ڈیم، ڈیم، ڈیماکریسی ( حصہ دوم)
اشاعت کی تاریخ: 4th, November 2025 GMT
یہ تو تاریخ سے صاف صاف ثابت ہے کہ دور چاہے کوئی بھی رہا ہے، ملک کی بھی کوئی تخصیص نہیں، قوم ونسل تک بھی نہیں، جہاں جہاں جب بھی کوئی ’’حکومت‘‘ ہوتی ہے وہ اس محدود اشرافیہ میں سے ہوتی ہے، اس خطے میں پہلی بار ’’آریا‘‘کے نام سے جو خانہ بدوش آئے وہ بھی اقلیت میں تھے، اس کے بعد ایرانی، عرب، ترک، مغل جو بھی آئے اقلیت میں تھے، انگریز بھی اقلیت تھے اوراب جو حاکم اشرافیہ ہے، وہ بھی اقلیت میں ہوتی ہے۔
اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ سامنے دو اور دو چار جیسی بات ہے کہ اس میں اگر چار امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹ بھی چار ہزار ہوں تو ان میں اگر کوئی ایک ہزار ایک ووٹ لے تو کامیاب ہوتا ہے جب کہ ایک کم تین ہزار ووٹ اس کے مخالف پڑے ہوتے ہیں وہ سب گئے باڑ میں، اور ایک ہزار ایک آئے اقتدار میں۔ یہ اقلیت کی حکومت ہوتی یا نہیں۔ آج تک جتنے بھی انتخابات ہوتے رہے ہیں اور حکومت کرتے رہے ہیں، ان میں بہت کم حکومتوں کے کل ووٹوں میں پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیے ہوں گے لیکن یہ وہی ایک ووٹ کی برتری کی حکومت اقلیت ہی کی حکومت ہوتی ہے، یہ جو ہمارے جدید تر بانی کے ’’طوطے‘‘ آئے ہیں اور مینڈیٹ، مین ڈیٹ کر رہے ہیں۔
ان میں کسی نے بھی کسی پچاسی فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیے ہیں اور وہی سلسلہ چل رہا ہے کہ مخالف ووٹ تقسیم ہوئے اور بانی کی بے وقت ’’شہادت‘‘ بھی کام آئی، اگر اسے بے وقت شہید نہیں کیا گیا ہوتا اور وہ اپنی ٹرم پورا کرتا تو الیکشن میں لوگ اس پر تھو تھو کرتے کیوں کہ اس نے اوراس کی حکومت نے اور اس کی پارٹی نے اس ملک کا بیڑہ غرق کر دیا تھا۔
خیر اندر کی گہری باتوں میں الجھے بغیر یہ بات تو صاف ہوگئی کہ اس ملک میں ہمیشہ اقلیت ہی حکومت کرتی رہی ہے، ایک بار سوئے اتفاق سے اکثریت چونکہ ناپسندیدہ تھی اس لیے ملک ہی کو توڑ کر اقلیت کو حکومت دی گئی۔ یہ اقلیت کا اکثریت پر حکومت کرنے، اس کی کمائی کھانے اور غلام بنانے کا سلسلہ بہت پرانا ہے، یہ اس وقت سے ہے کہ جب کسی نامعلوم زمانے میں، کسی نامعلوم مقام پر اور کسی نامعلوم طریقے پر ’’ہم‘‘ اور ’’میں‘‘ یا جن وانس یا آدم وابلیس کا وہ واقعہ ہوا تھا جس میں ابلیس نے ’’میں‘‘ کا برتری کا دعویٰ کیا اور اس زمانے سے لے کرآج تک یہ دونوں یعنی ’’میں‘‘ اور ’’ہم‘‘ دونوں ایک دوسرے کے مقابل چلے آرہے ہیں، ان کاپورا ’’شجرہ‘‘ کچھ یوں ہے ۔
گوشت خور… سبزی خور
جن… انس
شکاری… زرعی
جانورپال… کاشت کار
صحرائی… مدنی
خانہ بدوش… بستی والا
ڈاکو… لٹنے والا
محافظ… آدمیہ
حکمران… محکوم
اشراف… عوام
بہت کچھ بدلا، نام بدلے، مقام بدلے، ہتھیار بدلے، طریقے بدلے، عقیدے بدلے، نظرئیے بدلے لیکن طبقے وہ ہیں جن میں سے ایک کے سر ے پر خاکی آدم اور دوسرے سرے پر ناری ابلیس کھڑا ہے۔ ناری اور خاکی کے آپ کچھ بھی معنی نکالیں لیکن ایک معنی یہ ہیں اور یہی معنی ثابت شدہ بھی ہیں کہ گوشت خور شکاری کو جب پتھرکا ہتھیار تراشتے ہوئے ’’آگ‘‘ جیسی انقلابی قوت ملی تو اس وقت آج کی ’’ایٹمی قوت‘‘ تھی اور اس پر برتری کا دعویٰ بھی ویسا ہی تھا جیسے آج کے ایٹمی ممالک کو ہے، اس کے مقابل سبزی خوروں کے پاس کچھ بھی نہ تھا چنانچہ گوشت خور ناریوں نے غلہ خور خاکیوں کو کوہستانی باغوں سے نکالنا شروع کیا، وہ کیا کرتے؟ کہ نہ ان کے پاس کوئی ہتھیار تھا، نہ جارح مزاج تھے، نہ لڑائی کی خوبو رکھتے تھے۔
اس لیے وہی کیا جو کمزور لوگ کرتے ہیں، ہجرت کر کے نیچے کے میدانی علاقوں میں زراعت کار یا دوسرے معنی میں خاکی زمین زادے بنے، ان کی محنت رنگ لائی اور زمین سے رزق نکال کر خوشحال ہوگئے، پیچھے سے ظالم سنگدل اور مسلح ناری بھی اتر آئے جو اب جانور پال صحرائی اور خانہ بدوش بن چکے تھے۔ پھر ایک طویل زمانہ یوں گزرا کہ یہ وحشی خانہ بدوش صحرائی، زرعی اور مدنی لیکن غیرمسلح اور امن پسند کو لوٹ لیتے تھے، مقابلے میں خاکیوں کے پاس نہ ہتھیار تھے، نہ جنگ جویانہ مزاج رکھتے تھے، زیادہ سے زیادہ دیواریں بنا سکتے تھے۔ یہ طویل زمانہ گزرا تو ذہنی ارتقاء بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا چنانچہ لٹیرے نے سوچا لوٹ کر واپس جانے کی کیا ضرورت ہے، ہتھیار لے کر ان کے سر پر کیوں نہ بیٹھا جائے چنانچہ اس نے اپنا نام بدل کر لٹیرے سے ’’محافظ‘‘ رکھ لیا اور گائے کو کھوہ کر کھانے کی بچائے چوہ کر کھانے لگا، یہی آج کی اشرافیہ ہے، حیرت انگیز طور پر اب بھی آتشی اور ناری پتھر تراشتے وقت جو آگ اسے ملی تھی وہ ہمیشہ اس کا ہتھیار رہی ہے۔
پتھر کے زمانے کے بعد، دھاتوں کے ہتھیار بھی آگ کی مدد سے تیار ہوتے تھے پھر ’’لغت‘‘ بھی آگ تھی، بارودی ہتھیار بھی آگ تھے اور آج کے ایٹمی ہتھیار بھی آگ ہیں اور یہ ہمیشہ اشرافیہ کے قبضے میں رہتی ہے، اصل حکومت اب بھی آتشیں ہتھیاروں کے زور پر کی جاتی ہے، یہ جمہوریت، آئین، قانون وغیرہ صرف باتیں ہیں۔ یوں کہیے کہ ’’رادھا‘‘ آج بھی ان کے آنگن میں نچائی جاتی ہے جن کے پاس نومن تیل ہوتا ہے اور یہ تیل پچاسی فیصد کنوؤں سے یا کولہوؤں سے نکالا گیا ہوتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی حکومت ہوتی ہے رہے ہیں ہیں اور بھی ا گ کے پاس
پڑھیں:
اسموگ فری پنجاب: ’ایک حکومت، ایک وژن، ایک مشن، صاف فضا‘
وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز کی قیادت میں پنجاب حکومت نے صوبے کو اسموگ فری بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات تیز کر دیے۔
بھارتی سرحدی علاقوں سے آنے والی آلودہ مشرقی ہواؤں کے باوجود لاہور کا فضائی معیار قابو میں آنا شروع ہو گیا ہے۔ لاہور کا اوسط اے کیو آئی 280 ریکارڈ کیا گیا ہے۔
محکمہ ماحولیات کی مسلسل مانیٹرنگ اور انسدادِ اسموگ آپریشن جاری
محکمہ ماحولیات کے مطابق صبح کے وقت سرد موسم، کم ہوا کی رفتار (1 تا 4 کلومیٹر فی گھنٹہ) اور بارش نہ ہونے سے آلودگی کے بکھراؤ میں کمی ہوئی ہے، تاہم دوپہر 1 سے 5 بجے کے دوران ہواؤں کی رفتار بڑھنے سے فضائی معیار میں بہتری کا امکان ہے۔
پنجاب حکومت کے تمام متعلقہ ادارے وزیرِاعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر 3 شفٹوں میں انسداد اسموگ آپریشن میں مصروف ہیں، جن میں ٹریفک کنٹرول، پانی کے چھڑکاؤ اور انڈسٹری چیکنگ مہم شامل ہے۔
جدید مانیٹرنگ سسٹم اور ٹیکنالوجی کا استعمال
شہر کے مختلف علاقوں میں پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 کی سطح کی نگرانی کے لیے جدید اسٹیشن متحرک کر دیے گئے ہیں۔
محکمہ ماحولیات نے شہریوں کو غیر ضروری سفر سے گریز اور ماسک کے استعمال کی ہدایت کی ہے۔ حکام کے مطابق صورتحال قابو میں ہے اور کسی قسم کی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں۔
اینٹی اسموگ ایکشن پلان پر عملدرآمد کی رفتار مزید تیز
وزیرِاعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں پنجاب حکومت نے اسموگ فری اور ماحول دوست صوبہ بنانے کے لیے اینٹی سموگ ایکشن پلان پر عملدرآمد تیز کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اینٹی اسموگ گنز سے لاہور میں پانی کا بحران مزید گہرا ہونے کا خدشہ، ماہرین نے خبردار کردیا
پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ہر شعبے میں آلودگی کے خاتمے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔
فصل کی باقیات جلانے کی روک تھام
فصل کی باقیات جلانے کے بجائے 5 ہزار سپر سیڈرز، 814 کابوٹا مشینیں، ہارویسٹرز اور 91 بیلرز فراہم کیے گئے، جن سے اب تک 6 لاکھ سے زائد بیلز تیار ہو چکے ہیں۔ نگرانی کے لیے ’ہاک آئیز تھرمل ڈرونز‘ کا پہلی بار استعمال کیا جا رہا ہے۔
دھول، مٹی اور صنعتی آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات
تعمیراتی مقامات پر پانی کے چھڑکاؤ، مٹی کو ڈھانپنے اور دھول نہ اڑنے دینے کے اقدامات جاری ہیں۔گاڑیوں کی فٹنس کے تحت اب تک 3 لاکھ سرٹیفکیٹ جاری کیے جا چکے ہیں۔
صنعتوں کے دھوئیں کی پڑتال کے لیے سینسرز نصب کیے گئے ہیں اور بھٹوں کی زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقلی جاری ہے۔ 8500 صنعتی یونٹس کی اے آئی پر مبنی سینٹرل مانیٹرنگ ہو رہی ہے۔
پہلا ’ایمی شن ٹیسٹنگ سسٹم‘ متعارف
گاڑیوں سے دھوئیں کے اخراج پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی تاریخ کا پہلا ’ایمی شن ٹیسٹنگ سسٹم‘ متعارف کرایا گیا ہے، جب کہ صوبے بھر میں 371 مقامات پر ’مسٹ اسپرنکلر سسٹم‘ نصب کیے جا چکے ہیں۔ 8596 صنعتی یونٹس کی اے آئی اور ڈرونز سے نگرانی بھی جاری ہے۔
ڈیجیٹل فورکاسٹنگ کا نیا ماحولیاتی نظام
وزیرِاعلیٰ مریم نواز کے ’کلین اینڈ گرین پنجاب‘ وژن کے تحت پہلی بار پنجاب کا اپنا اے آئی بیسڈ ایئر کوالٹی فورکاسٹنگ سسٹم قائم کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت میں دیوالی کی آتش بازی کے باعث لاہور اور قصور میں شدید اسموگ، پنجاب حکومت متحرک
سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کے مطابق سموگ سے پاک پنجاب کا وژن عملی تعبیر پا رہا ہے، یہ مہم صحت مند طرزِ زندگی کی تبدیلی لانے کا ذریعہ بنے گی۔
مریم اورنگزیب کا بیان
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل فورکاسٹنگ، ماحولیاتی بہتری اور تحفظ کی طرف انقلابی قدم ہے، کلین اینڈ گرین پنجاب آنے والی نسلوں کو صاف ماحول دینے کی عملی پیش رفت ہے۔”
احتیاطی ہدایات برائے شہری
محکمہ ماحولیات نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ ماسک پہنیں، غیر ضروری سفر سے گریز کریں، بچے اور بزرگ گھر میں رہیں، اور موٹر سائیکل یا گاڑی کا استعمال کم کریں۔
پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ صاف، صحت مند اور محفوظ فضا کے لیے مشترکہ کوششیں جاری ہیں، اور وزیرِاعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں صوبہ آلودگی سے پاک، سرسبز و شاداب پنجاب کی جانب بڑھ رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسموگ اسموگ فری پنجاب پنجاب فصلوں کی باقیات مریم نواز