حماس نے ایک اور یرغمالی کی لاش اسرائیل کے حوالے کردی
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
حماس نے آج 8 نومبر کو ایک اور یرغمالی کی لاش آئی سی آر سی کے ذریعے اسرائیل کے حوالے کردی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ لاش ممکنہ طور پر یرغمالی کی ہے اور اس کی شناخت کے لیے فرانزک ٹیسٹ جاری ہیں۔
یہ حوالگی اُس امریکی ثالثی معاہدے کی روشنی میں ہوئی ہے جو غزہ تنازعے کے تحت طے پایا تھا جس میں زندہ یرغمالیوں اور لاشوں کی واپسی کی شقیں شامل تھیں۔
اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ اس واپسی کے باوجود ابھی بھی متعدد یرغمالیوں کی لاشیں غزہ میں موجود ہیں جسے فور طور پر حوالے کیا جائے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
غزہ کے اسپتالوں کو مزید 15 شہدا کی لاشیں موصول، مجموعی تعداد 285 ہو گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ کے جنوبی شہر خان یونس کے نصر اسپتال نے تصدیق کی ہے کہ امریکی ثالثی میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت مزید 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں اسپتال لائی گئی ہیں۔
اسپتال حکام کے مطابق اس معاہدے کے آغاز سے اب تک مجموعی طور, پر 285 شہدا کی لاشیں موصول ہو چکی ہیں، جنہیں اسرائیلی فوجی اِتائے چن کی لاش کے بدلے میں واپس کیا گیا تھا۔ اِتائے چن کی لاش منگل کے روز حماس نے اسرائیلی حکام کے حوالے کی تھی۔
معاہدے کی شرائط کے مطابق اسرائیل جب بھی کسی اسرائیلی یرغمالی کی لاش وصول کرتا ہے تو اس کے بدلے میں 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں واپس کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جنگ بندی کے آغاز میں حماس کے قبضے میں 48 یرغمالی موجود تھے، جن میں سے 20 زندہ جبکہ 28 ہلاک تھے۔ بعد ازاں گروپ نے تمام زندہ قیدیوں کو رہا کیا اور 21 ہلاک قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس جان بوجھ کر ہلاک یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرنے میں تاخیر کر رہی ہے، تاہم حماس کا موقف ہے کہ کئی لاشیں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبی ہوئی ہیں، جس کے باعث یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔
حماس نے عالمی ثالثوں اور ریڈ کراس سے اپیل کی ہے کہ وہ لاشوں کی بازیابی کے لیے ضروری مشینری اور عملہ فراہم کریں تاکہ انسانی ہمدردی کے اس عمل میں تیزی لائی جا سکے۔
واضح رہے کہ دو سال سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 68 ہزار 875 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ غزہ کی اکثریتی آبادی اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکی ہے۔