یونیورسٹی آف ڈھاکہ کے شعبہ اردو نے آج نواب علی چوہدری سینیٹ بھابن آڈیٹوریم میں ’قومی بیداری میں اقبال اور نذر الاسلام کے کردار‘ کے موضوع پر چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز ہوا۔

یہ 2 روزہ کانفرنس علما اور محققین کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے تاکہ وہ علامہ محمد اقبال اور قاضی نذر الاسلام کے قومی شعور اور علمی بیداری میں اثرات پر تفصیلی گفتگو کر سکیں۔

افتتاحی سیشن اور اہم مقررین

افتتاحی سیشن میں یونیورسٹی آف ڈھاکہ کے وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد خان بطور مہمانِ خصوصی شریک ہوئے۔ دیگر نمایاں مقررین میں شعبہ اردو کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر غلام مولا اور جامعہ جواہر لال نہرو، نئی دہلی سے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرم الدین شامل تھے، جنہوں نے علمی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

موضوعات اور مباحثے

یہ کانفرنس بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھارٹ (BIIT) کے تعاون سے منعقد کی گئی ہے۔ مقررین نے بتایا کہ اقبال اور نذر الاسلام نے اپنی شاعری اور فلسفے کے ذریعے آزادی، انصاف اور روحانی بیداری کی تحریک دی۔

ان عظم شعرا کے نظریات آج بھی قومی شناخت اور علمی روایات کو تشکیل دینے میں کس حد تک مؤثر ہیں۔

یہ کانفرنس ایک اہم علمی پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہی ہے جہاں مختلف ثقافتوں کے ماہرین اور محققین اپنے خیالات کا تبادلہ کر کے جنوب ایشیا کے 2 ممتاز شعرا اور مفکرین کی میراث کو نئے سرے سے سمجھنے کا موقع حاصل کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: نذر الاسلام اقبال اور

پڑھیں:

علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ

اسلام ٹائمز: درحقیقت یہ اقبالؒ کی معنوی عظمت اور روحانی تاثیر ہی ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود انکی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ ہر گزرتے دن کیساتھ ان پر تحقیق و تحریر کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے اور نت نئے پہلو اجاگر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ اقبالؒ کا فیضان ایک ہدیۂ الہیٰ ہے، جو ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم علامہ اقبالؒ کے افکار کو انکے آفاقی، الہیٰ اور معنوی پہلوؤں سے سمجھیں اور انکے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنے وجود کو جلا بخشیں۔ انکی شاعری کا ہر شعر ہمیں بیداری، عزتِ نفس، خود اعتمادی اور خدا سے تعلق کا سبق دیتا ہے۔ یقیناً یہ عشق و مستی کا سلسلہ رکنے والا نہیں، بلکہ یہ فیضانِ اقبال، دراصل فیضانِ الہیٰ ہے، جو تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ تحریر: محمد حسین بھشتی

علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کی تاریخ، فکر اور ادب کا وہ تابناک ستارہ ہیں، جس کی روشنی صدیوں تک نسلِ انسانی کو رہنمائی فراہم کرتی رہے گی۔ اقبالؒ صرف ایک شاعر یا مفکر نہیں بلکہ ایک مصلح، ایک مجاہدِ فکر، ایک روحانی رہنماء اور ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت ہیں، جنہوں نے امتِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ علامہ اقبال کی شخصیت پر مختلف زاویوں سے ہزاروں اہلِ علم و فکر نے تجزیات و تحلیلات پیش کی ہیں۔ ان کے افکار و نظریات سے مزین مضامین اور مقالات نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی تحریر کیے گئے ہیں، جو بلاشبہ ہمارے فکری ورثے کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ میری رائے میں حضرت علامہ اقبال سے متعلق جو علمی و فکری کام انجام پا رہے ہیں، وہ اکثر و بیشتر سرکاری سرپرستی سے ہٹ کر خالص محبت، عقیدت اور اقبال سے روحانی وابستگی کے جذبے کے تحت ہو رہے ہیں۔

یہ عشق و تعلق کا وہ سلسلہ ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید پھیلتا اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں اگر اقبال سے وابستہ اداروں پر ایک جامع آمار (سروے) کیا جائے تو یقیناً یہ نہ صرف ایک تحقیقی ضرورت ہوگی بلکہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔ تاہم ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض افراد، جو اقبال کی فکری و روحانی گہرائی سے ناواقف ہیں، ان کی شخصیت کو محدود یا مشکوک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے یہی کہنا کافی ہے کہ اگر وہ اقبال کو ظاہری شہرت سے ہٹ کر روحانی و معنوی زاویے سے دیکھیں تو ان کی سوچ بدل سکتی ہے۔ اقبال کی ذات محض ایک شاعر کی نہیں بلکہ ایک فکرِ قرآنی کے ترجمان، ایک مردِ مومن کے مظہر، اور ایک ملتِ اسلامیہ کے ترجیحی فکری رہنماء کی حیثیت رکھتی ہے۔

اقبالؒ کی زندگی خلوص، عرفانِ ذات اور عشقِ رسولﷺ سے معمور تھی۔ یہی خلوص اور سوز و گداز ان کی شاعری میں جھلکتا ہے اور اسی کے باعث ان کا پیغام دلوں میں اتر جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک طرف عشق و مستی کی سرمستی ہے تو دوسری طرف عمل، حوصلے اور خودی کا پیغام۔ اقبالؒ کے نزدیک مسلمان کا اصل سرمایہ ایمان، خودی، اور عشقِ الہیٰ ہے۔ آج جب ہم اقبالؒ کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں ان کی تعلیمات کو صرف ادبی یا فکری سطح پر نہیں بلکہ عملی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا پیغام صرف ماضی کا حصہ نہیں بلکہ مستقبل کا منشور ہے۔ اگر ہم ان کے افکار کو اپنی اجتماعی زندگی کا حصہ بنائیں تو امتِ مسلمہ دوبارہ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرسکتی ہے۔

درحقیقت یہ اقبالؒ کی معنوی عظمت اور روحانی تاثیر ہی ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان پر تحقیق و تحریر کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے اور نت نئے پہلو اجاگر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ اقبالؒ کا فیضان ایک ہدیۂ الہیٰ ہے، جو ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم علامہ اقبالؒ کے افکار کو ان کے آفاقی، الہیٰ اور معنوی پہلوؤں سے سمجھیں اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنے وجود کو جلا بخشیں۔ ان کی شاعری کا ہر شعر ہمیں بیداری، عزتِ نفس، خود اعتمادی اور خدا سے تعلق کا سبق دیتا ہے۔ یقیناً یہ عشق و مستی کا سلسلہ رکنے والا نہیں، بلکہ یہ فیضانِ اقبال، دراصل فیضانِ الہیٰ ہے، جو تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ بقولِ خود علامہ اقبالؒ: یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کا شاعرِ مشرق علامہ اقبال کو شاندار خراجِ عقیدت
  • اقبال کے مذہب پر علامہ عبدالعلی الہروی کی علمیت کا اثر
  • یوم اقبال اور ہم
  • علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ
  • شاعر مشرق کا فکر و فلسفہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے بیداری،خودی اور روحانی احیا کا سر چشمہ ہے، حسن محی الدین
  • آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی بین الاقوامی صدیقہ شہیدہ کانفرنس میں خطاب کرینگے، بقیۃ اللہ اسلامک انسٹی ٹیوٹ
  • میرپور خاص: چانسلر ابن سینا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سید رضی محمد ودیگر مقررین منعقدہ سمپوزیم سے خطاب کررہے ہیں
  • جدید طبی تحقیق پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، پروفیسر ڈاکٹر سید رضی محمد
  • ڈاکٹر ظفر اقبال بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کیلیے ڈھاکا روانہ