ستائیسویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرینگے، نیشنل پارٹی
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
اپنے بیان میں ترجمان نیشنل پارٹی نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم آئین کی بنیادی روح اور آئینی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ترمیم دراصل آئین کی بنیادی روح اور آئینی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اپنے جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ سینٹ آف پاکستان میں پیش ہونے اور منظر عام پر آنے کے بعد نیشنل پارٹی نے اپنے قانونی ماہرین سے مشاورت اور اس پر پارٹی کے ذمہ دار فورمز پر تفصیلی غور و خوض کیا۔ ترجمان نے کہا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم دراصل آئین کی بنیادی روح اور آئینی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا اس ترمیم کو پارٹی کے آئینی اداروں نے اکثریتی رائے سے مسترد کیا ہے۔ نیشنل پارٹی اس آئینی ترمیم کی مخالفت کرے گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ستائیسویں آئینی ترمیم نیشنل پارٹی
پڑھیں:
پی ٹی آئی 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتی ہے، سینیٹر علی ظفر
سینیٹر علی ظفر : فائل فوٹوپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر علی ظفر نے 27 ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کا اعلان کردیا اور درخواست کی کہ تمام پارلیمانی جماعتیں ساتھ دیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتی ہے، آئین میں ترمیم کسی عمارت کی بنیاد سے چھیڑ چھاڑ ہے۔
سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے 5 ستون ہیں، ایک بھی ستون کو ہلائیں گے، تو بڑی تباہی ہو جائے گی، 1973ء میں آئین آیا تو کہا گیا کسی جماعت یا کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ آپ کسی عمارت کی بنیاد کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آمروں کے درو میں آئینی ترامیم میں بھی بڑا وقت لگا، 4 سے6 ماہ لگے، 18ویں آئینی ترمیم کو 9 ماہ لگے۔
تحریک چلانے کا اعلان سربراہ اپوزیشن اتحاد محمود اچکزئی اور علامہ راجا ناصر عباس نے کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک وفاق ہے جس میں صوبے خود مختار ہیں، پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے بنتی ہے، وہ آئین کی پابند ہے، آئین میں قوم کو بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، جن پر عمل درآمد کے لیے عدالتیں ہیں، ایک آزاد عدلیہ ہونی چاہیے۔
سینیٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ آئین کا ایک پرنسپل ہے، سویلین سپریمیسی ہونی چاہیے، پی ٹی آئی کروڑوں لوگوں کی نمائندہ جماعت ہے، بانی پی ٹی آئی کی حکومت ہٹا کر آئین کے توازن کو تہس نہس کرنا شروع کیا گیا، کس طرح عدلیہ کو استعمال کیا گیا، عوام کا مینڈیٹ چرایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے اور کثرت رائے علیحدہ چیزیں ہیں، اتفاق رائے نہ ہو تو آئینی ترمیم کوئی مانے گا نہیں، قوم کا اتفاق رائے اس ترمیم پر نہیں ہے، آئینی ترمیم وہ کریں جو جائز انداز سے منتخب ہوں، جن کا ذاتی مفاد نہ ہو۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن چرایا گیا، جو جیتے وہ پارلیمنٹ میں نہیں، یہ جعلی پارلیمنٹ ترمیم کرنے کے لیے با اختیار نہیں، ن لیگ اور اتحادیوں نے ترمیم کےحوالے سے پہلے فیصلہ کر لیا ہے، این ایف سی یا صوبائی خود مختاری کا خاتمہ پیپلز پارٹی کیلئے فیس سیونگ تھی، یہ سب نورا کشتی ہے۔
پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ جج کو سپریم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بنا دیا، ساری طاقت ایک وفاقی آئینی عدالت کو دی جا رہی ہے، یہ عدلیہ کی آزادی کےخلاف ہے، آپ سپریم کورٹ کو ختم کرکے نئی عدالت بنا رہے ہیں، صدر فیصلہ کرے گا کہ عدالت کے کتنے جج لگانے ہیں، صدر اپنے سلیکٹڈ جج کو لے کر جج لگا دیں گے، حکومت خود ہی آئینی عدالت کے ججز تعینات کرے گی اورخود ہی اپنےحق میں فیصلے لےگی، 27وں ترمیم کا سب سے بڑا زہر ٹرانسفر آف ججز ہے، اگر ججز ٹرانسفر سے انکار کریں گے تو وہ ریٹائر ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم عدلیہ کو ایگزیکٹو کے کنٹرول میں لے جائے گی، پاکستان میں جتنے کیسز زیرالتوا ہیں، ان میں سےصرف 2 فیصد سپریم کورٹ میں ہیں، باقی 98 فیصد کیسز جو دیگر کورٹ میں زیر التوا ہیں، ان کے لیے کوئی بات نہیں کر رہا، سب کچھ استثنیٰ کے لیے ہو رہا ہے، صدر اور گورنر کو کہا گیا آپ جو بھی جرم کریں کوئی ساری عمر کے لیے نہیں چھو سکتا۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ان آئینی ترامیم کو مسترد کریں، ہم آپ کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم زیر التوا کیسز کو ختم کرنے کےلیے کیا کر سکتے ہیں۔