ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
تقسیم ہند کے وقت ریاست جونا گڑھ کے حکمران نواب سر مہابت خانجی نے مملکت خدادا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ انکا یہ فیصلہ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے عین مطابق تھا جس میں562ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں۔ نواب سر مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ جونا گڑھ کی اسٹیٹ کونسل کے سامنے جو مسلمانوں، ہندوئوں، پارسیوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھی پیش کیا جس نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ منظور کیا۔یوں 15ستمبر1947 کو الحاق کا اعلان کر دیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے قائداعظم محمد علی جنا ح نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے جبکہ ریاست جونا گڑھ کی طرف سے نواب مہابت خانجی نے دستخط کئے۔ پاکستان کی اس وقت کی قانون ساز اسمبلی نے اس الحاق کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ بھارت جس نے قیام پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا تھا، اس فیصلے پر تلملا اٹھا۔ کانگریسی رہنمائوں نے نواب صاحب کو مختلف ترغیبات دے کر اس فیصلے کو تبدیل کرانے کی بے انتہا کوششیں کیں حتیٰ کہ دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کیا مگر نواب جونا گڑھ ثابت قدم رہے۔ نواب کا مؤقف تھا کہ اگرچہ ریاست جوناگڑھ کا خشکی کا کوئی راستہ پاکستان سے نہیں ملتا مگر سمندر کے ذریعے یہ تعلق ممکن ہے کیونکہ اس ریاست کا کراچی سے سمندری فاصلہ 480 کلومیٹر ہے۔ اس ریاست کے ماتحت دوریاستیں تھیں (1)منگروال (2)بابری آباد۔ ان دوریاستوں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا جس پر نواب جونا گڑھ نے ان دونوں ریاستوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی۔ ان دونوں ریاستوں کے حکمرانوں نے حکومت ہندوستان سے مدد کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی ہندوستانی فوجوں نے 9 نومبر، 1947ء کو ریاست جوناگڑھ پر حملہ کر دیا۔ اس دوران ایک جلاوطن گروپ نے ایک عارضی حکومت قائم کی جس کا سربراہ سمل داس گاندھی (Samaldas Gandhi) کو مقرر کیا گیا جو مہاتما گاندھی کا بھتیجاتھا۔ حکومت ہندوستان نے اسے مجاہد آزادی کا خطاب دیا موجودہ دور میں لاتعداد اسکول، کالج اور ہسپتال اس کے نام سے منسوب کیے گئے ہیں۔
بھارتی حکومت نے جب یہ دیکھا کہ اس کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تو اس نے ریاست جونا گڑھ کی آئینی اور قانونی حکومت کا تختہ الٹنے اور ریاست پر غیر قانونی تسلط جمانے کے لئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا۔ بعد ازاں9 نومبر 1947 کو بھارت نے جونا گڑھ پر فوجی طاقت کے بل پر تسلط قائم کیا۔ بھارتی فوجیوں نے جونا گڑھ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا اور مسلمانوں کی املاک کو بھاری نقصان پہنچایا۔حکومت پاکستان نے بھارتی جارحیت پر سخت احتجاج کیا اور اپنا کیس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس منعقدہ 11فروری 1948 میں پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ بھارت جونا گڑھ سے اپنی فوجیں واپس بلائے تاہم بھارت ٹس سے مس نہ ہوا۔ بعد ازاں حکومت پاکستان نے فروری 1971 میں جونا گڑھ کے مسئلے کو مسئلہ کشمیر سے منسلک کرکے اقوام متحدہ میں پیش کیا مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور بے اصولی کے باعث اس کا کوئی بھی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔بھارت نے جونا گڑھ پر غاصبانہ قبضے کے وقت یہ دلیل دی تھی کہ یہ علاقہ جغرافیائی طور پر بھارت سے متصل ہے تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، جو جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے ساتھ متصل ہے اور جہاں کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہش مند ہیں ، پر بھی بھارت گزشتہ 78برس سے قابض ہے اور کشمیری بھارتی تسلط سے آزادی کے مطالبے کی پاداش میں روز بھارتی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
1748ء میں ریاست جونا گڑھ (Junagadh State) کا قیام عمل میں آیا۔ 1807ء میں یہ برطانوی محمیہ ریاست بن گئی۔ 1818ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن سوراشرا کا علاقہ برطانوی راج کے انتظامیہ کے براہ راست تحت کبھی نہیں آیا۔ اس کی بجائے برطانیہ نے اسے ایک سو سے زیادہ نوابی ریاستوں میں تقسیم کر دیا، جو 1947ء تک قائم رہیں۔ موجودہ پرانا شہر جو انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران ترقی پایا سابقہ نوابی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ریاست کے نواب کو 13 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جواہر لال نہرو (14 فروری 1950ء ) کو خط لکھا جس میں بھارتی وزیراعظم کے سامنے جونا گڑھ پر پاکستان کا سرکاری موقف واضح کیا کہ جونا گڑھ کے مسئلہ کو مردہ نہ سمجھا جائے بلکہ سلامتی کونسل میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کے بعد جونا گڑھ کے مسئلے پر بات کی جائے گی۔”یہ بتانا ضروری ہے کہ جوناگڑھ سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے جس سے مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد نمٹا جائے گا اور اسے ایک مردہ مسئلہ نہیں بنایا جا سکتا”ـ
بد قسمتی سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو پچھلی سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک درجن کے قریب قراردادیں بھی منظور ہو چکی ہیں لیکن کشمیری آج بھی انصاف کے حصول کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔اگر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے اقوام متحدہ کو بھیجے گئے بھارتی الزامات کے جواب میں درج کروائی گئی شکایات کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان نے صرف مقبوضہ جموں و کشمیر پر بات نہیں کی تھی بلکہ اس کے علاوہ جونا گڑھ سمیت پاکستان کے بھارت کے ساتھ متعدد مسائل کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ حل طلب تھے۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پاکستان کے ساتھ ریاست جونا گڑھ سلامتی کونسل اقوام متحدہ جونا گڑھ کے نے جونا گڑھ کر دیا گڑھ پر
پڑھیں:
داؤد ابراہیم کا سری لنکا کے سابق باغی گروہ سے اتحاد، بھارتی خفیہ اداروں کا انکشاف
بھارتی خفیہ اداروں نے انکشاف کیا ہے کہ داؤد ابراہیم کے گروہ نے سری لنکا کے سابق باغی گروہ لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام (ایل ٹی ٹی ای) کی باقیات کے درمیان اتحاد بنا لیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داؤد گروہ جنوبی بھارت اور سری لنکا کے راستوں کے ذریعے اپنی منشیات کی کارروائیوں کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے، کیونکہ اس گروہ کے خلاف مغربی اور شمالی بھارت میں سخت کارروائی کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: داؤد ابراہیم کو زہر دے دیا گیا، بھارتی میڈیا کا دعوٰی
داؤد ابراہیم کا گروہ ایل ٹی ٹی ای سے منسلک عناصر کے لیے مالی معاونت فراہم کرتا ہے کیونکہ ان کے پاس قیادت کے خلا اور فنڈنگ کی کمی ہے۔
بھارتی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہ ایل ٹی ٹی ای کی علیحدگی پسند باغی تحریک کا مکمل طور پر دوبارہ آغاز ممکن نہیں، لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ گروہ کے سابقہ لاجسٹک نیٹ ورک اور پَلک اسٹریٹ کے ساحلی تجربے کی وجہ سے جنوبی بھارت اور اس سے آگے اسمگلنگ آسان ہوسکتی ہے۔
ایل ٹی ٹی ای کو 2009 میں فوجی طور پر شکست دی گئی تھی اور اس پر الزامات تھے کہ وہ اپنی کارروائیوں کے لیے منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کو بیرون ملک کاروبار کے ذریعے لانڈرنگ کرتا رہا۔
یہ بھی پڑھیں: ماؤ نواز علاقوں میں تعینات بھارتی فوجی اہلکاروں کی خودکشیاں بڑھنے لگیں
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ داؤد گروہ کے سرمایہ اور عالمی رسائی کو ایل ٹی ٹی ای کے ساحلی علم کے ساتھ جوڑنے سے خطے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اتحاد باغی گروہ بھارت خفیہ ادارے داؤد ابراہیم لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام