دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی،طالبان سے مذاکرات کی بات کرنے والے افغانستان چلے جائیں تو بہتر ہے، غزہ فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریں گے، جنرل احمد شریف چوہدری
افغانستان میں ڈرون حملے پاکستان سے نہیں ہوتے نہ امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ ہے،،بھارت کو زمین، سمندر اور فضا میں جو کچھ کرنا ہے کرلے اس بار جواب زیادہ شدید ہوگا،سینئر صحافیوں کو بریفنگ

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی۔پاکستان اپنی سرحدوں، عوام کی حفاظت کیلئے تیار ہے۔سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے ۔27 ویں آ ئینی ترمیم کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے۔27 ویں آ ئینی ترمیم پر تجاویز مانگیں تو اپنی سفارشات دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں امن فوج کا حصہ بننے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی۔۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہے، 2014 میں 38 ہزار مدارس تھے اب ایک لاکھ کے قریب مدارس بن چکے، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔مدارس کی رجسٹریشن اب بھی ایک سوال ہے۔سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہیں۔منتخب سیاستدان ریاست بناتے ہیں اور اداروں کا کام ریاست کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی، جبکہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہم نے نہیں حکومت نے کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیراہ میں پوست کی فصل کو تلف کر رہے ہیں۔تیراہ اور کے پی میں خفیہ آپریشنز کامیابی سے جاری ہیں۔دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اس سال6200 انٹیلی جنس آپریشنز کئے گئے ۔آپریشنز کے دوران1667 دہشتگرد مارے گئے۔ جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، سیکیورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206افغان طالبان اور 100 سے دہشتگردوں کو ہلاک کیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشنز زیادہ ہورہے ہیں اور کے پی میں دہشت گرد زیادہ مارے جارہے ہیں، یہ لوگ فوج کے خلاف کام کرتے ہیں اور عشر کے نام پر ٹیکس لیتے ہیں، یہ لوگ جسے عشر کہتے ہیں یہ بھتہ ہے، یہ بارڈر اوپن چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے حشیش لائی جاسکے، اس کا حصہ طالبان کو بھی جاتا ہے اور وارلارڈز کو بھی ملتا ہے، یہ آئس ہماری یونیورسٹیوں تک جارہی ہے ہماری نوجوان نسل کو خراب کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی عمائدین، دہشت گرد، جرائم پیشہ لوگ مل کر قانون کے خلاف کام کر رہے ہیں، کئی بار فوج نے علاقہ کلیٔر کیا مگر سول انتظامیہ اور پولیس سیاسی دبا وکے سبب کام نہیں کرپا رہی، اسمگلرز دہشت گردوں سے مل کر کام کر رہے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو عوام اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں، افغانستان سے جڑے معاملات کا حل صرف وہ حکومت ہے جو عوام کی نمائندہ ہو، افغانستان کی شرائط معنی نہیں رکھتی، دہشتگردی کا خاتمہ اہم ہے۔انہوں نے کہاکہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکیورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے۔دوحہ، استنبول مذاکرات کا ایجنڈا افغانستان سے سرحد پار دہشتگردی کا خاتمہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پالیسی بنانے میں خودمختار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں منشیات اسمگلرز کی افغان سیاست میں مداخلت ہے اور وہاں سے بڑے پیمانے پر منشیات پاکستان اسمگل کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کو پاکستان کا رسپانس فوری اور موثر تھا، پاکستان کے رسپانس کے وہی نتائج نکلے جو ہم چاہتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہمارے ہاں علما، میڈیا اور سیاست دانوں کو یک زبان ہونا ہوگا تب فیصلے کرسکیں گے۔افغان طالبان رجیم تبدیل کرنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم افغان معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت سمندر میں اور فالز فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، تاہم ہم نظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت نے جو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا،میزائل تجربے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں ڈویلپمنٹ ہوتی رہتی ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ڈی جی ا ئی ایس پی ا ر حکومت اور پارلیمنٹ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ ہے انہوں نے کہا افغان طالبان کہ افغان رہے ہیں کرنا ہے کے خلاف ہیں اور کام کر ہے اور

پڑھیں:

فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ

پاکستان اور افغانستان کے مابین استنبول میں ہونے والے اتار چڑھاؤ سے بھرپور مذاکرات کے بعد اب اس خطے میں دلچسپی رکھنے والے تمام حلقوں کی نظریں 6 نومبر پر ہیں، جب دونوں ممالک کے متعلقہ وفود سیز فائر کا مستقبل طے کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہوں گے۔

لیکن 6 نومبر سے تین روز قبل 3 نومبر کو افواج پاکستان کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودہری نے واضح کر دیا ہے کہ ان مذاکرات کی اگلی نشست میں فیصلہ جو بھی ہو پاکستان سے دہشت گردی کو اب ختم ہونا ہو گا اور پاکستان اس کے لیے ہر حد تک جائے گا۔

احمد شریف چودہری نے تمام ابہام دور کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے کہ افغانستان سے حالیہ مذاکرات کا ایک ہی نقطہ ہے کہ اس سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی رکنی چاہیئے اور اس کو یقینی بنانے کے لئے نگرانی کا ایک نظام قائم کیا جانا چاہیے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے پہلی مرتبہ پاکستان میں دہشت گردی کے میکانزم کو بھی بے نقاب کیا ہے اور انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منشیات کے تاجر اور ان کے سرپرست مقامی سیاستدان اس ناجائز کاروبار کی حفاظت کے لیے دہشت گردوں کی مدد لیتے ہیں اور بدلے میں اس کا حصہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان تک پہنچاتے ہیں، لیکن پاکستان اب اس طرح کی سرگرمیاں برداشت نہیں کرے گا۔

ان کھلم کھلا اعلانات کے بعد اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ افغان طالبان، ان کی طفیلی ٹی ٹی پی یا پاکستان کا ازلی دشمن انڈیا پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رکھ سکے۔ اب یا تو افغان طالبان کو ازخود اس برائی کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا یا پھر پاکستان کے غیض و غضب کا سامنا کرنا ہو گاکیونکہ پاکستانی حکام نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہاں سے ہونے والی کسی بھی دہشت گرد کاروائی کا مطلب جنگ بندی معاہدے کا خاتمہ ہو گا۔

لیکن یہ بھی اطلاعات ہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کمانڈروں کو بچانے کے لیے افغانستان کے شہری علاقوں اور گلی محلوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اول تو انسانی شیلڈ استعمال کرتے ہوئے ان دہشت گردوں کو عام لوگوں میں چھپا دیا جائے یا پھر اگر پاکستانی فورسز ان تک پہنچ جائیں تو یہ واویلا کیا جائے کہ پاکستان نے عام لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔

مگر وقت اب ختم ہو چکا ہے۔ اب افغان طالبان جو بھی کوشش کریں وہ یقینی طور پر ناکام ہی ہو گی کیونکہ پاکستان نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب امن بھیک سے نہیں چھین کر حاصل کیا جائے گا۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا، کچھ ماہ پہلے تک پاکستان تمام ہمسائیوں سے انتہائی خوش اخلاقی سے یہ درخواست کررہا تھا کہ پاکستان میں دراندازی بند کی جائے اور دہشت گردی کی پراکسی جنگوں کا خاتمہ کیا جائے لیکن ہمارے مشرقی اور مغربی ہمسایوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

پھر پاکستان کی اعلی قیادت نے خوش اخلاقی اور بہترین ہمسائیگی کی قبا کو ایک طرف رکھا اور اپنے دشمنوں سے انہی کی زبان میں بات کرنے کی حکمت عملی اختیار کی، پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ [سخت ریاست] میں تبدیل کیا۔

رواں سال مئی میں پوری دنیا نے دیکھا کہ رویے میں اس تبدیلی نے ہمارے دشمن کو میدان جنگ سے بھاگنے پر کیسے مجبور کیا۔

اور پھر اکتوبر میں دہشت گردوں کے خلاف افغانستان کے اندر کارروائی سے دہشت گردی کا منبع ابھی تک لرز رہا ہے اور بے گناہ انسانوں کے قتل عام سے اپنی معیشت چلانے والے اس انسانیت سوز رجیم کے سوداگر طالبان وقت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

مگر اب ان کے ہاتھ امن کے سوا کچھ نہیں آئے گا کیونکہ پاکستان نے اپنے بین الااقوامی دوستوں اور اس معاملے کے ثالثین پر بھی واضح کر دیا ہے کہ اب اس معاملے پر مزید سمجھوتہ نہیں ہو سکتا اور یہ ختم ہو کر رہے گا کیوں نہ اس کے لیے طالبان رجیم کو گھر جانا پڑے۔

سو یہ تو طے ہے کہ اب پاکستان نے افغان رجیم کو ہر صورت امن یقینی بنانے کے لیے مجبور کر دینا ہے، لیکن پاکستان کے لیے یہ جنگ اتنی جلدی ختم نہیں ہونے والی۔

افغانستان کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے والے مقامی، علاقائی اور بین الااقوامی کھلاڑیوں نے اپنی دہائیوں کی مہم جوئیوں میں افغان عوام کو پاکستان کے خلاف کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات بونے میں کئی پاکستانی حکمرانوں کا بھی بڑا کردار ہے لیکن وجوہات جو بھی ہوں، پاکستان کو اس محاذ پر بھی ہر حال میں فتح حاصل کرنی ہے۔

پاکستان کے لیے جتنا ضروری اپنے ملک میں امن ہے اتنا ہی ضروری افغان عوام کی حمایت بھی ہے کیونکہ یہ پراکسیز اور جنگوں کی معیشت پر پلنے والی قاتل رجیمیں تو ختم ہو جائیں گی مگر پاکستان اور افغانستان کے عوام نے ہمیشہ ساتھ رہنا ہے اور یہ جتنے اچھے طریقے سے رہیں، اتنا ہی بہتر ہے۔ اس لیے پاکستان کو یہ حالات بنانے کے لیے ایک سافٹ سٹیٹ [نرم دل ریاست] کا روپ بھی ضرور دھارنا ہے۔

ضرورت یہ ہے کہ پاکستان جہاں ایک طرف افغان طالبان رجیم اور اس کے سرپرستوں کو سبق سکھانے کے لیے ایک شاندار حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے وہاں اس کے متوازی ایک ایسی حکمت عملی تیار کرے جو افغان عوام کو پاکستان کے قریب لانے کے نکات پر مبنی ہو، کیونکہ دونوں ممالک کے عوام نے ہمیشہ ساتھ رہنا ہے اور ان کا مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔

ہمیں ایک طویل جنگ لڑنا پڑے گی جو نہ صرف افغانستان کو ہمارے دشمنوں کے شکنجوں سے آزاد کرائے بلکہ افغان عوام کو ان دشمنوں کی زہریلی چالوں سے بھی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خرم شہزاد

متعلقہ مضامین

  • فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
  • غزہ امن فوج کے قیام سے متعلق فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی‘احمد شریف
  • فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی:ڈی جی آئی ایس پی آر
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریگی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان سرحد پار دہشتگردی کیخلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا: وزیر دفاع خواجہ آصف
  • جہادِ افغانستان کے اثرات
  • افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان