27ویں آئینی ترمیم کے تحت اہم تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہے، جن میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام اور ججز کے تبادلے کے حوالے سے نئے اختیارات شامل ہیں۔
اہم نکات:
1. وفاقی آئینی عدالت کا قیام:
مجوزہ ترمیم کے مطابق ملک میں وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، جس میں ہر صوبے سے مساوی ججز شامل ہوں گے۔ چیف جسٹس اور دیگر ججز کا تقرر صدر کرے گا۔ اس عدالت کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار حاصل ہوگا اور یہ قانون سے متعلق معاملات کو فیصلے کے لیے مختص کرے گی۔
2.

ججز کے تبادلے کا اختیار:
ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا جائے گا۔ اگر کوئی جج تبادلے کو قبول نہیں کرتا تو اسے ریٹائر سمجھا جائے گا۔ اس تبدیلی سے ججز کی تقرری اور تبادلے کے طریقہ کار میں شفافیت اور سسٹم کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
3. صدر اور گورنر کے خلاف فوجداری کارروائی:
ترمیم کے مطابق صدر اور گورنر کے خلاف عمر بھر کے لیے کوئی فوجداری کارروائی نہیں کی جا سکے گی، اور نہ ہی ان کی گرفتاری یا جیل بھیجنے کی کوئی قانونی کارروائی کی جا سکے گی۔
4. سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے اختیارات:
سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے پاس ہائی کورٹ سے کسی کیس کو اپنے پاس یا کسی دوسری ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کرنے کا اختیار ہوگا۔ وفاقی آئینی عدالت کے فیصلوں پر تمام پاکستانی عدالتوں کو عمل کرنا ضروری ہوگا، سوائے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے۔
5. آئینی عدالت کے ججز کی مدت:
وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی عمر 68 سال تک ہوگی، اور آئینی عدالت کا چیف جسٹس تین سال کی مدت مکمل کرنے پر ریٹائر ہو جائے گا۔ صدر آئینی عدالت کے ججز میں سے کسی کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرسکے گا۔
6. آئینی عدالت کے ججز کا تقرر:
صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس پر وفاقی آئینی عدالت کے ججز کا تقرر کرے گا، اور سپریم کورٹ کے ججز میں سے پہلا چیف جسٹس بھی صدر کی ایڈوائس پر مقرر کیا جائے گا۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ا ئینی عدالت کے ججز وفاقی ا ئینی عدالت ججز کے تبادلے سپریم کورٹ کا اختیار چیف جسٹس جائے گا

پڑھیں:

تمام ہائیکورٹ ججز مشترکہ سنیارٹی لسٹ، تعین تاریخ تقرری کی بنیاد پر

اسلام آباد(انصار عباسی)حکومت مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے بڑے عدالتی اصلاحات متعارف کروا رہی ہے، جن میں تمام ہائی کورٹ ججوں کی مشترکہ سینیارٹی فہرست کی تیاری اور سپریم جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار دینا شامل ہے کہ وہ کسی جج کی رضامندی کے بغیر ہائی کورٹس یا ان کے علاقائی بنچز کے درمیان ججوں کے تبادلے کر سکے۔

ذرائع کے مطابق، اس اقدام کا مقصد عدالتی تبادلوں اور تقرریوں سے متعلق پرانے تنازعات طے کرنا ہے۔ یہ تنازعات حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کے تبادلے اور تقرریوں، خصوصاً موجودہ چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کی تعیناتی کے معاملے میں سامنے آئے تھے، جنہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، مجوزہ ترامیم کے تحت ملک کی تمام ہائی کورٹس کے ججوں کی سینیارٹی اُن کی تقرری کی تاریخ کی بنیاد پر طے کی جائے گی، جس سے تمام ہائی کورٹس کیلئے سینیارٹی کا یکساں ڈھانچہ قائم ہوگا۔ سپریم جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ بہتر عدالتی انتظام کے مفاد میں ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کر سکے، اس کیلئے متعلقہ جج کی رضامندی درکار نہیں ہوگی۔

اہم سرکاری ذرائع کے مطابق، یہ ترامیم حال ہی میں سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کی روشنی میں تجویز کی گئی ہیں جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلوں کو درست قرار دیا گیا اور اس معاملے میں صدرِ مملکت اور سپریم جوڈیشل کمیشن کے آئینی اختیارات کی توثیق کی گئی۔

سپریم کورٹ نے اس سے قبل فروری 2025ء کے اُس نوٹیفکیشن کیخلاف دائر درخواستیں مسترد کردی تھیں جس کے ذریعے صوبائی ہائی کورٹس کے ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ درخواست گزاروں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز اور کچھ بار ایسوسی ایشنز شامل تھیں جن کا موقف تھا کہ ایسے تبادلے عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور سینیارٹی کے اصولوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

تاہم، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں جج کا تبادلہ نئی تقرری نہیں۔ فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ ’’تبادلہ دراصل موجودہ وسائل کی ازسرِنو تقسیم ہے‘‘۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس بات کی تصدیق کی کہ تمام آئینی تقاضے پورے کیے گئے جن میں چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز سے مشاورت بھی شامل ہے۔

عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ صدرِ مملکت کو آئینی طور پر ایسے تبادلے کے احکامات جاری کرنے کا اختیار ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010ء میں اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں۔ عدالت نے صوبائی نمائندگی کی خلاف ورزی کے تمام دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تبادلے مکمل طور پر آئینی ہیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، حکومت کا خیال ہے کہ یہ نئی آئینی اصلاحات ججوں کے درمیان اختلافات، تقسیم اور اندرونی سیاست میں کمی لائیں گی کیونکہ تقرری اور تبادلے کیلئے واضح طریقہ کار ادارہ جاتی سطح پر طے ہو جائے گا۔

دوسری جانب، اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کی تیسری منزل خالی کی جارہی ہے اور وہاں موجود ریکارڈ اسلام آباد ہائی کورٹ کی پرانی عمارت میں منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ اسی جگہ وفاقی شرعی عدالت کو منتقل کیا جا سکے۔ جبکہ فیڈرل شریعت کورٹ کی موجودہ عمارت وفاقی آئینی عدالت کیلئے مختص کی جائے گی جو 27ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے جارہی ہے۔
انصار عباسی

متعلقہ مضامین

  • 27ویں مجوزہ آئینی ترمیم: اہم نکات اور تبدیلیاں
  • 27ویں آئینی ترمیم، آئینی عدالت کے قیام سے متعلق اہم نکات سامنے آگئے
  • ’چیف آف آرمی اسٹاف چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے‘،27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ سامنے آگیا
  • چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ آرمی چیف کو دینے کی تجویز، 27 ویں ترمیم کا مسودہ
  • آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ دینے کی تجویز، 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آگیا
  • 27ویں آئینی ترمیمی بل 2025 کا مسودہ منظرِ عام پر آگیا، وفاقی آئینی عدالت کے قیام سمیت اہم تجاویز شامل
  • تمام ہائیکورٹ ججز مشترکہ سنیارٹی لسٹ، تعین تاریخ تقرری کی بنیاد پر
  • ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت اعلیٰ ترین عدالت، سپریم کورٹ اپیل کورٹ میں بدل جائے گی
  • 27ویں آئینی ترمیم : آئینی بینچ کی جگہ 9 رکنی آئینی عدالت بنانے، ججز کی عمر 70 سال تک کرنے کی تجویز