مغرب میں میں پاپائیت ختم ہوئی تو فلاسفہ کا دور عروج لوٹ آیا۔ یہی تو تھے جنہوں نے پاپائیت کی قبر کھودی تھی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ رومن ایمپائر نے جب کرسچیانٹی کو بطور سرکاری مذہب اختیار کیا تو ساتھ ہی فلسفے کو کفر قرار دے کر بین کردیا۔
یہ ہماری کالعدم جماعتوں جیسا بین نہ تھا کہ پرانے نام کی جگہ نیا نام اختیار کرکے کام جاری رکھا۔ بلکہ اس فیصلے کے نتیجے میں یونانی فلاسفہ قتل بھی کیے گئے اور جلاوطن بھی۔ جو چند ایک جان بچانے میں کامیاب ہوئے انہیں اس دور کی دوسری بڑی سپر طاقت ایران نے پناہ دی۔ مشہور زمانہ گریک لائبریری پہلے ہی ایران منتقل ہوچکی تھی۔ جو آگے چل کر مسلمانوں کے ہاتھ لگی۔ اور یہاں سے شروع ہوا وہ دور جسے مسلمانوں کا دور عروج کہا جاتا ہے۔
مگر اس دور عروج میں ایک خرابی یہ واقع ہوگئی کہ وہ متکلمین پیدا ہوگئے جنہوں نے گویا قرآنی عقائد کے متوازی ایسے تصورات کھڑے کردیے جو قرآن و سنت سے کم اور یونانی فلسفے زیادہ مناسبت رکھتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: چھوٹا پیک، بڑا پیک اور سی پیک
سو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ متکلمین نے ایک دوسرے کے تصورات کے انکار کو بھی کفر کا درجہ دیدیا۔ اور شروع ہوگیا نہ تھنے والا تکفیری سلسلہ۔اب صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا یا ان کے ارشادات کا انکار کفر نہ رہا۔ اب ماتریدی، اشعری اور پتا نہیں کس کس کے ارشادات کا انکار بھی کفر بن گیا۔
اگر غور کیجیے تو یہ مغرب سے بالکل الٹ چلن تھا۔ رومن ایمپائر نے یہ کہہ کر فلسفے کو بین کیا تھا کہ یہ دین سے متصادم ہے۔ اور مسلمانوں نے اسے دین کا ہی حصہ بنا ڈالا۔ وہ الگ بات کہ پیکنگ بدل کر اسے علم الکلام کا اسلامی چوغہ پہنانا ضروری خیال کیا۔
مگر ایسا بھی نہیں کہ پوری ملت نے یہ راہ اختیار کرلی۔ مفسرین، محدثین اور فقہاء اس امت کے وہ عظیم محسن ہیں جنہوں نے اللہ کے دین کو اس کی اصل حالت میں آگے منتقل کیا۔ جلد ہی غزالی اس امت کے بڑے محسن یوں ثابت ہوئے کہ انہوں نے یونانی فلسفے کے اصول وضع کرکے ان میں سے پہلے 3 کا کفر بواح ہونا واضح کردیا۔ یوں فلسفے کی دین میں دراندازی کا سلسلہ تمام ہوا۔
وار آن ٹیرر والے دور میں بھاڑے کے لبرلز کو جن مسلم شخصیات کا کردار مسخ کرنے کا ٹاسک ملا تھا ان میں غزالی سرفہرست تھے۔ اور غزالی سے متعلق وہ دھول اڑاتے کہ وہ علم دشمن تھا، اس نے فلسفے کو کفر قرار دیا تھا۔ غزالی نے غلط کیا تھا یا درست؟ آیئے اس کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔
مزید پڑھیے: خالصتان تحریک اور مودی کا خوف
نشاۃ الثانیہ کے بعد والا مغرب پاپائیت کی بیدخلی اور فلسفے کے عروج کا دور ہے۔ جوں جوں فلسفہ زور پکڑتا گیا توں توں نئے نظریات وجود میں آتے گئے۔ ان میں سے کمیونزم نے سیدھا سیدھا الحاد پیش کیا۔ جبکہ ماڈرن ازم نے جتنے بھی انڈے بچے یعنی ذیلی نظریات دیے سب کے سب بس دو آپشنز دیتے ہیں۔ پہلا یہ کہ الحاد ہی بہترین آپشن ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر خدا کو ماننا ہی ہے تو پھر اسے بس ذاتی زندگی تک رکھئے، ریاستی امور میں لانے کی اجازت نہیں۔ لیکن لبرلزم تو یہاں بھی نہیں رکتا۔ اس کے تصور کا خلاصہ یہ ہے کہ لبرل ڈیموکریسی کا مطلب ہے سیکولرازم یعنی ریاستی امور سے خدا کی بے دخلی۔ اور لبرل ہونے کا مطلب ہے ذاتی زندگی میں مذہب کی بجائے نفسانی خواہشات پر چلنا۔ یوں اس نے مذہب کو ذاتی زندگی میں بھی نہ چھوڑا۔ اب یہ فیصلہ آپ ہی کر لیجئے کہ کیا غزالی غلط تھے؟
مغربی فلاسفہ کی اصل عیاشی تب شروع ہوئی جب روس میں 1917 کا لینن انقلاب آیا۔ اس کے توڑ کے لیے مغرب کو فلاسفہ کی ضرورت تھی۔ اور یہ ضرورت دوسری جنگ عظیم کے بعد شدت بھی اختیار کر گئی۔ اس دور سے متعلق ہمیں کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ کل پرسوں کے ہی واقعات ہیں۔ مگر نوٹ کرنے والا ایک نکتہ یہ ہے کہ یہ وہ دور ہے جب مغرب میں پتھر بھی اٹھایا جاتا تو نیچے سے ایک عدد فلسفی نکل آتا۔ لیکن یہ دور بھی سوویت زوال کے ساتھ تمام ہوا۔ یہ بڑی ہی دلچسپ صورتحال تھی۔ مغربی فلاسفہ نے سوویت زوال کو اپنی جیت مانا اور اس خوشی میں ناچ ناچ کر گھونگرو توڑ ڈالے۔
مزید پڑھیں: شرم الشیخ معاہدہ: وجوہات اور امکانات
ان گھونگروؤں میں سب سے زیادہ شور فرانسس فوکویاما کے گھونگروؤں کا تھا۔ اس نے ’اینڈ آف ہسٹری‘ لکھ کر گویا اپنی طرف سے اس انسانی سفر کا ہی تتمہ لکھ ڈالا جو ہزاروں سال پر مشتمل رہا تھا۔ یعنی انسان کا نظریاتی کشمکش کا سفر۔ فوکویاما نے لکھا کہ اس سفر کا اختتام لبرلزم کی جیت پر ہوچکا۔ اب پوری دنیا پر صرف لبرلزم کا راج ہوگا۔ فوکویاما کے فرشتوں نے بھی نہ سوچا ہوگا کہ اس کی ’اینڈ آف ہسٹری‘ نظریاتی کشمکش کے خاتمے کا اعلان نہیں بلکہ مغربی فلاسفہ کے دور عروج کا خاتمہ کردے گی۔
ہم جانتے ہیں آپ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ یہ کیا کہا جا رہا ہے؟۔ ہم سمجھاتے ہیں کہ فیالحقیقت ہوا کیا۔ فوکویاما کی کتاب پڑھ کر وال اسٹریٹ کے سیٹھوں کے لبوں پر ایک کمینی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہی تو تھے جو امریکا کے اصل مالکان کی حیثیت سے لینن انقلاب کے بعد سے مغربی فلاسفہ کو پالتے آئے تھے۔
آج سے 35 سال قبل ان سیٹھوں کے لبوں پر وہ کمینی سی مسکراہٹ یہ سوچ کر آئی تھی کہ اگر نظریاتی کشمکش کا سفر تمام ہوگیا تو اس کا مطلب تو یہ بھی ہوا کہ اب ہمیں فلسفیوں کو مزید پالنے کی بھی ضرورت نہ رہی۔ سو وال اسٹریٹ کے سیٹھوں نے فلسفی کو فرنٹ سے اٹھا کر طاق نسیاں پر پھینکا اور خود آگے آگئے۔ ڈبلیو ٹی او یعنی عالمی تجارت کی انجمن اس کا سب سے بھرپور اظہار تھا۔ چین سے کہا گیاـ
’تم اپنے سوشلزم سمیت فری مارکیٹ اکانومی قبول کرو، اور ڈبلیو ٹی او میں آؤ‘
ممکن ہے آپ سوچ رہے ہوں، اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ فلسفیوں کو پادری کی طرح ہی سین سے آؤٹ کردیا گیا؟ بہت آسان جواب ہے اور دو ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔ پہلا یہ کہ میڈیا سے کہا گیا کہ فلاسفہ کو مزید کوریج نہیں دینی۔ آپ کو پچھلے 35 برسوں کے دوران فلسفی اگر کسی اسکرین پر نظر آئے گا تو وہ اسکرین صرف یوٹیوب کی ہوگی۔ مغربی مین اسٹریم میڈیا سے فلسفی کک آؤٹ کیا جاچکا۔ دوسرا ٹکڑ یہ کہ جب کوئی چیز فروغ کی حالت میں ہوتی ہے تو اس کی بہتات ہوتی ہے۔ جس طرح سرد جنگ کے زمانے میں فلسفیوں کی بہتات تھی اور ان کے مباحثے و مکالمے بھی چلتے۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ پچھلے 35 سالوں کے دوران کونسا نیا فلسفی مغرب میں سامنے آیا ہے؟
یہ بھی پڑھیے: افغانوں کی عسکری حقیقت
اب وہاں آپ کو فلسفی کے نام پر بھی بس ایکٹویسٹ نظر آتے ہیں۔ جانتے ہیں سب سے بری کس فلسفی کے ساتھ ہوئی؟ اینڈ آف ہسٹری والے فرانسس فوکویاما کے ساتھ۔ اور وہ یوں کہ درباری ملا کی طرح اس کی حیثیت اب ’’درباری فلسفی‘ کی ہے۔ کوئی یوٹیوبر اس کے انٹرویو کے لیے جاتا ہے تو ڈرائنگ روم میں پہلی نظر ہی سائڈ ٹیبل پر دھرے یوکرینی پرچم پر پڑتی ہے۔ یوٹیوبر نے ابھی سوال بھی نہیں پوچھا ہوتا فوکویاما کہتا ہے
’دیکھ لینا جیت یوکرین کی ہی ہوگی‘
اب ذرا ستم ظریفی کی شدت دیکھئے۔ وال اسٹریٹ کے سیٹھ نے جب فرنٹ پر آکر چین کو کمیونزم سمیت ڈبلیو ٹی او میں داخل ہونے کا دعوت نامہ بھیجا تو چائنیز نے ان کا یہ بلف کال کرلیا۔ اور آگئے ڈبلیو ٹی او میں۔ اور یہاں سے بنیاد پڑ گئی مغرب کے زوال کی۔ جو اب آگے دن بدن واضح سے واضح تر ہونا تھا۔ جب وال اسٹریٹ کے سیٹھ اس تصور کے ساتھ خود ہی فرنٹ پر آگئے کہ اب تاجر کا راج ہوگا۔ اور تجارت کے فروغ کے لیے شوبز کا ایسا بے دریغ استعمال شروع کردیا کہ کھلاڑی تک ماڈل بنا کر سپورٹس تباہ کر ڈالی تو یہ سب کرتے وقت وہ تاریخ کی چند بڑی حقیقتوں میں سے ایک بھول بیٹھے۔ انصاف سے بتایئے، انسانی تاریخ کے سب سے بڑے اور قدیمی تاجر کون ہیں؟ ڈھائی ہزار سال قبل سلک روڈ کس نے بنائی تھی اور کیوں بنائی تھی؟ سو اگر دنیا پر اب تاجر نے ہی راج کرنا تھا تو تاجر تو پھر چینیوں سے بڑا کوئی نہیں۔ اور انہوں نے پچھلے 25 برسوں میں پورے مغرب کو پیچھے چھوڑ کر یہ ثابت بھی کردیا ہے۔ جانتے ہیں مغرب میں اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ ڈونلڈ ٹرمپ نکلا۔ وہی ڈونلڈ ٹرمپ جس کا نعرہ ہے ’آؤ امریکا کو ایک بار پھر عظیم بنائیں‘ اور جب پوچھا جائے کہ کیسے؟ تو ٹرمپ بائبل لہرا کر فرماتے ہیں۔
’اس کتاب کی مدد سے‘
گویا 21 ویں صدی کی لنگڑی لولی رومن ایمپائر ایک بار پھر بائبل والے دور کی جانب لوٹنے کی بات کر رہی ہے۔ مگر ترقی کی طرح زوال کا سفر بھی پورا ہوکر رہتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا یورپ یوکرین یونانی فلسفی وال اسٹریٹ کے ڈبلیو ٹی او جانتے ہیں کے ساتھ بھی نہ کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے نئی شرائط
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251214-03-3
پاکستان میں کرپشن ہی سب سے اہم اور بڑا مسئلہ ہے، جو ریاستی اداروں، معیشت اور عوامی اعتماد، تینوں کو بیک وقت کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان عالمی مالیاتی اداروں، بالخصوص آئی ایم ایف، کے پاس جاتا ہے تو قرض کے ساتھ ایسی شرائط بھی آتی ہیں جو محض مالی نظم و ضبط تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ براہِ راست گورننس اور کرپشن کے نظامی ڈھانچے پر بات ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کا دوسرا جائزہ اور اس کے تحت تجویز کی گئی نئی شرائط دراصل اسی تلخ حقیقت کی عکاسی ہیں کہ پاکستان کی معاشی کمزوریوں کی جڑیں بدانتظامی اور کرپشن میں پیوست ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے شائع کی گئی گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ رپورٹ پاکستان کے لیے ایک آئینہ ہے، جس میں ریاستی اداروں کی وہ کمزوریاں نمایاں کی گئی ہیں جن پر برسوں سے پردہ ڈالا جاتا رہا۔ اس رپورٹ میں قانونی عملداری کی کمزوری، ادارہ جاتی احتساب کا فقدان، اختیارات کے ناجائز استعمال اور شفافیت کی کمی کو بنیادی مسائل قرار دیا گیا ہے۔ یہ محض نشاندہی نہیں بلکہ ایک تشخیص ہے، جس کے بعد علاج ناگزیر ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی سب سے اہم شرط یہی تھی کہ حکومت اس رپورٹ کو عوام کے سامنے لائے اور اس کی روشنی میں ایک جامع، قابل ِ عمل اور شفاف ایکشن پلان ترتیب دے۔ اگرچہ حکومت نے تاخیر کے بعد رپورٹ شائع کر دی، مگر ایکشن پلان کا نہ بن پانا اس بات کی علامت ہے کہ کرپشن کے خلاف سنجیدہ اصلاحات اب بھی سیاسی ترجیحات میں شامل نہیں۔ یہی تاخیر آئی ایم ایف کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان میں مسئلہ افراد کا نہیں بلکہ پورے نظام کا ہے، جو خود اصلاح کے لیے آمادہ نظر نہیں آتا۔ نئی شرائط میں اعلیٰ سطحی وفاقی اور صوبائی سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی تفصیلات شائع کرنے کی تجویز ایک غیر معمولی مگر ناگزیر قدم ہے۔ اگر واقعی شفافیت مقصود ہے تو اثاثوں کی عوامی دستیابی، بینکوں کو معلومات تک رسائی اور آزادانہ جانچ پڑتال وہ اقدامات ہیں جن سے کرپشن کی جڑوں پر ضرب لگ سکتی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب اقدامات عملی طور پر نافذ ہو پائیں گے یا ماضی کی طرح فائلوں میں دب کر رہ جائیں گے؟ آئی ایم ایف کی جانب سے ’ہائی رسک‘ قرار دیے گئے دس اداروں کے لیے ایکشن پلان کی ذمے داری نیب کو سونپنا بھی ایک حساس فیصلہ ہے۔ نیب ماضی میں سیاسی انجینئرنگ، انتخابی دباؤ اور یکطرفہ احتساب کے الزامات کی زد میں رہا ہے۔ ایسے میں نیب کو مرکزی کردار دینا تب ہی مؤثر ہو سکتا ہے جب اسے واقعی خودمختار، پیشہ ور اور غیر جانبدار بنایا جائے۔ بصورتِ دیگر، احتساب کا عمل مزید متنازع ہو کر کرپشن کے خلاف جدوجہد کو کمزور کر دے گا۔ ان اصلاحات کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس بڑھانے کی تجاویز، خاص طور پر کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ، ایک نیا سماجی و معاشی سوال کھڑا کرتی ہیں۔ ایک طرف کرپشن کم کرنے اور اشیائے ضروریہ کی منڈیوں میں رکاوٹیں ختم کرنے سے عوام کو ریلیف ملنے کی امید دلائی جا رہی ہے، تو دوسری طرف کسانوں پر ٹیکس کا بوجھ ڈال کر زرعی معیشت کو مزید دباؤ میں لایا جا رہا ہے۔ اگر کرپشن کا اصل بوجھ اشرافیہ اور طاقتور طبقات پر ڈالنے کے بجائے بالواسطہ طور پر عام شہری اور کسان برداشت کریں، تو ایسی اصلاحات عوامی قبولیت حاصل نہیں کر سکتیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ آئی ایم ایف کیا شرائط عائد کر رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ پاکستان خود کب تک بیرونی دباؤ کے تحت اصلاحات کرتا رہے گا؟ کرپشن کے خلاف حقیقی جنگ وہی ہوتی ہے جو اندرونی سیاسی عزم، مضبوط اداروں اور عوامی نگرانی سے لڑی جائے۔ جب تک قانون سب کے لیے برابر نہیں ہوتا، جب تک طاقتور احتساب سے بالاتر رہتے ہیں، اور جب تک شفافیت کو قومی قدر نہیں بنایا جاتا، کرپشن کی جڑیں مضبوط ہی رہیں گی۔ گو کہ ہم آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہیں، لیکن ان باتوں پر اگر سنجیدگی سے عمل ہو تو پاکستان ایک بہتر، شفاف اور منصفانہ نظام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ اور انتباہ اس لیے کہ اگر یہ اصلاحات بھی محض رسمی ثابت ہوئیں تو معیشت کے ساتھ ساتھ ریاستی ساکھ کا بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ اب فیصلہ پاکستان کے حکمرانوں کو کرنا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف حقیقی جنگ لڑنا چاہتے ہیں یا ہر چند سال بعد ایک نئے قرض اور نئی شرائط کے ساتھ اسی دائرے میں گھومتے رہیں گے۔