ڈاکٹر ظفر اقبال بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کیلیے ڈھاکا روانہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
معروف محقق اور اقبالیات کے ماہر ڈاکٹر ظفر اقبال دو روزہ بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کے لیے کراچی سے ڈھاکہ روانہ ہوگئے ہیں۔
یہ سیمینار 9 اور 10 نومبر کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں منعقد ہوگا، جس کا موضوع ہے: “قومی بیداری میں اقبال اور نذرالاسلام کا کردار”۔ اس علمی اجتماع میں مختلف ممالک سے محققین، ادیب اور دانشور شرکت کریں گے جو جنوبی ایشیا کی فکری و ادبی تحریکوں میں علامہ اقبال اور قاضی نذرالاسلام کے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔
ڈاکٹر ظفر اقبال اس سیمینار میں علامہ محمد اقبال کی فکر، فلسفہ اور جدید قومی شعور کی تشکیل میں ان کے کردار پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کریں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ظفر اقبال معروف سینئر صحافی نصراللہ چوہدری کے بھائی ہیں۔ ان کی شرکت کو نہ صرف پاکستان بلکہ اقبال شناسی کے عالمی تناظر میں بھی ایک اہم علمی شمولیت قرار دیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اقبال اور نذرالاسلام برصغیر کی فکری آزادی، خودی اور قومی شناخت کے دو روشن مینار ہیں، اور ان کی فکری وراثت آج بھی نوجوان نسل کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر ظفر اقبال
پڑھیں:
انقلاب اسلامی ایران نے کیسے دنیا کا فکری DNA ہی تبدیل کر دیا؟
اسلام ٹائمز: نتیجہ یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کی صورت میں نرم طاقت کے نیا جینیاتی ماڈل ظاہر ہونے کے بعد اب دنیا ہر طرح کی طاقت کی حیاتیات کو بدلتے دیکھ رہی ہے۔ تہران میں جس عمارت سے بیٹھ کر امریکہ اور اسرائیل آدھی دنیا پر حکومت کرتے تھے، وہ کئی دہائیوں سے ایک عجائب گھر بن چکی ہے اور کشمیر، فلسطین سے لیکر نیویارک تک کروڑوں لوگ میں انقلابی اور مزاحمتی بیداری کا DND راسخ ہو چکا ہے۔ اب اثر و نفوذ بندوق سے نہیں، بیانیے اور علم سے طے ہوتا ہے۔ جس قوم کے پاس فکری DNA مضبوط ہو، یعنی نظریہ، ثقافت، اخلاق اور مقصد ایک لڑی میں جڑے ہوں، وہ کسی بھی عسکری یا اقتصادی طاقت سے زیادہ پائیدار اثر رکھتی ہے۔ خصوصی رپورٹ:
طوفان الاقصیٰ اور غزہ جنگ بندی کے دروان دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ صیہونی قیدی نے فسطینی مزاحمت کے مجاہدین میں سے ایک مجاہد کے ماتھے کا بوسہ لیا، اور کیمروں کی موجودگی میں دنیا کو پیغام دیا کہ حماس اور مزاحمت انسانی اصولوں اور اقدار کے پاسدار ہیں۔ انقلاب، قیام اور جہاد کی تشدد زدہ تصویر دکھانے والوں نے اس وقت بھی یہی کوشش کی تھی جب انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد 4 نومبر کو ایرانی تعلیمی اداروں کے طلبہ نے امریکہ کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کی اور اس قبضے کے نتیجے میں دنیا پر واضح ہوا کہ امریکی استعمار سفارتی اور بین الاقوامی اصولوں کی آڑ میں جاسوسی کرتا اور کرواتا ہے، نام کے سفارت خانے دنیا کو محکوم رکھنے میں منفی کردار ادا کرتے ہیں۔
سفارت خانے اقوام کے درمیان میل جول اور روابط کو انسانی بنیادوں پر قائم کرنے اور بہتر بنانے کے کھولے جاتے ہیں، اسی لئے سفیروں اور سفارتی عملے کو خاص رعایتیں حاصل وہتی ہیں، لیکنن جب سفارت خانے کی بلڈنگ جاسوسی کا اڈا ثابت ہوئی تو ایرانی انقلابی نوجوانوں نے امریکی جاسوسوں کو یرغمال بنا لیا۔ اس دوران امریکی اسپانسرڈ میڈیا حرکت میں آیا اور انقلاب اسلامی کا چہرہ مسخ کرنیکی کوشش کی۔ سفارت خانے پر قبضے کے بعد، مغربی ذرائع ابلاغ نے وسیع پیمانے پر فضا سازی کرتے ہوئے یہ کوشش کی کہ ایران کے یرغمالیوں کے ساتھ سلوک کو غیر انسانی ظاہر کریں۔
ایسے حالات میں، آیتالله سید علی خامنه ای نے ایک مؤثر میڈیا حکمتِ عملی کے تحت یرغمالیوں کے پاس گئے اور انہیں موقع دیا کہ وہ خود اپنی حالت اور حقیقتِ حال بیان کریں۔ یہ اقدام مغربی نفسیاتی جنگ کے لیے ایک سخت اور غیر متوقع ضرب ثابت ہوا، یہ امریکہ کے تبلیغاتی دباؤ کے مقابلے میں ایک نہایت ہوشیار اور مدبرانہ جواب تھا۔ اس وقت اس اقدام کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی نے اس اقدام کو جوہری تبدیلی اور انقلاب دوم قرار دیتے ہوئے سراہا۔ نہ صرف ایرانی قوم بلکہ پوری دنیا میں اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ذیل میں اس تبدیلی کو عام اور معمولی تبدیلی سمجھنے کی بجائے نرم طاقت اور فکری DNA میں تبدیلی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے جائزہ لیا گیا ہے۔
طاقت کا بدلتا جینیاتی کوڈ:
گزشتہ صدیوں میں طاقت کی تعریف عسکری قوت، معیشت یا ریاستی اختیار سے جڑی تھی، مگر اکیسویں صدی میں طاقت کی ساخت بدل گئی ہے۔ اب طاقت وہ نہیں جو بندوق یا سرمایہ فراہم کرے، بلکہ وہ ہے جو سوچ، اخلاق اور احساس کو متاثر کرے۔ یہی نرم قوت (Soft Power) ہے۔ طاقت کی وہ خاموش، مگر گہری شکل جو تلوار سے نہیں، تصور سے اثر کرتی اور اذہان و افکار فتح کرتی ہے۔ جب کوئی نظریہ، ثقافت یا بیانیہ کسی قوم یا اقوام کے ذہن، زبان یا خوابوں میں رچ جائے، تو وہ فکری DNA کا حصہ بن جاتا ہے۔ یعنی وہ اندر سے سوچنے، ردعمل دینے اور فیصلے کرنے کے انداز بدل دیتا ہے۔
۱۔ نرم قوت (Soft Power) کا نظریاتی مفہوم:
جوزف نائے (Joseph Nye) نے 1990 کی دہائی میں Soft Power کی اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ اس کے مطابق “دوسروں کو اپنی پسند کے مطابق قائل کرنے کی وہ صلاحیت جو جبر یا خرید کے بغیر حاصل ہو۔” یہ طاقت جذبات، اخلاق، نظریہ اور ثقافت سے پیدا ہوتی ہے، یعنی وہ اثر جو انسان کے دل اور ضمیر پر حاوی ہو جائے۔ اس کی روشنی میں نرم قوت کے بنیادی عناصر میں پہلا فکر و نظریہ (Ideology) ہے، جس سے اقدار طے ہوتی ہیں۔ دوسرا ثقافت و تہذیب (Culture & Civilization) ہے، جو طرزِ زندگی میں جھلکتی ہے۔ تیسرا اخلاق و کردار (Moral Authority) ہے، جو اعتماد پیدا کرتا ہے۔ چوتھا علم و بیانیہ (Knowledge & Narrative) ہے، جو ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔
۲. فکری DNA:
نظریہ اور شعور کا حیاتیاتی استعارہ ہے۔ DNA دراصل حیاتیاتی جینیاتی ساخت کا استعارہ ہے، مگر فکری لحاظ سے یہ اس بنیادی سانچے کی علامت ہے، جس سے انسانی رویہ، ترجیحات اور اجتماعی شعور تشکیل پاتا ہے۔ جب کسی معاشرے میں ایک نظریہ نسل در نسل منتقل ہونے لگے، جب وہ تعلیم، میڈیا، عبادت اور سیاست کا حصہ بن جائے، تو وہ محض ایک خیال نہیں رہتا، بلکہ فکری جین (Intellectual Gene) بن جاتا ہے۔ نرم قوت کا اصل کمال یہی ہے کہ وہ معاشرے کے DNA میں سرایت کر جاتی ہے، اور لوگ اسے قوت نہیں، فطرت سمجھنے لگتے ہیں۔
۳. انقلابِ اسلامی ایران، نرم قوت کا جاندار نمونہ:
اسلامی ایران نے ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے بعد طاقت کے اس نئے اصول کو عملی شکل دی۔ اس نے بندوق سے زیادہ بیانیے، مذہبی شعور، اور اخلاقی خودمختاری پر انحصار کیا۔ فکری DNA کی تشکیل میں انقلاب اسلامی ایران بطور ماڈل سے مذہبی خودارادیت، ولایتِ فقیہ اور محرومین کی قیادت کیوجہ سے قیادت کا اخلاقی جواز محکم ہوا۔ ثقافتی خودمختاری پیدا ہوئی جس سے مغربی طرزِ زندگی کے مقابل اسلامی تمدن اور تہذیبی اعتماد میں اضافہ ہوا۔ استکبار دشمنی، ظلم کے خلاف فکری مزاحمت ایک عالمگیر اخلاقی رویہ بن چکا ہے۔ عاشورائی بیانیہ راسخ ہوا اور جس نے شہادت کو مزاحمت کی علامت بنا کر روحانی اور معنوی قوت عطا کی ہے۔ یہی فکری جینز بعد میں حزب اللہ، حماس، انصاراللہ اور دیگر تحریکوں میں منتقل ہوئے، یعنی انقلابِ اسلامی ایران نے نرم قوت کے فکری DNA کی وہ نسل پیدا کی جو عسکری طاقت سے زیادہ نظریاتی بصیرت پر قائم ہے۔
۴. یمن اور نرم قوت کی مزاحمت:
یمن کی انصاراللہ تحریک نے اسی نرم قوت کے DNA کو عرب دنیا کے جسم میں پیوند کیا۔ بیانیاتی سطح پر فلسطین سے عملی یکجہتی اور استکبار کے خلاف مزاحمت قومی نظریہ بن چکا ہے۔ ثقافتی سطح پر شہادت اور صبر کو قومی قوت کا مظہر جانا جاتا ہے۔ سیاسی سطح پر خودمختاری اور غیروں پر انحصاریت کا بیانیہ رد ہو چکا ہے۔ یہ تحریک عسکری لحاظ سے کمزور تھی، مگر فکری و اخلاقی لحاظ سے اس قدر طاقتور ہو گئی کہ پوری دنیا اصولی طور پر یمن کے کردار پر حرف زنی کی جرات نہیں کر سکتی۔ اور یہی نرم قوت کا سب سے گہرا مظہر ہے۔
۵۔ پاکستان اور فکری DNA کی منتقلی:
پاکستانی معاشرے میں بھی ایران کی نرم قوت آہستہ آہستہ ثقافتی اور فکری DNA کے طور پر جذب ہو رہی ہے، جیسے عزاداری کے سماجی تصور میں اب شہادت کو اجتماعی مزاحمت کی علامت کے طور پر قبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ استقلال و خودمختاری کا نعرہ اب لفظوں سے بڑھ کر قومی بیانیے کی صورت میں خود ارادیت کے نمو پذیر رجحان کی صورت میں اجاگر ہو چکا ہے۔ سامراج دشمن فہم اب حقیقی تصور بن کر عالمی طاقتوں پر فکری تنقید کی روایت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ فکری بیداری کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ نوجوانوں میں مقاومت بطور اخلاقی وقار کا نظریہ سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ تمام عناصر اس بات کا ثبوت ہیں کہ نرم قوت ایک فکری وراثت بن چکی ہے، جو سرحدوں کے پار منتقل ہو رہی ہے، بلکہ اب ایک نئے فکری تمدن (Neo-Islamic Intellectual Civilization) کی بنیاد بن رہی ہے۔
۶. نرم قوت کی نفسیاتی ساخت — عقل، احساس اور ایمان
عقلی (Rational) پر علم، ابلاغ اور استدلال کے پیمانے بدلے اور سچائی کی بنیاد پر معاشروں کی ذہن سازی ہوئی۔ احساساتی (Emotional) لحاظ سے شہادت طلبی، ظلم ستیزی و عدل کا بیانیہ پورے طور پر عوام کے دل و ضمیر پر اثرانداز ہوا۔ روحانی (Spiritual) اور معنوی سطح پر ایمان، صبر، اور توکل کی اقدار مضبوط ہوئیں جس سے عالم انسانیت کو باطنی طور پر ظلم کیخلاف استقامت کی قوت نصیب ہوئی۔ جب یہ تین سطحیں ہم آہنگ ہو جائیں، تو نرم قوت ایک روحانی فکری DNA بن جاتی ہے، جو جسموں پر نہیں، ضمیر پر حکومت کرتی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کی صورت میں نرم طاقت کے نیا جینیاتی ماڈل ظاہر ہونے کے بعد اب دنیا ہر طرح کی طاقت کی حیاتیات کو بدلتے دیکھ رہی ہے۔ تہران میں جس عمارت سے بیٹھ کر امریکہ اور اسرائیل آدھی دنیا پر حکومت کرتے تھے، وہ کئی دہائیوں سے ایک عجائب گھر بن چکی ہے اور کشمیر، فلسطین سے لیکر نیویارک تک کروڑوں لوگ میں انقلابی اور مزاحمتی بیداری کا DND راسخ ہو چکا ہے۔ اب اثر و نفوذ بندوق سے نہیں، بیانیے اور علم سے طے ہوتا ہے۔ جس قوم کے پاس فکری DNA مضبوط ہو، یعنی نظریہ، ثقافت، اخلاق اور مقصد ایک لڑی میں جڑے ہوں، وہ کسی بھی عسکری یا اقتصادی طاقت سے زیادہ پائیدار اثر رکھتی ہے۔
اسلامی انقلاب کے بانی، موجودہ رہبر، شہید مطہری جیسے فکری معماروں اور ڈاکٹر چمران شہید سے لیکر شہید قاسم سلیمانی تک شہدا نے اپنے خون اور خلوص سے ایسے نقوش چھوڑے ہیں کہ یہ افکار اور بیانیہ پوری دنیا میں تبدیلی کی علامت بن چکا ہے۔ اس کی مثال اور قابل تقلید نمونہ پیروان امام خمینی اور جانبازان امام خامنہ ای ہیں۔ طاقت اب جسموں کو نہیں، شعور کو فتح کرنے کا نام ہے، اور نرم قوت وہ کوڈ ہے جو اس شعور کے DNA میں لکھا جا چکا ہے۔ مغربی ممالک میں عوامی بیداری اور فلسطین سے یکجہتی کے عظیم الشان مظاہرے اور تازہ ترین مثال نیویارک میں صیہونی لابی کی شکست اس کے بین مظاہر ہیں۔