ریٹائرمنٹ کے بعد بھی راز ہاتھ میں، فیض حمید پر خفیہ دستاویزات رکھنے کا سنگین الزام
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں باخبر ذرائع کے مطابق 14 سال قید کی سزا پانے والے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر ریٹائرمنٹ کے بعد خفیہ سرکاری دستاویزات اپنے پاس رکھنے کا بھی الزام عائد کیا گیا۔
ذرائع نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ دستاویزات کون سی تھیں، تاہم بتایا گیا ہے کہ وہ انہیں رکھنے کے مجاز نہیں تھے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو چار الزامات پر ٹرائل کے بعد سزا سنائی گئی۔ ان الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور بعض افراد کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت ایک الزام ریٹائرمنٹ کے بعد حساس دستاویزات اپنے پاس رکھنے سے متعلق تھا، جبکہ سیاسی سرگرمیوں کا الزام سیاستدانوں، خصوصاً پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقاتوں اور روابط سے جوڑا گیا۔ 2023 میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد حساس عہدوں پر فائز افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ سال تک سیاسی سرگرمیوں سے روک دیا گیا ہے۔
روزنامہ دی نیوز نے دسمبر 2024 میں رپورٹ کیا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید نے ریٹائرمنٹ کے بعد تقریباً 50 سیاستدانوں سے رابطہ رکھا۔ ذرائع کے مطابق گرفتاری سے قبل انہیں ان سرگرمیوں پر متعدد بار خبردار بھی کیا گیا تھا، مگر انہوں نے یہ روابط ختم نہیں کیے۔
ایک اور الزام ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملے سے متعلق تھا، جس میں ان پر عہدے کے غلط استعمال کے ذریعے رقم حاصل کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا۔ یہ کیس ہاؤسنگ سوسائٹی کے موجودہ سی ای او کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی بنیاد پر بنا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ 2017 میں رینجرز اور آئی ایس آئی اہلکاروں نے ہاؤسنگ پروجیکٹ کے دفتر اور رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونا، نقد رقم اور قیمتی اشیا قبضے میں لیں۔ بعد ازاں الزام لگایا گیا کہ کچھ سامان واپس کرنے کے بدلے رقم اور دیگر مالی تقاضے کیے گئے، تاہم سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ٹرائل میں ایک الگ الزام بحریہ ٹاؤن کے ایک سابق ملازم کو نقصان پہنچانے سے بھی متعلق تھا، جسے بھی کیس کا حصہ بنایا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ریٹائرمنٹ کے بعد کے مطابق ا ئی ایس کیا گیا
پڑھیں:
جنرل فیض حمید کے خلاف سنگین الزامات جن کا فیصلہ ہونا باقی ہے
معروف تجزیہ کار اور اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ جنرل فیض حمید کے خلاف الزامات کی نوعیت بہت وسیع اور سنگین ہے اور آج دی گئی سزا صرف ایک مقدمے کا فیصلہ ہے۔ آئندہ دنوں میں کرپشن، سیاسی مداخلت، اثر و رسوخ کے غلط استعمال اور ٹی ٹی پی روابط سے متعلق مزید تحقیقات سامنے آئیں تو اہم انکشافات کی توقع ہے۔
نجی ٹیلی ویژن چینل سے گفتگو کے دوران حامد میر نے بتایا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کیس 15 ماہ تک جاری رہا جس میں 27 گواہان پیش ہوئے۔ بعض گواہوں نے ان کے حق میں گواہی دی، مگر کراس ایگزامینیشن کے دوران ان کے بیانات درست ثابت نہ ہوسکے۔
اس کے برعکس جن گواہوں نے جنرل فیض کے خلاف گواہی دی، انہوں نے مضبوط اور ٹھوس شواہد پیش کیے جنہیں عدالت نے معتبر قرار دیا۔
حامد میر کا کہنا ہے کہ کیس کا پورا قانونی عمل انتہائی سخت مراحل سے گزرا۔
کنویننگ اتھارٹی سے کیس ملٹری کورٹ کو بھیجا گیا، کارروائی مکمل ہونے کے بعد جیک برانچ نے ہر گواہی اور ثبوت کا ازسرنو جائزہ لیا تاکہ فیصلہ مستقبل میں قانونی کمزوریوں سے محفوظ رہے۔
بعد ازاں فیصلہ دوبارہ کنویننگ اتھارٹی کو بھیجا گیا جس کے بعد ملٹری کورٹ نے 11 دسمبر 2025 کو 14 سال سخت قید کی سزا سنائی۔
حامد میر کے مطابق، جن الزامات پر ابھی کارروائی ہونا باقی ہے، وہ نہایت سنگین ہیں، جن میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن، سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت، عہدے کے حلف سے انحراف شامل ہیں۔
نیب کو گزشتہ روز مسلم لیگ ن کی حکومت میں شامل بعض شخصیات نے بتایا کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو جنرل فیض بطور ڈی جی خفیہ ادارہ ان سے ذاتی طور پر ’لوٹ مار‘ کرتے رہے اور اپنے ایک ماتحت کے ذریعے اربوں روپے وصول کیے۔
پی ٹی آئی کے ساتھ خفیہ تعلقاتعمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد بحیثیت کور کمانڈر پشاور بھی انہوں نے سیاسی معاملات میں مداخلت جاری رکھی۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں نے بعد ازاں اندرونی طور پر انکشاف کیا کہ جنرل فیض پی ٹی آئی کو “پیچھے بیٹھ کر” کنٹرول کر رہے تھے۔ ان کے پاس ایک خاص سیکیور فون تھا جس کے ذریعے وہ رہنماؤں کو ہدایات دیتے تھے۔ 9 مئی سے متعلق ایک پلاننگ میٹنگ بھی ہوئی جس میں مبینہ طور پر انہی نے واضح ہدایات جاری کیں۔
پی ٹی آئی کے 2 رہنماؤں نے یہ معلومات لیک کرتے ہوئے کہا کہ وہ زبردستی کرائے جانے والے کاموں سے تنگ آچکے تھے۔
بیک وقت تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ ن سے رابطے ، آرمی چیف بننے کی کوششیںدلچسپ طور پر جنرل فیض ایک جانب پی ٹی آئی کے انتہائی قریب سمجھے جا رہے تھے، جبکہ دوسری جانب وہ مسلم لیگ ن تک بھی اپنے چینلز کھولے ہوئے تھے۔
حامد میر کے مطابق نومبر 2022 سے قبل وہ ہر ممکن کوشش کر رہے تھے کہ نہ جنرل عاصم منیر آرمی چیف بن سکیں اور نہ جنرل باجوہ کو توسیع ملے۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ایک وزیر کے ذریعے رابطہ کیا۔ انہوں نے میاں نواز شریف تک بھی ایک میسنجر کے ذریعے پیغام پہنچانے کی کوشش کی۔
ان کا وعدہ تھا کہ آپ جیسے چاہیں گے، میں ویسا ہی کروں گا… مجھے آرمی چیف بنا دیں، میں آپ کا انتہائی وفادار ثابت ہوں گا۔ لیکن نواز شریف اور شہباز شریف نے ان کے وعدوں پر اعتبار نہیں کیا۔
ٹی ٹی پی سے خفیہ مذاکرات، سزائے موت کے دہشتگردوں کی رہائی تک کی منظوریحامد میر نے ایک اور انتہائی سنگین انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ جنرل فیض نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی اور کور کمانڈر پشاور خود ٹی ٹی پی قیادت سے خفیہ مذاکرات کیے۔ کچھ رابطے کابل کے وفد کے ذریعے ہوئے، جبکہ بعض ملاقاتیں انہوں نے وفد کی اطلاع کے بغیر اکیلے کیں۔ انہی مذاکرات کے نتیجے میں 2 خطرناک دہشتگردوں مسلم خان اور محمود خان کی سزائے موت معاف کرائی گئی۔ جنرل باجوہ اور وزیراعظم عمران خان کو قائل کیا گیا اور پھر صدر عارف علوی نے دونوں کی سزا معاف کی۔ ٹی ٹی پی کو پاکستان لا کر بسانے کا عمل بھی انہی کی سرپرستی میں تھا۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مخالفت کی تو انہیں چپ کرانے کی کوشش کی گئی۔
حامد میر کے مطابق جنرل فیض حمید کے خلاف الزامات کی نوعیت بہت وسیع اور سنگین ہے اور آج دی گئی سزا صرف ایک مقدمے کا فیصلہ ہے۔
آئندہ دنوں میں کرپشن، سیاسی مداخلت، اثر و رسوخ کے غلط استعمال اور ٹی ٹی پی روابط سے متعلق مزید تحقیقات سامنے آئیں تو اہم انکشافات کی توقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں