WE News:
2025-12-13@16:28:03 GMT

اگر  خوبرو ’دیئیلا‘ پاکستان میں آ جائے تو؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT

ذرا تصور کیجیے، اگر  البانیہ کی حسینہ ’دیئیلا‘ کی کوئی بہن پاکستان میں پیدا ہو،
یہاں کی وزارتِ اطلاعات، وزارتِ خزانہ یا وزارتِ داخلہ کا قلم دان سنبھال لے،
اور اپنے سینکڑوں ’بچوں‘ کے ساتھ پارلیمان اور بیوروکریسی کی نگرانی شروع کر دے …
تو کیا نظارہ ہو؟

اس سے پہلے کہ بات مزید بڑھے، جو لوگ ’دیئیلا‘ کو نہیں جانتے، وہ اس خوبصورت وزیر سے متعارف ہوجائیں تو زیادہ بہتر ہے۔

دیئیلا  نامی ایک وزیر البانیہ کی وفاقی کابینہ میں شامل ہے۔ اس کی تخلیق آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے ہوئی۔ یہ ڈیجیٹل کوڈ اور پکسلز پر مشتمل حسینہ ہے۔ جنوری 2025 سے یہ البانیا کے پلیٹ فارم ای البانیا(e-Albania) پر شہریوں کو آن لائن سرکاری خدمات فراہم کر رہی ہے۔

’ دیئیلا ‘ کے معانی البانوی زبان میں ’سورج‘ کے ہیں۔ اسی لیے اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ سورج کی مانند روشن وزیر ہے۔ اور وہ البانیہ کے ہر شعبہ زندگی اور اس کے تمام معاملات کو روزِ روشن کی طرح ہر البانوی شہری پر عیاں کردے گی۔ کسی سے کچھ بھی چھپا نہیں رہے گا۔

’ دیئیلا  ‘ کے فرائضِ منصبی میں شامل سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ سرکاری خریداری کے نظام (سرکاری ٹینڈرز) کو مکمل طور پر شفاف بنائے گی، اس نظام کو تیز رفتار بنائے گی۔ اس پر بدعنوانی کا سایہ بھی نہیں پڑنے دے گی۔

البانوی وزیراعظم کا خواب ہے کہ ان کے ملک کے تمام سرکاری ٹھیکے 100 فیصد صاف، شفاف ہوں اور کرپشن سے پاک ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دیئیلا سرکاری ٹھیکوں میں انسانوں کی پسند ناپسند، رشوت، طرف داری اور سیاسی مداخلت کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ ایک ایسا نظام لا رہی ہے جس میں ٹھیکہ لینے والوں کی اہلیت کا معیار  طے کرنے، قیمت کی حد مقرر کرنے اور جمع کرائی گئی دستاویزات کی تصدیق کرنے کے مراحل خودکار انداز میں طے ہوں گے۔

فی الحال دیئیلا صرف آن لائن دستاویزات کا اجرا کرتی ہے،  اور عوامی خدمات کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

البانوی حکومت تیزی سے ڈیجیٹل طرز حکمرانی کی راہ پر پیش قدمی کر رہی ہے تاہم بعض ماہرین آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘ پر انسانی نگرانی کو ضروری سمجھ رہے ہیں اور بعض کو خطرہ ہے کہ بدعنوانی اس ڈیجیٹل نظام میں بھی چوہوں کی طرح سوراخ کردے گی۔

چند روز پہلے البانیا کے وزیراعظم ’ادی راما‘ نے ایک حیران کن اعلان کیا کہ ملک کی مصنوعی ذہانت پر مبنی وزیر ’دیئیلا‘ حاملہ ہے، وہ جلد 83 ’بچوں‘ کو جنم دے گی۔

پھر انہوں نے مزید وضاحت کی کہ یہ ’بچے‘ انسان نہیں ہوں گے بلکہ ڈیجیٹل اسسٹنٹ ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک ملکی پارلیمان کے 83 ارکانِ اسمبلی میں سے ہر رکن کے  ذاتی معاون کے طور پر کام کرے گا۔

البانوی وزیراعظم کے بقول ان میں سے ہر بچہ اپنے ’باس‘ (رکن اسمبلی) کے پارلیمانی اجلاسوں کی مکمل ریکارڈنگ کرے گا، اگر وہ رکن اسمبلی کسی اجلاس میں شریک نہ ہوسکا تو اسے بتائے گا کہ اجلاس میں کیا کچھ زیرِ بحث آیا، اور کون سے فیصلے ہوئے۔

یہ ورچوئل اسسٹنٹ اپنے ’باس‘ کو یہ مشورہ بھی دے گا کہ کس معاملے پر کیا اور کب ردعمل دینا ہے۔

یہ پورا نظام اگلے برس 2026 تک پوری طرح فعال ہوجائے گا۔ وزیراعظم کو یقین ہے کہ اس نئے نظام سے پارلیمان کے کام میں شفافیت آئے گی اور اس کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔

’ دیئیلا  ‘ اور اس کے ہونے والے 83بچوں پر مشتمل گھرانہ البانیہ میں کیسے تبدیلی لا رہا ہے، اگر آپ بحیثیت پاکستانی مزید سمجھنا چاہتے ہیں تو یوں سمجھ لیجیے۔

’دیئیلا‘ کی ایک سہیلی کا کہنا ہے، اگر ’دیئیلا‘ جیسی وزیر پاکستان میں کام کرنے کا تہیہ کرلے، اسے کام کرنے کے تمام مواقع اور سہولیات بھی فراہم کردی جائیں، فرض کریں اسے  وزارت اطلاعات، وزرات خزانہ یا وزارت داخلہ کا قلم دان سونپ دیا جائے تو سب سے پہلی تبدیلی جو آئے گی، وہ ڈیٹا کی شفافیت کی صورت میں ہوگی۔

وہ ہر ٹھیکے، فنڈ اور ادائیگی کا خودکار ریکارڈ رکھے گی۔ کوئی افسر یا وزیر اپنی مرضی سے فائل دبا یا غائب نہیں کر سکے گا۔
ہر شہری اپنے موبائل پر جا کر دیکھ سکے گا کہ کس منصوبے کے لیے کتنی رقم منظور ہوئی، کب خرچ ہوئی، اور کس کمپنی کو ملی۔

اگر ’دیئیلا‘ کے 342 ڈیجیٹل اسسٹنٹس پاکستان کی قومی اسمبلی کے ارکان کے لیے کام کریں تو ہر رکن کی حاضری، تقاریر، ووٹنگ رویے اور کارکردگی کی خودکار رپورٹ عوام کو دستیاب ہو سکتی ہے۔
یعنی ’صاحب اجلاس میں آئے بھی تھے یا نہیں؟‘ یہ بات اب چھپ نہیں سکے گی۔ نہ صرف ’صاحب‘ کو اجلاس میں شریک ہونا پڑے گا بلکہ ایک فعال رکن اسمبلی بن کر وہ کردار بھی ادا کرنا پڑے گا، جس کے لیے اسے پارلیمان میں بھیجا گیا تھا۔

  وزیر موصوفہ کسی بھی غیر معمولی ٹرانزیکشن، بے ضابطگی یا ٹینڈر میں مشکوک ڈیٹا کو فوراً فلیگ کر سکتی ہیں۔
رشوت یا کمیشن کا عمل خودکار ڈیجیٹل ٹریکنگ سے تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔

اور

ایسی ’حسینہ‘ کی ماتحتی میں تمام شہری خدمات (شناختی کارڈ، لائسنس، زمین کے ریکارڈ، ٹیکس ریٹرن) ایک ہی ڈیجیٹل پورٹل سے ممکن ہو سکتی ہیں، نہ قطار، نہ سفارش، نہ رشوت۔

پھر کیا خیال ہے، قبول ہے یہ حسینہ؟؟

اگر پاکستان میں ’دیئیلا‘ جیسی کوئی وزیر آ جائے
تو شاید فائلوں، نوٹ شیٹس، اور ’حاضر باش سرکاری افسران‘ کا دور ختم ہو جائے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اسے محض پروجیکٹ نہیں، بلکہ شفافیت کا حامل عہد سمجھ کر اپنائیں۔

ہو سکتا ہے وہ دن دور نہ ہو جب اسلام آباد کے کسی دفتر میں ایک ڈیجیٹل وزیر بیٹھا ہو،  جو کہے:

’جناب، آپ کی فائل ہم نہیں، سسٹم دیکھتا ہے۔‘

تب شاید، پاکستان کی سیاست، انتظامیہ، اور عوام سب پہلی بار ایک ہی صفحے پر ہوں۔

 مگر خطرہ یہ بھی ہے…

مصنوعی ذہانت جتنی طاقتور ہے، اتنی ہی خطرناک بھی ہے۔ اگر یہ نظام کسی سیاسی جماعت یا طاقتور طبقے کے زیرِ اثر آ گیا، تو شفافیت کے بجائے ڈیجیٹل نگرانی کا نیا جال بچھ سکتا ہے۔
اور جہاں نظام میں انسان شامل ہو، وہاں ’ڈیجیٹل چوہے‘ بھی کبھی کبھار سوراخ کر ہی لیتے ہیں۔

اس لیے اس ممکنہ خطرے کا پیشگی انتظام ضروری ہوگا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

اردو کالم البانیا اے آئی وزیر عبیداللہ عابد.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اردو کالم البانیا اے ا ئی وزیر عبیداللہ عابد پاکستان میں اجلاس میں رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

حکومتی ٹیکسوں اور بجلی ٹیرف میں کمی لائی جائے‘ پاکستان بزنس فورم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (کامرس رپورٹر) حکومتی ٹیکسوں اور بجلی کے ٹیرف کمی لائی جائے، ایکسپورٹ بڑھنے سے بیروزگاری میں کمی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا، تاجر اپنی کمائی کا 45 فیصد حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں ادا کر رہا ہے،حکومت نے 10 فیصد سپر ٹیکس عارضی لگاکر مستقل کردیا، ایکسپورٹ بڑھنے سے ملکی حالت بہتر ہونگے،حکومت اضلاع کی پیدوار کے مطابق اقدامات اتھائے،جو وقت کا اہم تقاضا ہے،ان خیالات کا اظہار پاکستان بزنس فورم کے چیف آرگنائزر چوہدری احمد جواد اور صدر کراچی ملک خدا بخش نے گزشتہ روز بزنس کمیونٹی سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت اب بھی بحران کا شکار ہے اور درست سمت نہیں ہے۔ ہمیں پارلیمان سے چارٹر آف اکانومی چاہیے۔ پاکستان میں بجلی کا ٹیرف خطے میں سب سے زیادہ 13 سینٹ فی یونٹ ہے، جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں یہی نرخ 8 سینٹ فی یونٹ ہیں، جس سے ایکسپورٹس اور انڈسٹری شدید متاثر ہو رہی ہے۔بزنس فورم کے چیف آرگنائزر چویدری احمد جواد نے کہا کہ 45 فیصد تک کارپوریٹ ٹیکس خطے میں سب سے زیادہ ہے، سپر ٹیکس وقتی نہیں بلکہ مستقل بنا دیا گیا ہے، 100 روپے کمائیں تو 45 روپے حکومت لے جاتی ہے، ایسے میں بزنس چلانا ممکن نہیں۔ امریکہ 21 فیصد جبکہ برطانیہ میں 25 فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے،اور عوام کو بہترین سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہے،انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر کے بغیر معیشت کی بحالی ممکن نہیں، ہر نئی حکومت قرض لیتی ہے جو ملک چلانے کا درست طریقہ نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو کمپیٹیٹو ریٹس دے تاکہ ایکسپورٹس میں اضافہ ہو۔ملک خدا بخش نے مزید کہا کہ بیوروکریسی معیشت نہیں چلا سکتی، پالیسی سازی میں بزنس ماہرین کو شامل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضلعی سطح پر انڈسٹری کے فروغ اور ڈسٹرکٹ اکنامیز کے قیام سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔انہوں نے کہا حکومت بزنس کمیونٹی کو اعتماد میں لے اور ان کے حقیقی مسائل حل کرے۔

کامرس رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • ویکسین نہ خریدی گئیں تو صحت کا نظام دباؤ کا شکار ہو جائے گا، مریض فٹ پاتھوں پر آ سکتے ہیں: مصطفیٰ کمال
  • سرکاری افسران کے اثاثوں کی رپورٹنگ کے لیے نیا ڈیجیٹل نظام تیار
  • آئی ایم ایف کا بڑا مطالبہ، سول بیوروکریٹس کے اثاثے چھپانا ناممکن بنانے کی تیاری
  • اقتصادی ترقی کیلئے قومی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر  ناگزیر ہے: شزہ فاطمہ 
  • پاکستان نے بائنانس اور ایچ ٹی ایکس کو کرپٹو اور ڈیجیٹل کرنسی کی اجازت دے دی
  • بھارت 2027ء میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کیلئے تیار ہے، نریندر مودی کی صدارت میں کابینہ میٹنگ
  • افغان سرزمین بیرونی عسکری سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں، طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی
  • سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے، نگران وزیر اعلیٰ
  • عالمی مالیاتی نظام میں موسمیات کی مرکزی حیثیت ناگزیر ہے: وزیر خزانہ
  • حکومتی ٹیکسوں اور بجلی ٹیرف میں کمی لائی جائے‘ پاکستان بزنس فورم