انقلاب اسلامی ایران نے کیسے دنیا کا فکری DNA ہی تبدیل کر دیا؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: نتیجہ یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کی صورت میں نرم طاقت کے نیا جینیاتی ماڈل ظاہر ہونے کے بعد اب دنیا ہر طرح کی طاقت کی حیاتیات کو بدلتے دیکھ رہی ہے۔ تہران میں جس عمارت سے بیٹھ کر امریکہ اور اسرائیل آدھی دنیا پر حکومت کرتے تھے، وہ کئی دہائیوں سے ایک عجائب گھر بن چکی ہے اور کشمیر، فلسطین سے لیکر نیویارک تک کروڑوں لوگ میں انقلابی اور مزاحمتی بیداری کا DND راسخ ہو چکا ہے۔ اب اثر و نفوذ بندوق سے نہیں، بیانیے اور علم سے طے ہوتا ہے۔ جس قوم کے پاس فکری DNA مضبوط ہو، یعنی نظریہ، ثقافت، اخلاق اور مقصد ایک لڑی میں جڑے ہوں، وہ کسی بھی عسکری یا اقتصادی طاقت سے زیادہ پائیدار اثر رکھتی ہے۔ خصوصی رپورٹ:
طوفان الاقصیٰ اور غزہ جنگ بندی کے دروان دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ صیہونی قیدی نے فسطینی مزاحمت کے مجاہدین میں سے ایک مجاہد کے ماتھے کا بوسہ لیا، اور کیمروں کی موجودگی میں دنیا کو پیغام دیا کہ حماس اور مزاحمت انسانی اصولوں اور اقدار کے پاسدار ہیں۔ انقلاب، قیام اور جہاد کی تشدد زدہ تصویر دکھانے والوں نے اس وقت بھی یہی کوشش کی تھی جب انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد 4 نومبر کو ایرانی تعلیمی اداروں کے طلبہ نے امریکہ کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کی اور اس قبضے کے نتیجے میں دنیا پر واضح ہوا کہ امریکی استعمار سفارتی اور بین الاقوامی اصولوں کی آڑ میں جاسوسی کرتا اور کرواتا ہے، نام کے سفارت خانے دنیا کو محکوم رکھنے میں منفی کردار ادا کرتے ہیں۔
سفارت خانے اقوام کے درمیان میل جول اور روابط کو انسانی بنیادوں پر قائم کرنے اور بہتر بنانے کے کھولے جاتے ہیں، اسی لئے سفیروں اور سفارتی عملے کو خاص رعایتیں حاصل وہتی ہیں، لیکنن جب سفارت خانے کی بلڈنگ جاسوسی کا اڈا ثابت ہوئی تو ایرانی انقلابی نوجوانوں نے امریکی جاسوسوں کو یرغمال بنا لیا۔ اس دوران امریکی اسپانسرڈ میڈیا حرکت میں آیا اور انقلاب اسلامی کا چہرہ مسخ کرنیکی کوشش کی۔ سفارت خانے پر قبضے کے بعد، مغربی ذرائع ابلاغ نے وسیع پیمانے پر فضا سازی کرتے ہوئے یہ کوشش کی کہ ایران کے یرغمالیوں کے ساتھ سلوک کو غیر انسانی ظاہر کریں۔
ایسے حالات میں، آیتالله سید علی خامنه ای نے ایک مؤثر میڈیا حکمتِ عملی کے تحت یرغمالیوں کے پاس گئے اور انہیں موقع دیا کہ وہ خود اپنی حالت اور حقیقتِ حال بیان کریں۔ یہ اقدام مغربی نفسیاتی جنگ کے لیے ایک سخت اور غیر متوقع ضرب ثابت ہوا، یہ امریکہ کے تبلیغاتی دباؤ کے مقابلے میں ایک نہایت ہوشیار اور مدبرانہ جواب تھا۔ اس وقت اس اقدام کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی نے اس اقدام کو جوہری تبدیلی اور انقلاب دوم قرار دیتے ہوئے سراہا۔ نہ صرف ایرانی قوم بلکہ پوری دنیا میں اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ذیل میں اس تبدیلی کو عام اور معمولی تبدیلی سمجھنے کی بجائے نرم طاقت اور فکری DNA میں تبدیلی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے جائزہ لیا گیا ہے۔
طاقت کا بدلتا جینیاتی کوڈ:
گزشتہ صدیوں میں طاقت کی تعریف عسکری قوت، معیشت یا ریاستی اختیار سے جڑی تھی، مگر اکیسویں صدی میں طاقت کی ساخت بدل گئی ہے۔ اب طاقت وہ نہیں جو بندوق یا سرمایہ فراہم کرے، بلکہ وہ ہے جو سوچ، اخلاق اور احساس کو متاثر کرے۔ یہی نرم قوت (Soft Power) ہے۔ طاقت کی وہ خاموش، مگر گہری شکل جو تلوار سے نہیں، تصور سے اثر کرتی اور اذہان و افکار فتح کرتی ہے۔ جب کوئی نظریہ، ثقافت یا بیانیہ کسی قوم یا اقوام کے ذہن، زبان یا خوابوں میں رچ جائے، تو وہ فکری DNA کا حصہ بن جاتا ہے۔ یعنی وہ اندر سے سوچنے، ردعمل دینے اور فیصلے کرنے کے انداز بدل دیتا ہے۔
۱۔ نرم قوت (Soft Power) کا نظریاتی مفہوم:
جوزف نائے (Joseph Nye) نے 1990 کی دہائی میں Soft Power کی اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ اس کے مطابق “دوسروں کو اپنی پسند کے مطابق قائل کرنے کی وہ صلاحیت جو جبر یا خرید کے بغیر حاصل ہو۔” یہ طاقت جذبات، اخلاق، نظریہ اور ثقافت سے پیدا ہوتی ہے، یعنی وہ اثر جو انسان کے دل اور ضمیر پر حاوی ہو جائے۔ اس کی روشنی میں نرم قوت کے بنیادی عناصر میں پہلا فکر و نظریہ (Ideology) ہے، جس سے اقدار طے ہوتی ہیں۔ دوسرا ثقافت و تہذیب (Culture & Civilization) ہے، جو طرزِ زندگی میں جھلکتی ہے۔ تیسرا اخلاق و کردار (Moral Authority) ہے، جو اعتماد پیدا کرتا ہے۔ چوتھا علم و بیانیہ (Knowledge & Narrative) ہے، جو ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔
۲.
نظریہ اور شعور کا حیاتیاتی استعارہ ہے۔ DNA دراصل حیاتیاتی جینیاتی ساخت کا استعارہ ہے، مگر فکری لحاظ سے یہ اس بنیادی سانچے کی علامت ہے، جس سے انسانی رویہ، ترجیحات اور اجتماعی شعور تشکیل پاتا ہے۔ جب کسی معاشرے میں ایک نظریہ نسل در نسل منتقل ہونے لگے، جب وہ تعلیم، میڈیا، عبادت اور سیاست کا حصہ بن جائے، تو وہ محض ایک خیال نہیں رہتا، بلکہ فکری جین (Intellectual Gene) بن جاتا ہے۔ نرم قوت کا اصل کمال یہی ہے کہ وہ معاشرے کے DNA میں سرایت کر جاتی ہے، اور لوگ اسے قوت نہیں، فطرت سمجھنے لگتے ہیں۔
۳. انقلابِ اسلامی ایران، نرم قوت کا جاندار نمونہ:
اسلامی ایران نے ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے بعد طاقت کے اس نئے اصول کو عملی شکل دی۔ اس نے بندوق سے زیادہ بیانیے، مذہبی شعور، اور اخلاقی خودمختاری پر انحصار کیا۔ فکری DNA کی تشکیل میں انقلاب اسلامی ایران بطور ماڈل سے مذہبی خودارادیت، ولایتِ فقیہ اور محرومین کی قیادت کیوجہ سے قیادت کا اخلاقی جواز محکم ہوا۔ ثقافتی خودمختاری پیدا ہوئی جس سے مغربی طرزِ زندگی کے مقابل اسلامی تمدن اور تہذیبی اعتماد میں اضافہ ہوا۔ استکبار دشمنی، ظلم کے خلاف فکری مزاحمت ایک عالمگیر اخلاقی رویہ بن چکا ہے۔ عاشورائی بیانیہ راسخ ہوا اور جس نے شہادت کو مزاحمت کی علامت بنا کر روحانی اور معنوی قوت عطا کی ہے۔ یہی فکری جینز بعد میں حزب اللہ، حماس، انصاراللہ اور دیگر تحریکوں میں منتقل ہوئے، یعنی انقلابِ اسلامی ایران نے نرم قوت کے فکری DNA کی وہ نسل پیدا کی جو عسکری طاقت سے زیادہ نظریاتی بصیرت پر قائم ہے۔
۴. یمن اور نرم قوت کی مزاحمت:
یمن کی انصاراللہ تحریک نے اسی نرم قوت کے DNA کو عرب دنیا کے جسم میں پیوند کیا۔ بیانیاتی سطح پر فلسطین سے عملی یکجہتی اور استکبار کے خلاف مزاحمت قومی نظریہ بن چکا ہے۔ ثقافتی سطح پر شہادت اور صبر کو قومی قوت کا مظہر جانا جاتا ہے۔ سیاسی سطح پر خودمختاری اور غیروں پر انحصاریت کا بیانیہ رد ہو چکا ہے۔ یہ تحریک عسکری لحاظ سے کمزور تھی، مگر فکری و اخلاقی لحاظ سے اس قدر طاقتور ہو گئی کہ پوری دنیا اصولی طور پر یمن کے کردار پر حرف زنی کی جرات نہیں کر سکتی۔ اور یہی نرم قوت کا سب سے گہرا مظہر ہے۔
۵۔ پاکستان اور فکری DNA کی منتقلی:
پاکستانی معاشرے میں بھی ایران کی نرم قوت آہستہ آہستہ ثقافتی اور فکری DNA کے طور پر جذب ہو رہی ہے، جیسے عزاداری کے سماجی تصور میں اب شہادت کو اجتماعی مزاحمت کی علامت کے طور پر قبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ استقلال و خودمختاری کا نعرہ اب لفظوں سے بڑھ کر قومی بیانیے کی صورت میں خود ارادیت کے نمو پذیر رجحان کی صورت میں اجاگر ہو چکا ہے۔ سامراج دشمن فہم اب حقیقی تصور بن کر عالمی طاقتوں پر فکری تنقید کی روایت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ فکری بیداری کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ نوجوانوں میں مقاومت بطور اخلاقی وقار کا نظریہ سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ تمام عناصر اس بات کا ثبوت ہیں کہ نرم قوت ایک فکری وراثت بن چکی ہے، جو سرحدوں کے پار منتقل ہو رہی ہے، بلکہ اب ایک نئے فکری تمدن (Neo-Islamic Intellectual Civilization) کی بنیاد بن رہی ہے۔
۶. نرم قوت کی نفسیاتی ساخت — عقل، احساس اور ایمان
عقلی (Rational) پر علم، ابلاغ اور استدلال کے پیمانے بدلے اور سچائی کی بنیاد پر معاشروں کی ذہن سازی ہوئی۔ احساساتی (Emotional) لحاظ سے شہادت طلبی، ظلم ستیزی و عدل کا بیانیہ پورے طور پر عوام کے دل و ضمیر پر اثرانداز ہوا۔ روحانی (Spiritual) اور معنوی سطح پر ایمان، صبر، اور توکل کی اقدار مضبوط ہوئیں جس سے عالم انسانیت کو باطنی طور پر ظلم کیخلاف استقامت کی قوت نصیب ہوئی۔ جب یہ تین سطحیں ہم آہنگ ہو جائیں، تو نرم قوت ایک روحانی فکری DNA بن جاتی ہے، جو جسموں پر نہیں، ضمیر پر حکومت کرتی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کی صورت میں نرم طاقت کے نیا جینیاتی ماڈل ظاہر ہونے کے بعد اب دنیا ہر طرح کی طاقت کی حیاتیات کو بدلتے دیکھ رہی ہے۔ تہران میں جس عمارت سے بیٹھ کر امریکہ اور اسرائیل آدھی دنیا پر حکومت کرتے تھے، وہ کئی دہائیوں سے ایک عجائب گھر بن چکی ہے اور کشمیر، فلسطین سے لیکر نیویارک تک کروڑوں لوگ میں انقلابی اور مزاحمتی بیداری کا DND راسخ ہو چکا ہے۔ اب اثر و نفوذ بندوق سے نہیں، بیانیے اور علم سے طے ہوتا ہے۔ جس قوم کے پاس فکری DNA مضبوط ہو، یعنی نظریہ، ثقافت، اخلاق اور مقصد ایک لڑی میں جڑے ہوں، وہ کسی بھی عسکری یا اقتصادی طاقت سے زیادہ پائیدار اثر رکھتی ہے۔
اسلامی انقلاب کے بانی، موجودہ رہبر، شہید مطہری جیسے فکری معماروں اور ڈاکٹر چمران شہید سے لیکر شہید قاسم سلیمانی تک شہدا نے اپنے خون اور خلوص سے ایسے نقوش چھوڑے ہیں کہ یہ افکار اور بیانیہ پوری دنیا میں تبدیلی کی علامت بن چکا ہے۔ اس کی مثال اور قابل تقلید نمونہ پیروان امام خمینی اور جانبازان امام خامنہ ای ہیں۔ طاقت اب جسموں کو نہیں، شعور کو فتح کرنے کا نام ہے، اور نرم قوت وہ کوڈ ہے جو اس شعور کے DNA میں لکھا جا چکا ہے۔ مغربی ممالک میں عوامی بیداری اور فلسطین سے یکجہتی کے عظیم الشان مظاہرے اور تازہ ترین مثال نیویارک میں صیہونی لابی کی شکست اس کے بین مظاہر ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انقلاب اسلامی ایران کی صورت میں سفارت خانے فلسطین سے ہو چکا ہے کی علامت سے زیادہ نرم قوت طاقت کی فکری DNA کے بعد رہی ہے چکی ہے اور اس قوت کا
پڑھیں:
حوزہ ہائے علمیہ ایران کی جانب سے سوڈان کے افسوسناک واقعات کی سخت مذمت
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ المناک سانحہ دراصل اسلامی امت کے دشمنوں کی سازشوں کا ایک واضح نمونہ ہے، ایسی سازشیں جو مسلمان ممالک کے درمیان تفرقہ ڈالنے، کمزور کرنے، انہیں تقسیم کرنے اور ان کے وسائل لوٹنے کے لیے تیار کی جاتی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں دینی مدارس کے مدیر آیت اللہ اعرافی نے سوڈان کے مظلوم عوام کے المناک قتلِ عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی اداروں، اسلامی تعاون تنظیم اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس انسانی المیے کے مقابلے میں واضح اور مؤثر موقف اختیار کریں اور خونریزی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ مدیرِ حوزہ ہائے علمیۂ ایران کی جانب سے سوڈان کے عوام پر ہونے والے بھیانک ظلم کی مذمت میں جاری کردہ بیان کا متن درج ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
ایسے دنوں میں جب اسلامی دنیا کو ترقی، استحکام اور باہمی تعاون کی شدید ضرورت ہے، اور امتِ مسلمہ کو فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت میں اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ایسے میں سوڈان کے مظلوم عوام کے اجتماعی قتل عام اور دس ہزاروں انسانوں کے بے گھر ہونے کی المناک خبریں اور دل دہلا دینے والی تصاویر دنیا بھر کے باشعور اور انسان دوست افراد کے دلوں کو زخمی کر رہی ہیں۔ یہ المناک سانحہ دراصل اسلامی امت کے دشمنوں کی سازشوں کا ایک واضح نمونہ ہے، ایسی سازشیں جو مسلمان ممالک کے درمیان تفرقہ ڈالنے، کمزور کرنے، انہیں تقسیم کرنے اور ان کے وسائل لوٹنے کے لیے تیار کی جاتی ہیں۔
ان تلخ اور جانکاہ واقعات کے پسِ پشت ہمیشہ عالمی استعمار اور صہیونی رژیم کی براہِ راست یا بالواسطہ مداخلت کارفرما رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے حوزہ ہائے علمیہ اور علمائے اسلام ان سنگین جرائم کی شدید مذمت کرتے ہیں، اور مسلم حکومتوں، عوام اور دانشورانِ امت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے مظالم کے مقابل خاموش نہ رہیں، اور استعمار و صہیونیت کی آلودہ سازشوں کے خلاف بیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی ممالک، بالخصوص سوڈان، میں آزادی، کرامت اور عدل کے دفاع میں کردار ادا کریں۔ بین الاقوامی اداروں، اسلامی تعاون تنظیم اور انسانی حقوق کے مراکز سے بھی امید ہے کہ وہ اس انسانی سانحے پر فی الفور اور مضبوط موقف اختیار کریں اور خونریزی، ظلم و جبری ہجرت کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
آخر میں، دینی مدارس کے مدیر نے سوڈان کے داغ دار خاندانوں اور مظلوم عوام سے ہمدردی و تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی کہ خداوندِ متعال انہیں صبر و نصرت عطا فرمائے اور امتِ اسلامیہ کو فتنوں اور استکباری قوتوں کی بالا دستی سے محفوظ رکھے۔
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته