Jasarat News:
2025-11-09@23:29:32 GMT

سلیب کا کھیل: بجلی کے بلوں سے پنشن کی کٹوتی تک

اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں ریاستی پالیسیوں کا سب سے بڑا تضاد ’’سلیب سسٹم‘‘ ہے۔ یہ ایسا جال ہے جس میں عام آدمی اور سرکاری ملازم دونوں پھنستے ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتے۔ سلیب کے نام پر کبھی بجلی کے بلوں میں عوام سے اضافی پیسے نکلوائے جاتے ہیں اور کبھی ریٹائرڈ ملازمین کی زندگی بھر کی کمائی پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ یوں یہ ایک ایسا دو دھاری ہتھیار ہے جو ہر طرف سے غریب اور ملازم پیشہ طبقے کو زخمی کرتا ہے۔
بجلی کے نظام میں 200 یونٹ کی ایک مصنوعی لکیر کھینچی گئی ہے۔ عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس حد تک رعایتی نرخ ملیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی کسی صارف کا بل 201 یونٹ پر پہنچتا ہے تو رعایت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ پورے یونٹس مہنگے ہو جاتے ہیں اور ایک یونٹ کا فرق ہزاروں روپے کے اضافے میں بدل جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سلیب ’’ریلیف‘‘ کے بجائے ’’سزا‘‘ بن جاتا ہے۔
غریب مزدور جس کا گھر پہلے ہی مہنگائی کی آگ میں جل رہا ہے، ایک یونٹ زیادہ خرچ کرنے کی پاداش میں پانچ چھ ہزار روپے اضافی ادا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کسان جس کی فصلیں ڈیزل اور بجلی کے اخراجات سے تباہ ہو چکی ہیں، وہ بھی اس پھندے میں پھنس جاتا ہے۔ کلرک، استاد اور ریٹائرڈ بزرگ شہری سب کے سب اس سسٹم کے ہاتھوں لٹتے ہیں۔ بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو نہ عوام کی مجبوری کا احساس ہے نہ انصاف کی پرواہ۔ ان کے نزدیک یہ صرف اعداد و شمار کا کھیل ہے، لیکن حقیقت میں یہ لاکھوں گھروں کا چولہا بجھا دیتا ہے۔
یہ سلیب صرف بجلی کے بلوں تک محدود نہیں بلکہ سرکاری ملازمین کی پنشن اور ریٹائرمنٹ بینیفٹس پر بھی اسی کا اطلاق ہوتا ہے۔ جب کوئی ملازم 3 دہائیاں خدمت کے بعد ریٹائر ہوتا ہے تو وہ اپنے بڑھاپے کی آس اُمید کے ساتھ گریجویٹی اور لیواِن کیشمنٹ کا منتظر ہوتا ہے۔ مگر جب حساب لگایا جاتا ہے تو سلیب کا ہتھیار اس کی جمع پونجی کو کاٹ ڈالتا ہے۔ مختلف سلیب لاگو کر کے اس کی گریجویٹی کم کر دی جاتی ہے اور بعض صورتوں میں لیواِن کیشمنٹ بالکل ختم ہو جاتی ہے۔
یہ منظر کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ ایک شخص جس نے 30سال تک محنت، مشقت اور قربانی سے اپنے ادارے کی خدمت کی ہو، اس کے بڑھاپے کا سہارا اس طرح چھین لیا جائے تو یہ سراسر ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ ریٹائرڈ ملازم کے خواب بکھر جاتے ہیں، اس کی آنکھوں میں مایوسی اُتر آتی ہے اور وہ خود کو ریاست کے رحم و کرم پر تنہا پاتا ہے۔
یہاں اصل سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آخر ایک ہی اصول دو جگہ دو مختلف شکلیں کیوں اختیار کرتا ہے؟ بجلی کے بل میں سلیب عوام پر بھاری بوجھ ڈال دیتا ہے اور پنشن کے نظام میں یہی سلیب ملازمین کے حقوق نگل لیتا ہے۔ کہیں رعایت ختم کر کے پورا بل مہنگا کر دیا جاتا ہے اور کہیں محنت کی کمائی کو نصف یا ایک تہائی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں پالیسیاں انصاف کے بجائے مفادات کے تابع ہیں۔

پالیسی ساز ادارے، وزارتِ خزانہ اور بجلی کی ریگولیٹری اتھارٹیز سب کچھ جانتے ہیں۔ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ نظام کتنا غیرمنصفانہ ہے۔ لیکن ان کی خاموشی معنی خیز ہے۔ کیونکہ ان کے لیے تو کبھی سلیب کا اطلاق ہوتا ہی نہیں۔ وزراء اور مشیروں کی مراعات میں اضافہ کیا جاتا ہے، اراکین اسمبلی کی تنخواہیں کئی گنا بڑھائی جاتی ہیں، مگر عام ملازم اور عوام پر سلیب کی تلوار چلائی جاتی ہے۔
میڈیا بھی اس مسئلے کو نظرانداز کرتا ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر دن رات سیاسی دنگل دکھائے جاتے ہیں، مگر کوئی اینکر یہ سوال نہیں اُٹھاتا کہ ایک یونٹ کے فرق پر پورے بل کی رعایت کیوں ختم کر دی جاتی ہے؟ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ریٹائرڈ ملازمین کی لیواِن کیشمنٹ کیوں کاٹ دی جاتی ہے؟ عوام کو جان بوجھ کر ان حقیقی مسائل سے غافل رکھا جا رہا ہے تاکہ ان کا دھیان صرف وقتی شور شرابے میں الجھا رہے۔
یہ نظام اکثریت کے گلے پر ہاتھ رکھ کر اقلیت کی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ پاکستان کی آبادی کی اکثریت یا تو عام عوام ہیں یا نچلے گریڈ کے سرکاری ملازمین۔ لیکن پالیسی سازی میں ان کا ذکر صرف بوجھ کے طور پر ہوتا ہے، حق دار کے طور پر نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بجلی کے بل عوام کے لیے عذاب بن گئے ہیں اور پنشن کی کٹوتیاں ملازمین کے بڑھاپے کو بے سہارا کر دیتی ہیں۔
چند عملی مثالیں اس تضاد کو ننگا کر دیتی ہیں۔ ایک اسکول ٹیچر کا بل اگر 201 یونٹ ہو جائے تو اسے پچھلے مہینے کے مقابلے میں 5 ہزار سے زائد ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سرکاری ملازم جس کی گریجوٹی پنشن 10لاکھ روپے بنتی تھی، سلیب کے نفاذ کے بعد اسے صرف 6 لاکھ دیے گئے۔ یہ مثالیں محض کہانیاں نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہیں جو روزانہ ہزاروں خاندانوں کو متاثر کر رہی ہیں۔

ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کا ریاست پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ لوگ ٹیکس دینے سے کترانے لگتے ہیں، بجلی کے بل چکانے کے بجائے کنڈے ڈالنے لگتے ہیں، اور سسٹم سے بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ یہ ریاست کے لیے انتہائی خطرناک صورتحال ہے کیونکہ جب شہریوں کا اعتماد اُٹھ جائے تو نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔
مزید برآں جب تنخواہیں اور پنشنز کم ہوتی ہیں اور مہنگائی کا بوجھ بڑھتا ہے تو لوگ کرپشن کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں۔ نچلے درجے کے ملازمین رشوت لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ گھر کا خرچ پورا کر سکیں۔ یوں سلیب سسٹم صرف ناانصافی ہی نہیں بلکہ کرپشن کا براہِ راست محرک بھی بن جاتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ان تضادات کو ختم کیا جائے۔ بجلی کے بلوں میں ایک منصفانہ نظام رائج کیا جانا چاہیے۔ اگر 200 یونٹ تک رعایت دی جاتی ہے تو 201 یونٹ پر پورا بل مہنگا کرنے کے بجائے صرف وہی ایک یونٹ مہنگا ہونا چاہیے۔ اس سے عوام پر بلاجواز بوجھ نہیں پڑے گا اور انصاف کا تقاضا بھی پورا ہوگا۔
اسی طرح ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن گریجویٹی اور لیوان کیشمنٹ پر سلیب کا جبر ختم ہونا چاہیے۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے جو انہوں نے اپنی محنت کے ذریعے کمایا ہے۔ اس حق پر کسی قسم کی کٹوتی یا تضاد کسی مہذب معاشرے میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔

پارلیمنٹ کو فوری طور پر قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ بجلی کے سلیب اور پنشن کے سلیب کا خاتمہ کر کے ایک شفاف، منصفانہ اور یکساں نظام رائج کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ناانصافیاں مستقبل میں بغاوت اور سماجی انتشار کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا۔ وہاں بجلی کے نرخ یکساں اور شفاف ہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کو بڑھاپے میں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اگر یہی طرزِ عمل اپنایا جائے تو نہ صرف عوامی اعتماد بحال ہوگا بلکہ معیشت کو بھی استحکام ملے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام اور سرکاری ملازمین اتنے اندھے بہرے بنا دیے گئے ہیں کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش رہیں گے؟ یا وہ متحد ہو کر اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر باشعور شہری کے ذہن میں گونج رہا ہے۔
سلیب کا یہ کھیل عوام اور ملازمین دونوں کے ساتھ کھلی ناانصافی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس تضاد کو توڑ دیا جائے۔ بجلی کے بلوں سے لے کر پنشن کی کٹوتی تک، ہر جگہ انصاف قائم کیا جائے۔ کیونکہ جب اکثریت کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں تو ریاستیں اپنی منزل کھو دیتی ہیں۔

رانا محمد اقرار گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ریٹائرڈ ملازمین ریٹائرڈ ملازم سرکاری ملازم بجلی کے بلوں ملازمین کی دی جاتی ہے بجلی کے بل کے بجائے ایک یونٹ جاتے ہیں اور پنشن جائے تو ہیں اور جاتا ہے ہوتا ہے سلیب کا ہے کہ ا رہا ہے بھی اس ہے اور

پڑھیں:

اداریہ کیسے لکھیں

اداریہ کے لفظی معنی مدیرکی تحریر کے ہیں، یعنی مدیر کی جانب سے خبروں کی وضاحت اور اہم امور کے بارے میں اپنی رائے لکھنے کا عمل اداریہ نویسی کہلاتا ہے۔ فن صحافت میں اسے خصوصی اہمیت حاصل ہے، یہ ایک مشکل فن ہے، جس میں لکھنے والا اپنا مافی الضمیر کم ازکم الفاظ میں پوری وضاحت کے ساتھ انتہائی مدلل انداز میں بیان کرتا ہے۔

اداریہ ایک مختصر تحریر ہوتی ہے جو بنیادی طور پرکسی واقع یا خبر پر اخبار کی رائے کو ظاہر کرتی ہے، اس لیے اسے اخباری ادارے کی اجتماعی رائے بھی تصور کیا جاتا ہے۔

اداریہ عمومی طور پر ہنگامی بنیادوں پر لکھا جاتا ہے جس کا مقصد نہ صرف عوام کی آواز کو حکام بالا تک پہنچانا ہے بلکہ عوام کی رہنمائی بھی کرنا ہے اس میں حالات حاضرہ کی تشریح اور اس کا تجزیہ اسی طرح کیا جاتا ہے کہ قارئین کو مسئلے کے مختلف پہلو سمجھائے جاسکیں تاکہ رائے عامہ کی تشکیل ہو سکے۔

اداریہ نویس کے لیے ضروری ہے کہ اسے زبان اور بیان پر عبور حاصل ہو۔ اسی صورت میں ہی وہ اپنے موقف، خیالات، افکار کو قارئین کے سامنے موثر طور پر پیش کر سکے گا اور بہتر انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرسکے گا۔

یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اداریہ نویس وسیع مطالعہ اور قوت مشاہدہ کا مالک ہو، وسیع مطالعہ کے سبب اداریہ نویس کے پاس وسیع ذخیرہ الفاظ جمع ہو جاتے ہیں جو اس کے لکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ قوت مشاہدہ جتنی زیادہ ہوگی، تحریر اتنی ہی حقیقی اور جاندار ہوگی۔

اداریہ نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ غور و فکر کی صلاحیت کے ساتھ تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کا بھی مالک ہو۔

وہ غور و فکر سے کام لے کر حقائق کی تہہ تک پہنچنے اور مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ اداریہ نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ منطقی ذہن کا مالک ہو۔ اسی صورت میں وہ اپنی تحریر کو منطقی انداز میں پیش کر سکتا ہے۔

 اداریہ نویس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو مختلف علوم و فنون سے واقفیت حاصل ہو۔ ایک فرد کے لیے تمام علوم اور فنون پر عبور حاصل کرنا ممکن نہیں، لیکن ایک اچھے اداریہ نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام علوم و فنون کے مبادیات اور نظریات اور ان کی اصطلاحات کا کچھ نہ کچھ علم ضرور رکھتا ہو۔

اداریہ نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاملہ فہم، دور اندیش اور متوازن شخصیت کا مالک ہو۔ متوازن شخصیت سے مراد ایسی شخصیت ہو جو جذبات کے بجائے سائنسی نقطہ نظر رکھتا ہو۔ اداریہ لکھتے وقت صحافتی اصولوں سے واقفیت کے ساتھ ساتھ معاشرتی حالات اور قومی تقاضوں کا احساس ہونا بھی ضروری ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اداریہ کیسے لکھیں؟ اس میں سب سے پہلے موضوع کا انتخاب کیا جاتا ہے، اس میں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ عوامی مفاد عامہ کے تحت یا قومی نقطہ نظر سے کون سا مسئلہ اہم ہے۔ اداریہ نویس ان موضوعات کو اپنا موضوع بنائے جو اجتماعی حوالے سے اہم ہوں۔

اداریہ لکھتے وقت جس موضوع پر قلم اٹھانا مقصود ہو، اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرکے اس کے بعد حتمی رائے قائم کرے۔

یعنی اس حوالے سے ذہن بالکل واضح ہو، پھر قلم اٹھائے۔ اس کے بعد عنوان کا مرحلہ آتا ہے، عنوان کی اپنی جگہ بڑی اہمیت ہے، اداریے میں عنوان کی وہی حیثیت ہے جو خبر میں سرخی کی ہوتی ہے، جس طرح ہم خبر کی سرخی کے چند الفاظ میں پوری خبر کا خلاصہ بیان کر دیتے ہیں، اسی طرح اداریہ کے عنوان کو بھی اس کی روح کا مظہر ہونا چاہیے۔

اداریے کے عنوان کے تعین کے بعد اداریہ کے پہلے حصے میں موضوع یا مسئلہ بیان کیا جاتا ہے، دوسرے حصے میں اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے، تیسرے حصے میں اس کا حل پیش کیا جاتا ہے، یعنی جو بھی خبر یا واقع کو موضوع بنایا گیا ہو اس کو مختصراً بیان کرکے اس کے اہم پہلوؤں کی تشریح کی جانی چاہیے، پھر ان کا تجزیہ کر کے ٹھوس دلائل کی روشنی میں کوئی رائے قائم کرکے کم از کم الفاظ میں اپنا نقطہ نظر موثرانداز میں قارئین کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔

تحریرگہری اور بامقصد ہو اس کا کوئی جملہ، کوئی پیراگراف تحریر کے مرکزی خیال سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔ صداقت اور سچائی کے ساتھ غیر جانبدارانہ رویہ بھی اداریہ نویس کی بنیادی طرح ہے خوف اور بزدلی کے زیر اثر ہوکر لکھے جانے والا اداریہ کمزور اور بے اثر ہوتا ہے، اس لیے جو کچھ بھی تحریرکیا جائے سچائی اور صداقت کے ساتھ پیش کیا جائے، سچائی کے ساتھ لکھے جانے والے اداریے نہ صرف دلکش ہوتے ہیں بلکہ پراثر بھی۔ اس لیے اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

ہمارے یہاں سیاسی نظام میں تسلسل جاری نہ رہنے کے سبب عوام بالخصوص سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنان کی سیاسی تربیت نہ ہو سکی، ان میں جذبات کا عنصر زیادہ غالب ہے، اس لیے اداریہ نویس کو سیاسی بالخصوص مذہبی معاملات پر لکھتے وقت احتیاط کی زبان اختیار کرنی چاہیے تاکہ اداریہ ان کی فکری رہنمائی اور تربیت کا ذریعہ بنے۔

 اداریہ میں کوئی جملہ یا پیراگراف ملک میں رائج قوانین، ہمارے سماجی اور مذہبی اقدار کے منافی نہ ہو، ورنہ اداریہ نویس کسی قانونی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔

یہ وہ فنی امور ہیں جن کو سامنے رکھ کر ایک اچھا اداریہ لکھا جاسکتا ہے۔ بعض پڑھے لکھے حضرات مضمون، کالم اور اداریہ کو ایک ہی معنی میں لیتے ہیں جو کہ علمی حوالے سے غلط ہے۔

کالم کے لفظی معنی کلام کے ہیں اصطلاح میں ایسی تحریر کو کہتے ہیں جس میں کسی ایشوزکو مشاہدات اور احساسات کے تناظر میں دلائل کے ساتھ نئے زاویے سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ یہ سنجیدہ بھی ہو سکتا ہے اور طنز و مزاح پر مبنی بھی، کالم کوئی بھی شخص جو تحریر نگاری پر عبور رکھتا ہے لکھ سکتا ہے، اس کا صحافی ہونا ضروری نہیں۔

مضمون کے لفظی معنی کسی بات کو عام الفاظ میں پیش کرنے کے ہیں، اصطلاح میں کسی شخصیت یا کسی چیز کے حوالے سے معلومات کو منظم شکل دینے کا نام ہے جس کا مقصد پڑھنے والوں کو معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے۔

اداریہ ایک ایسی تحریر ہے جسے اخبار یا رسالے کے عملے کے تجربہ کار کارکن یا ناشر کی جانب سے تحریرکیا جاتا ہے یہ عمومی طور پر کسی ہنگامی موضوع پر لکھا جاتا ہے جس کا مقصد پڑھنے والوں کو رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ اداریہ کسی دور کے سیاسی، سماجی مزاج کی اہم دستاویزی شہادت ہوتے ہیں، فن صحافت میں اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہوائے نفس اور اس کے خطرات
  • نیشنل کانفرنس کشمیری عوام کو دھوکہ دے رہی ہے، محبوبہ مفتی
  • بجلی کے بلوں کی ادائیگی؛ صارفین کو بڑا ریلیف مل گیا
  • اداریہ کیسے لکھیں
  • محکمہ تعلیم کااحسن اقدام، ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی ملازمین کو پنشن آرڈر جاری
  • بھاری بلوں سے پریشان صارفین کے لئے بڑی خوشخبری
  • ای چالان یا لوٹ کا نیا طریقہ؟
  • 27ویں آئینی ترمیم، پیپلز پارٹی نے این ایف سی شیئر میں کٹوتی مسترد کردی، آرٹیکل 243 میں ترامیم کی مشروط حمایت
  • سرکاری افسران اور ملازمین کی رخصت کا نظام ڈیجیٹل کر دیا گیا