اے این پی کی خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنیکی ترمیم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں پیش
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
اسلام آباد(نیوزڈیسک)عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنے کی ترمیم سینیٹ وقومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں پیش کردی۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا مشترکہ اجلاس سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں شروع ہوا۔
اجلاس کے دوران اے این پی نے خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنے کی ترمیم کمیٹی میں پیش کردی، صوبے کے نام سے خیبر ہٹا کر صرف ’پختونخوا‘ رکھنے کی ترمیم پیش ہوئی ہے۔
اے این پی کا موقف ہے کہ خیبر ایک ضلع ہے اس لیے دیگر صوبوں میں نام کے ساتھ ضلع کا نام نہیں لکھا جاتا۔
اے این پی کے سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا سے خیبر ہٹانے کی تجویز دی ہے، ہم چاہتے ہیں صوبے کا مختصر نام ہو، خیبر ہمارا ضلع ہے صوبے کیساتھ نام نہیں ہونا چاہیے، خیبرپختونخوا نام بڑا ہوجاتا ہے لوگ کے پی لکھ دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز نے سینیٹ اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس آئینی ترمیم کی کس بات کی اتنی جلدی ہے، کیا آئینی ترمیم پر بحث ضروری نہیں ہے، اب تو اس ترمیم پر ایوان میں بحث کی گنجائش ہی نہیں ، اجازت ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے موقع پر اپوزیشن لیڈر نہیں ، یہ کس جمہوریت کی نشاندہی کرتا ہے، 26ویں ائینی ترمیم عجلت میں کی اور اس میں خامیاں رہ گئیں، آج پھر ہم عجلت میں آئین جو تبدیل کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے نام کو دوبارہ تبدیل کرنے کی بات کی جا رہی ہے، عجلت نہ کریں، جو اچھی ترامیم ہوں گی ہم اپ کے ساتھ بیٹھ کر مانیں گے، ہماری تجاویز پر ہمارے ساتھ بیٹھا جائے لیکن ہم بلڈوز کا حصہ نہیں بنیں گے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
27ویں ترمیم : مشترکہ کمیٹی کا اجلاس، جے یو آئی کا واک آؤٹ
27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت کے لیے بنائی گئی قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس ہوا، جس میں جے یو آئی نے واک آؤٹ کر دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق، جے یو آئی کی رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران نے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تحفظات آئین کے آرٹیکل 243 پر ہیں، اور وہ اس آرٹیکل میں ترمیم کی مخالفت کریں گے۔ عالیہ کامران کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے چھبیسویں ترمیم میں سے جو کچھ نکالا تھا، وہ اب ستائیسویں ترمیم میں دوبارہ شامل کیا گیا ہے۔
عالیہ کامران نے ججز کے معاملے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا، اور سوال کیا کہ آئینی عدالت کے جج کی پگڑی کس کی بھاری ہو گی؟ اس کے علاوہ، انہوں نے ایڈوائزرز کی تعداد میں اضافے پر بھی سوال اٹھایا، اور کہا کہ ایک غریب ملک میں ایڈوائزرز کی تعداد بڑھانا عوام کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔
ان تمام تحفظات کے بعد جے یو آئی کے اراکین اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس واک آؤٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ جے یو آئی کا جمہوری حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی کی رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران نے پارٹی کی ہدایت پر بائیکاٹ کیا ہے۔ وزیر قانون نے مزید کہا کہ انہوں نے اپوزیشن کو بھی کمیٹی میں شرکت کی دعوت دی تھی اور تمام جماعتوں سے 27ویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ شیئر کیا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ وفاقی عدالت کے قیام پر پندرہ بیس سال سے بحث ہو رہی ہے اور 18ویں آئینی ترمیم کے دوران اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا، اور 26ویں ترمیم کے دوران بھی کوششیں کی گئیں مگر مولانا فضل الرحمان نے اس پر اتفاق نہیں کیا۔ وزیر قانون نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا موقف تھا کہ پہلے آئینی بینچز بنائے جائیں، کیونکہ سپریم کورٹ میں مقدمات کی بڑی تعداد اور تاخیر کا مسئلہ درپیش ہے۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس کے دوران 27ویں آئینی ترمیم کے ڈرافٹ پر 60 فیصد بات چیت مکمل ہو چکی تھی، اور مختلف اراکین نے سوالات اٹھائے جنہیں خوش اسلوبی سے سنا گیا۔
اجلاس کے اختتام پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کل دوبارہ صبح 11 بجے طلب کیا جائے گا۔ جے یو آئی (ف) اب مشاورت کے بعد فیصلہ کرے گی کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کرے گی یا نہیں۔