع کرنا ممکن ہی نہیں ہے، غریب کمزور، بے اثر لوگ اپنے حق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ وہ اس کے اخراجات ہی برداشت نہیں کر سکتے، پھر طاقتور فریق سے اس کی حفاظت کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی، اب تو اعلیٰ طبقے کے لیے بھی انصاف کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے، حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ نے سابق صدر عارف علوی کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جانے کے خلاف درخواست کی سماعت کی، عدالت نے کہا کہ تفتیشی افسر کی غیر حاضری کے باعث کیس پر فوری فیصلہ ممکن نہیں، جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن کا تفتیشی افسر پیش نہ ہو سکا جس پر کارروائی مؤخر کر دی گئی، درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کے تمام بینک اکاؤنٹس بند کر دیے گئے ہیں جس کے باعث روزمرہ کے اخراجات اور خاندانی امور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، وکیل نے استدعا کی کہ معاملے کی جلد سماعت کی جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، عدالت کو چاہیے کہ وہ کیس سن کر جلد فیصلہ سنائے، جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ تفتیشی افسر موجود نہیں، فریقین کو سننے کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا، وکیل نے عدالت کے رویے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا رویہ مناسب نہیں ہے، عدالت کا رویہ کسی مہذب معاشرے جیسا نہیں ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ ہم تو کیس ایسے ہی چلائیں گے۔

پارلیمانی ایوانوں میں جو لوگ بیٹھے ہیں ان میں بیش تر سطحی سوچ کے حامل ہیں وزیراعظم کی سب سے بڑی صلاحیت یہ ہے کہ وہ ہر موقع پر فیلڈ مارشل کی تعریف کرنے کا جواز ڈھونڈ لیتے ہیں اب ان کے وزیروں نے بھی ان سے سبق سیکھ لیا ہے وفاقی وزیر امور کشمیر امیر مقام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج ہٹ جائے تو ملک کی سلامتی دو دن برقرار نہیں رہ سکتی اسی طرح وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ ملکی دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے ہمیں مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر فخر ہے، مسلح افواج نے ہمیشہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔

بیوروکریسی کا جو حال ہے اس پر ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور سفارت کار جناب جاوید حفیظ نے انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے انہوں نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سرکاری افسران کی دستوری گارنٹی واپس لے لی گئی تھی اس کے بعد سے افسران سیاسی آقاؤں کے رحم و کرم پر ہیں، جو ایماندار ہوتے ہیں وہ کھڈے لائن جاب ڈھونڈتے ہیں، جو کرپٹ ہوتے ہیں وہ سیاست دانوں کے ساتھ مل کر خوب مزے کرتے ہیں، اب بیوروکریسی غیر جانبدار نہیں رہی، ہر نئی حکومت کے آتے ہی ہوشیار افسر اپنا قبلہ درست کرنے لگتے ہیں، سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے پسندیدہ افسر چن لیے ہیں، اس سب کا نتیجہ بیڈ گورننس کی صورت میں نکلا ہے، جب سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت اقتدار میں آئی ہے پاکستانی عوام یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ ہر چند ماہ بعد پیپلز پارٹی، پنجاب حکومت کے خلاف بیان بازی کرتی ہے، حکومتی امور میں مشاورت نہ کرنے کا شکوہ کرتی ہے، حکومت کی حمایت ختم کرنے کے اشارے دیتی ہے پھر دونوں پارٹیوں کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں اور دونوں جماعتیں حسب سابق ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیتی ہیں اس تمام مشق کے پیچھے سب سے بڑا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ فلاں ضلعے کا ڈپٹی کمشنر ہماری مرضی کا لگایا جائے، فلاں ڈویژنل پولیس آفیسر ہمارے کام نہیں کر رہا، اس کی سرزنش کی جائے۔

تعلیمی شعبے کی طرف نظر ڈالیں تو ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، ایجوکیشن سسٹم کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اسے طبقاتی نظام میں بانٹ دیا گیا ہے، سرکاری اسکول، پرائیویٹ اسکول، کیمبرج سسٹم، دینی مدارس وغیرہ۔ کیا بلدیاتی اداروں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے او لیول اور اے لیول بچوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، ہرگز نہیں، سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے بے شمار اساتذہ اسکول آتے ہی نہیں، دیہی علاقوں میں اسکول کی بہت سی عمارتوں پر وہاں کے با اثر افراد نے قبضہ کیا ہوا ہے، محکمہ تعلیم میں ملازم افراد اپنی سہولت کے مطابق تبادلے کرا لیتے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ بعض اسکولوں میں بچے زیادہ ہیں اور اساتذہ کم جبکہ ایسے اسکول بھی موجود ہیں جہاں شاگردوں سے زیادہ ٹیچرز موجود ہیں۔

صحت کا شعبہ ایسا ہے کہ کسی مریض کو اسپتال لے جانے والا اس کا صحت مند رشتہ دار اسپتال میں اتنے دھکے کھاتا ہے کہ وہ خود بیمار پڑ جاتا ہے، ہر جگہ اتنی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی پورا دن ضائع ہو جاتا ہے مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک ٹیسٹ کے لیے دو دو تین تین مہینے بعد کی تاریخ دی جاتی ہے اور اس سب سے بڑھ کر دوائیں بازار سے خریدنی پڑتی ہیں جو بہت زیادہ مہنگی ہیں۔

ملک میں اتنے مسائل ہیں آخر ان کا حل کیا ہے کیا کرپٹ لوگوں کو ملازمت سے نکال کر حالات بہتر ہو سکتے ہیں، کیا انہیں سزائیں دینے سے ملک برائیوں سے پاک ہو جائے گا، شاید ایسا ممکن نہیں، اس کا علاج ایک ہمہ گیر انقلاب، ہمہ جہتی تبدیلی سے ممکن ہے، ایک ایسا دیانت دار منظم گروہ ہونا چاہیے جو ایک دو شعبوں نہیں پورے کے پورے نظام کو بدل دے۔ حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں جماعت اسلامی باصلاحیت ایماندار افراد کا ایسا مجموعہ ہے جو ہر مسئلے اور ہر خرابی کو دور کرنے کی اہلیت اور عزم رکھتا ہے اسی مقصد کے لیے اب جماعت اسلامی ’’بدل دو نظام‘‘ تحریک کا آغاز کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو سمجھایا جا سکے کہ وہ جماعت اسلامی کے حامی و مددگار بنیں تاکہ اس ظالمانہ و فرسودہ نظام کو بدل کر عدل و انصاف پر مبنی نظام لایا جا سکے، جہاں ہر شخص کو مساوی مواقع حاصل ہوں اور وہ اپنی صلاحیت اور جدوجہد کا بھرپور اظہار کر سکے، 21، 22 اور 23 نومبر کو مینار پاکستان لاہور سے ان شاء اللہ اس انقلاب کا شاندار آغاز ہوگا۔

احمد حسن.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جاتا ہے کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

جی بی میں ٹینڈرز کے نظام میں بہتری کی تجاویز پر اہ پیشرفت سامنے آ گئی

اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی تھی کہ موجودہ ٹینڈر سسٹم میں بعض خامیاں بدعنوان عناصر کو اپنے مفادات حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں حکومتی وسائل کا ضیاع اور منصوبوں میں شفافیت کی کمی پیدا ہوتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان میں ٹینڈرز کے موجودہ نظام سے متعلق اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ گلگت بلتستان کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر اعلیٰ حکام کی جانب سے مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نے تمام متعلقہ اداروں اور محکموں کو ان تجاویز پر عملدرآمد کے لیے فوری ہدایات جاری کرنے کے احکامات دیے ہیں۔ گزشتہ دنوں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ گلگت بلتستان نے چیف سیکریٹری آفس کو ٹینڈرز کے نظام میں بہتری کے لیے مفصل تجاویز پیش کی تھیں۔ یاد رہے کہ گلگت بلتستان میں ٹینڈرز کے ناقص طریقہ کار کے باعث کئی انتظامی اور مالی مسائل جنم لیتے رہے ہیں، جن سے ترقیاتی منصوبوں کے معیار پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی تھی کہ موجودہ ٹینڈر سسٹم میں بعض خامیاں بدعنوان عناصر کو اپنے مفادات حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں حکومتی وسائل کا ضیاع اور منصوبوں میں شفافیت کی کمی پیدا ہوتی ہے۔

رپورٹ میں یہ نقائص واضح کیے گئے کہ من پسند اور غیر فعال افراد پر مشتمل ٹینڈر کمیٹیوں کی تشکیل، ٹینڈر کے مختلف مراحل میں غیر ضروری تاخیر، ترقیاتی منصوبوں کے دوران پہلے سے موجود اثاثوں کا غیر محفوظ رہنا، منصوبوں کے دائرہ کار (Scope) سے عوام کی لاعلمی، ٹربو جنریشن سیٹس کی خریداری میں سپیئرز/ اسسریز کی تصدیق کا نہ ہونا، یہ تمام عوامل ٹینڈر کے عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے نہ صرف ان نقائص کی نشاندہی کی بلکہ ان کے تدارک کے لیے قابلِ عمل سفارشات بھی پیش کیں، جنہیں چیف سیکریٹری نے سراہتے ہوئے تمام سیکریٹریز، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو بریف کرنے کے احکامات جاری کیے۔ مزید برآں، پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک خصوصی سیل قائم کرنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں تاکہ ان رہنما اصولوں پر مؤثر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے

متعلقہ مضامین

  • امریکا میں غیر ملکیوں کے داخلے کےلیےنئےقواعد کا اعلان
  • جی بی میں ٹینڈرز کے نظام میں بہتری کی تجاویز پر اہ پیشرفت سامنے آ گئی
  • حکومت کامعدنیات وکان کنی کیلئےنیاجامع قانونی نظام متعارف کروانےکا فیصلہ
  • 21 نومبر کو نظام تبدیل کرنے کی تحریک کا آغاز ہوگا، حافظ نعیم
  • بیمار لوگ بیمار نظام صحت
  • پاکستان کا سیاسی مستقبل
  • ڈاکوئوں کو غیر مسلح کرنے کا طریقہ درست نہیں جے یو آئی
  • 21 نومبر کو مینار پاکستان سے نظام تبدیل کرنے کی تحریک کا آغاز ہوگا، حافظ نعیم
  • ٹرین ڈرائیورز پر دوران ڈیوٹی ویڈیو بنانے پر پابندی لگ گئی