اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتی ہے، آئین میں ترمیم کسی عمارت کی بنیاد سے چھیڑ چھاڑ ہے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے 5 ستون ہیں، ایک بھی ستون کو ہلائیں گے، تو بڑی تباہی ہو جائے گی، 1973ء میں آئین آیا تو کہا گیا کسی جماعت یا کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ آپ کسی عمارت کی بنیاد کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آمروں کے درو میں آئینی ترامیم میں بھی بڑا وقت لگا، 4 سے6 ماہ لگے، 18ویں آئینی ترمیم کو 9 ماہ لگے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک وفاق ہے جس میں صوبے خود مختار ہیں، پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے بنتی ہے، وہ آئین کی پابند ہے، آئین میں قوم کو بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، جن پر عمل درآمد کے لیے عدالتیں ہیں، ایک آزاد عدلیہ ہونی چاہیے۔

سینیٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ آئین کا ایک پرنسپل ہے، سویلین سپریمیسی ہونی چاہیے، بانی پی ٹی آئی کی حکومت ہٹا کر آئین کے توازن کو تہس نہس کرنا شروع کیا گیا، کس طرح عدلیہ کو استعمال کیا گیا، عوام کا مینڈیٹ چرایا گیا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سینیٹر علی ظفر پی ٹی ا ئی کہا کہ

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم: وفاقی آئینی عدالت اور ججز کے تبادلے کی نئی تجویز

27ویں آئینی ترمیم کے تحت اہم تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہے، جن میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام اور ججز کے تبادلے کے حوالے سے نئے اختیارات شامل ہیں۔
اہم نکات:
1. وفاقی آئینی عدالت کا قیام:
مجوزہ ترمیم کے مطابق ملک میں وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، جس میں ہر صوبے سے مساوی ججز شامل ہوں گے۔ چیف جسٹس اور دیگر ججز کا تقرر صدر کرے گا۔ اس عدالت کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار حاصل ہوگا اور یہ قانون سے متعلق معاملات کو فیصلے کے لیے مختص کرے گی۔
2. ججز کے تبادلے کا اختیار:
ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا جائے گا۔ اگر کوئی جج تبادلے کو قبول نہیں کرتا تو اسے ریٹائر سمجھا جائے گا۔ اس تبدیلی سے ججز کی تقرری اور تبادلے کے طریقہ کار میں شفافیت اور سسٹم کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
3. صدر اور گورنر کے خلاف فوجداری کارروائی:
ترمیم کے مطابق صدر اور گورنر کے خلاف عمر بھر کے لیے کوئی فوجداری کارروائی نہیں کی جا سکے گی، اور نہ ہی ان کی گرفتاری یا جیل بھیجنے کی کوئی قانونی کارروائی کی جا سکے گی۔
4. سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے اختیارات:
سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے پاس ہائی کورٹ سے کسی کیس کو اپنے پاس یا کسی دوسری ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کرنے کا اختیار ہوگا۔ وفاقی آئینی عدالت کے فیصلوں پر تمام پاکستانی عدالتوں کو عمل کرنا ضروری ہوگا، سوائے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے۔
5. آئینی عدالت کے ججز کی مدت:
وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی عمر 68 سال تک ہوگی، اور آئینی عدالت کا چیف جسٹس تین سال کی مدت مکمل کرنے پر ریٹائر ہو جائے گا۔ صدر آئینی عدالت کے ججز میں سے کسی کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرسکے گا۔
6. آئینی عدالت کے ججز کا تقرر:
صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس پر وفاقی آئینی عدالت کے ججز کا تقرر کرے گا، اور سپریم کورٹ کے ججز میں سے پہلا چیف جسٹس بھی صدر کی ایڈوائس پر مقرر کیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتی ہے، سینیٹر علی ظفر
  • صدر آصف زرداری سے مولانا فضل الرحمان کی ملاقات،27ویں آئینی ترمیم پر گفتگو
  • 27ویں آئینی ترمیم: وفاقی آئینی عدالت اور ججز کے تبادلے کی نئی تجویز
  • وزیر قانون نے 27ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کر دیا
  • پیپلزپارٹی کی آرٹیکل 243 پر حمایت، دہری شہریت،ایگزیکٹومجسٹریس سے متعلق ترامیم کی مخالفت
  • 27ویں آئینی ترمیم، وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس کل صبح طلب کرلیا
  • 27ویں ترمیم ،صوبائی اختیارات میں کمی کی مخالفت کرینگے، فضل الرحمان
  • 26ویں ترمیم کی مسترد شقیں دوبارہ شامل کی گئیں تو 27ویں ترمیم کی مخالفت کریں گے، فضل الرحمان
  • پی ٹی آئی 27ویں آئینی ترمیم کو منفی رنگ دے رہی ہے، عطا تارڑ