دہلی میں شدید آلودگی کے درمیان سانس لینا محال، آنکھوں میں خارش سے لوگ پریشان
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
سانس کے مریضوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فی الوقت دہلی میں ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) 400 سے تجاوز کر گیا ہے جو ہوا کے سنگین زمرے کو ظاہر کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی میں آج بھی آلودگی شدید زمرے میں رہی ہے۔ ہفتہ کی صبح اسموگ اور ہلکے کہرے کے درمیان شروع ہوئی جب آسمان پر اسموگ کی چادر چھائی ہوئی تھی۔ کئی علاقے زہریلے اسموگ کی موٹی تہہ میں قید رہے جس کی وجہ سے حد بصارت کافی کم رہی۔ اس دوران لوگ ماسک پہنے نظر آئے جبکہ سانس کے مریضوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فی الوقت دہلی میں ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) 400 سے تجاوز کر گیا ہے جو ہوا کے سنگین زمرے کو ظاہر کرتا ہے۔ ایمس کے علاقے میں ہفتہ کی صبح حد بصارت کافی کم رہی۔ اسموگ کی موٹی تہہ کی وجہ سے لوگوں کو صحت سے متعلق مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ آنند وہار میں بھی یہی صورتحال رہی۔ علاقے کے ارد گرد اے کیو آئی 434 درج کیا گیا ہے، جسے سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) کے مطابق سینگین زمرے میں رکھا جاتا ہے۔
زہریلے اسموگ کی موٹی چادر نے آئی ٹی او علاقے کو اپنی زد میں لے لیا۔ علاقے کے ارد گرد اے کیو آئی 417 درج کیا گیا ہے جو سی پی سی بی کے مطابق سنگین زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح اکشردھام علاقے کے ارد گرد اے کیو آئی 419 ریکارڈ کیا گیا ہے جسے سی پی سی بی کے مطابق سنگین زمرے میں رکھا گیا ہے۔ پارلیمنٹ اسٹریٹ علاقے میں بھی حد بصارت کم رہی۔ اس علاقے کے آس پاس اے کیو آئی 356 درج کیا گیا ہے جو سی پی سی بی کے مطابق انتہائی ناقص زمرے میں آتا ہے۔
اس سنگین مسئلے کو دیکھتے ہوئے قومی راجدھانی خطہ اور ملحقہ علاقوں میں ہوا کا معیار طے کرنے سے متعلق ادارہ "سی اے کیو ایم" نے گاڑیوں سے ہونے والی فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ایک ماہر کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یہ کمیٹی سرکردہ ماہرین تعلیم، ماہرین صحت، آٹو موٹیو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور دیگر فیلڈ ماہرین کو متحد کرتی ہے جو گاڑی سے علاقے میں اخراج کم کرنے کے لیے مضبوط اور کثیر جہتی روڈ میپ کی سفارش کرے گی۔
سنٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) نے پیش گوئی کی ہے کہ اتوار اور پیر کو بھی ہوا کا معیار انتہائی خراب زمرے میں پہنچنے کا اندیشہ ہے، جس کی وجہ سے سانس کے مریضوں کے لئے مسائل پیدا ہوں گے۔ مزید برآں لوگوں کو آنکھوں میں جلن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہفتہ کو بھی کئی علاقوں میں ہوا کا معیار سنگین اور انتہائی خراب زمروں میں درج کیا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: درج کیا گیا ہے سی پی سی بی سنگین زمرے اے کیو آئی گیا ہے جو کے مطابق اسموگ کی علاقے کے دہلی میں
پڑھیں:
بھارت میں اذان پر پابندی
ریاض احمدچودھری
بھارتی ریاست اتر پردیش میں ہندو توا انتظامیہ نے لاؤڈ سپیکروں کے خلاف مہم تیز کرتے ہوئے مختلف مساجد سے 55 سپیکر نکال دیے ہیں۔ پولیس نے ریاست کے ضلع مظفر نگر کے سول لائز ، کوتوالی اور کھلہ پور تھانوںکی حدود میں واقع مساجد سے لاوڈ سپیکر اتار دیے ہیں۔ سرکل افسر (سٹی) سدھار تھ ناتھ مشرا نے لاؤڈ سپیکر نکالنے کا جواز فراہم کرنے کیلئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آواز دھیمی رکھنے کو جو ہدایت دی تھی اسکی خلاف ورزی ہور رہی تھی۔مودی کے بھارت میں ہندو انتہا پسندی اس حد تک عروج پر ہے کہ عدالتیں بھی انتہا پسندوں کا حکم ماننے کو مجبور ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ نے بھی اذان کیلئے اسپیکر کے استعمال کو غیر ضروری قراردے دیا۔ جبکہ بھارتی عدالت نے گلوکار سونونگم کے اذان کے خلاف ٹوئٹ پر دائر مقدمہ اسے سستی شہرت کے حصول کا ذریعہ قراردیتے ہوئے مسترد کردیا۔پنجاب اور ہریانہ کورٹ نے کہا کہ اذان کو اسلامی عبادات کیلئے لازمی ہونا چاہئے مگر لاوؤڈ اسپیکر کو نہیں۔ جب سے مودی سرکار نے بھارت کا کنٹرول سنبھالا ہے، مسلمانوں کے خلاف ہر ممکن و ناممکن اقدام جائز قرار دیا جاتا رہا ہے۔ یوں تو بھارت میں اذان کے خلاف شدت پسند ہندو تنظیموں کے علاوہ مختلف حلقوں سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی مخالفت بڑھتی جارہی ہیں۔ اب بھارت میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
الٰہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر کی جانب سے اذان کے خلاف شکایت، اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔پروفیسر سنگیتا سریواستوا نے ضلع مجسٹریٹ کو دی گئی اپنی شکایت میں کہا ہے، ”میں یہ بات آپ کے علم میں لانا چاہتی ہوں کہ قریبی مسجد سے ہر روز صبح ساڑھے پانچ بجے مائیک پر اذان دینے کی وجہ سے میری نیند خراب ہو جاتی ہے۔ میری نیند میں اتنا زیادہ خلل پڑتا ہے کہ کوششوں کے باوجود میں دوبارہ سونہیں پاتی اور اس کے نتیجے میں دن بھر میرے سر میں درد رہتا ہے اور میں کام نہیں کر پاتی ہوں۔”الٰہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے اپنی شکایت میں مزید لکھا، ”میں کسی مذہب، ذات یا نسل کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن وہ مائیک کے بغیر بھی اذان دے سکتے ہیں۔ تاکہ دوسروں کو پریشانی نہ ہو۔ رمضان کے دنوں میں مائیک پر سحری کا اعلان صبح چار بجے شروع ہو جاتا ہے، جس سے دوسروں کو بھی پریشانی اْٹھانی پڑتی ہے۔ بھارتی آئین نے تمام فرقوں کو پر امن بقائے باہمی کی ضمانت دی ہے، جسے عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔”
ضلعی حکام نے اذان کے متعلق شکایت موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔الہ آباد یونیورسٹی کے قریب واقع تاریخی لال مسجد کی انتظامی کمیٹی نے از خود فیصلہ کرتے ہوئے گوکہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کم کر دی ہے اور اس کی سمت بھی وائس چانسلر کی رہائش گاہ کی جانب سے موڑ کر دوسری طرف کردی ہے۔ اس سے وائس چانسلرکا مسئلہ کوکافی حد تک کم ہوگیا، مگر اب یہ معاملہ سیاسی رنگ اختیار کرنے لگا ہے۔ مختلف سیاسی تنظیموں نے اذان پر پابندی کے خلاف شہر میں مظاہرے کیے ہیں۔اپوزیشن کانگریس سے وابستہ طلبہ تنظیم این ایس یو آئی نے وائس چانسلر کا پْتلا جلایا اور کہا کہ یہ مذہبی منافرت کو ہوا دینے کی بی جے پی کی چال ہے۔ اس تنظیم نے اذان پر پابندی کے مطالبے کی مذمت کی اور سوال کیا کہ صرف اذان سے ہی شہریوں کی نیند میں خلل کیوں پڑتا ہے۔ بھجن، کیرتن، آرتی اور کتھا کے دوران ہونے والے شوروغل سے انہیں پریشانی کیوں نہیں ہوتی۔
مودی سرکار نے درپردہ پولیس والوں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ کسی بھی مسجد میں اذان نہیں ہونی چاہئے جس کے بعد دہلی کی مساجد میں اذان پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دہلی اسمبلی کے حلقہ نانگلوئی میں پریم نگر پولیس اسٹیشن کے علاقہ کے ایک ویڈیو میں دہلی پولیس کے اہلکار مسجد میں اذان دینے پر پابندی لگائے جانے کی بات کر رہے ہیں۔دہلی پولیس کے اہلکار امام مسجد کو کہہ رہے ہیں کہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل کے کہنے پر اذان پر پابندی عائد کی گئی ہے۔اس کے علاوہ کئی دوسرے علاقوں سے بھی اذان پر پابندی کی خبریں سامنے آئی ہے۔ اس پورے معاملے میں دہلی اقلیتی کمیشن نے پریم نگر اور مہیپال پور میں پیش آنے والے واقعات کی تصدیق کی ہے۔بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اور معروف دینی درسگاہ لکھنو کے فرنگی محل کے سربراہ مولانا خالد رشید فرنگی محلی کہتے ہیں۔”اذان سے متعلق الٰہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے خط کی ہم مخالفت کرتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ بھارت گنگا جمنی تہذیب کیلئے مشہور ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسجدوں سے اذانیں اور مندروں سے بھجن کیرتن فضا میں گونجتے رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے کسی کی نیند میں خلل نہیں پڑتا۔ لہذا اس طرح کے غیر ضروری معاملے کو اٹھا کر لوگوں کو گمراہ نہ کیا جائے۔ اذان کے حوالے سے ہائیکورٹ نے جو حکم دیا تھا اس پر تمام مساجد میں عمل کیا جاتا ہے۔”
٭٭٭