اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کو روند ڈالا؛ آج غزہ پر 10 سے زائد حملے، متعدد فلسطینی شہید
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جنگ بندی کے باوجود آج صبح غزہ کے علاقے خان یونس پر اسرائیلی فوج نے 10 سے زائد حملے کیے ہیں۔
غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق یہ بمباری غزہ کے جنوبی حصے میں کشیدگی کے نئے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے، جہاں شہری آبادی ایک بار پھر شدید خطرات سے دوچار ہے۔
غزہ کے شہریوں میں اسرائیلی حملوں کا خوف برقرار ہے جس سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ امریکی ثالثی میں طےجنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملے جاری ہیں۔
جنوبی غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں میں 100 سے زائد فلسطینی شہید اور 253 زخمی ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد سے اسرائیل 211 فلسطینیوں کو شہید اور 597 کو زخمی کر چکا ہے۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق غزہ کی فضاؤں میں ڈرونز کی آوازیں بتاتی ہیں کہ امن اب بھی ناپید ہے لوگ خوف میں ہیں یقین نہیں کہ جنگ بندی برقرار رہ پائےگی۔
اسرائیلی حملے جنگ بندی کی خلاف ورزی قرار ہے اور اس پر عالمی برادری کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ اہل غزہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے جاری ہیں یہ کیسی جنگ بندی ہے اب پھر خوف نے گھر کرلیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ریڈ لائن کراس کرنے پر چین کی اسرائیل کو وارننگ جاری
اسرائیلی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے ایک حصے میں بتایا گیا ہے کہ چین کے سفارت خانے نے ایک سخت لہجے کا بیان جاری کیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تائیوان کا مسئلہ ایک ’’سرخ لکیر‘‘ ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا اور یہ چین کے بنیادی قومی مفادات کا مرکز ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تل ابیب میں چین کے سفیر نے باضابطہ مراسلہ ارسال کرتے ہوئے تائیوانی عہدیدار کے دورے پر اسرائیل کے طرزِ عمل پر شدید احتجاج کیا ہے اور غلط اقدامات کی اصلاح اور گمراہ کن پیغامات کی ترسیل بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تسنیم نیوز کے عبری امور گروپ کے مطابق اسرائیلی چینل 12 ٹیلی ویژن نے رپورٹ کیا ہے کہ تائیوان کے نائب وزیرِ خارجہ کے خفیہ دورۂ فلسطینِ مقبوضہ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد چین کے سفیر نے اس اقدام پر سخت اعتراض کیا۔
شائع شدہ رپورٹس کے مطابق تائیوان کے نائب وزیرِ خارجہ فرانسوا وو نے کچھ عرصہ قبل فلسطینِ مقبوضہ کا ایک خفیہ دورہ کیا تھا، جس پر چینی حکومت کی جانب سے شدید اور غصے بھرا ردِعمل سامنے آیا۔ اس عبرانی میڈیا کے مطابق یہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا جب تائیوان کے اسرائیل کے ساتھ کوئی باضابطہ سفارتی تعلقات موجود نہیں ہیں، جبکہ چین اُن فریقوں کے خلاف سخت سیاسی اقدامات اختیار کرتا ہے جو تائیوان کے ساتھ سفارتی روابط قائم کرتے ہیں۔
اسرائیلی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے ایک حصے میں بتایا گیا ہے کہ چین کے سفارت خانے نے ایک سخت لہجے کا بیان جاری کیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تائیوان کا مسئلہ ایک سرخ لکیر ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا اور یہ چین کے بنیادی قومی مفادات کا مرکز ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ چین تائیوانی حکام کے ساتھ کسی بھی قسم کے سرکاری تعلقات کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ ہم ایک بار پھر اسرائیلی فریق سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مکمل طور پر ’’ایک چین‘‘ کے اصول کی پابندی کرے، اپنے غلط اقدامات کی اصلاح کرے اور تائیوان کی آزادی کے حامی علیحدگی پسند عناصر کو گمراہ کن پیغامات بھیجنے سے باز رہے، تاکہ عملی اقدامات کے ذریعے چین اور اسرائیل کے تعلقات کے مجموعی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے ایک اور حصے میں بتایا گیا ہے کہ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع نے انکشاف کیا کہ وو نے ’’حالیہ ہفتوں‘‘ میں فلسطینِ مقبوضہ کا دورہ کیا تھا، اور دو ذرائع نے دعویٰ کیا کہ یہ ملاقات اسی مہینے میں ہوئی۔ ان ذرائع نے اس بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں کہ وو نے کن افراد سے ملاقات کی، ملاقاتوں کے مندرجات کیا تھے، یا آیا ان ملاقاتوں میں تائیوان کے نئے کثیر سطحی فضائی دفاعی نظام، جسے T-DOM کہا جاتا ہے اور جو جزوی طور پر اسرائیلی فضائی دفاعی نظام سے مشابہت رکھتا ہے، پر بھی بات چیت ہوئی یا نہیں۔ اس دوران اسرائیلی میڈیا نے اُن اسرائیلی عہدیداروں کی شناخت ظاہر کرنے سے بھی گریز کیا جن سے تائیوان کے نائب وزیرِ خارجہ نے ملاقات کی تھی، حتیٰ کہ اپنی رپورٹ میں ان کے چہروں کو بھی دھندلا دیا۔ دوسری جانب، اسرائیل اور تائیوان کی وزارتِ خارجہ نے اس تائیوانی عہدیدار کے دورے کی تصدیق یا تردید سے متعلق کسی بھی قسم کے تبصرے سے انکار کر دیا ہے۔