Juraat:
2025-11-11@01:07:55 GMT

ساری اُمیدیں ختم ہو چکی ہیں!

اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT

ساری اُمیدیں ختم ہو چکی ہیں!

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

10اگست 1976کو شمالی آئر لینڈ کے شہر بلفاسٹ کی گلیوں میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا تھا ایک آدمی فرار کی کوشش میں پیچھا
کرنے کے والوں کو دھوکا دینے کی کوشش میں اپنی گاڑی لے کر ایک گلی میں پہنچ گیا تھا ۔اچانک گولی چلنے کی آواز آتی ہے مہلک زخمی
ڈرائیور گاڑی کے اسٹیر نگ پر گر جاتاہے گاڑی چکرا کر ایک باڑ سے ٹکرا جاتی ہے اور ایک ماں اور تین بچوں پر چڑھ جاتی ہے۔ ماں
اگرچہ شدید زخمی ہوئی مگر بچ گئی جب کہ اسکے تینوں بچے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے یقینا یہ واقعہ اتنا عجیب نہیں تھا جس زمین پر بھی جنگ اپنے پنجے گاڑتی ہے خو ف اور تشدد پھوٹ پڑتے ہیں۔ بچوں کی ہلاک کسی طرح بھی قابل ذکر نہیں ہوتی ۔ مگر 1976 کے اگست میں بلفا سٹ کے اس واقعے نے بالکل ہی مختلف نتیجہ پیش کیا۔ اس علاقے میں جہاں تین بچے ہلاک ہوئے تھے، ایک گھر یلو خاتون رہتی تھی اس نے کار کے باڑ سے ٹکرانے کی آواز سنی اور جوں ہی وہ موقع کی طرف دوڑ کر پہنچی اس کی آنکھوں میں خوف کا پورا منظر سما گیا۔ اس منظر نے اس کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ مزید یہ ہوا کہ اس پر تشدد اور دہشت انگیز واقعے کے خلاف کچھ کر گزرنے کی پر جو ش خواہش پر اس پر طاری ہوگئی اوہ خدا ! اب ہمیں کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ مشورے کرنے کے یا منصوبے بنانے کے لیے وقت نہیں تھا ۔اس نے اس انداز میں سو چا ہی نہیں بس وجدانی کیفیت میں وہ ہی کچھ کیا جو اس کے دل نے کہا وہ اس سٹر ک پر واقع ہر مکان پر گئی، جہاں یہ حادثہ ہوا تھا ۔خوف کا لبریز پیا لہ اُلٹ چکا تھا وقت آگیا تھا کہ ہر عام مر د اور عورت کو ایسے بے رحم تشدد پر احتجاج کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے ۔ اب یہ سیاسی رویو ں یا مذہبی عقائد کا معاملہ نہیں رہ گیا تھا بس اس کا ایک ہی علاج تھا۔ عوام خود اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ریڈیواور ٹیلی ویژن نے ایک گھریلو عورت کی مہم میں کچھ دلچسپی دکھائی اور اسے دہشت کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آئرش عوام کے نام ایک اپیل نشر کر نے کا موقع فراہم کیا۔ اس کی اپیل کا فوراً جواب ملا زیادہ سے زیادہ لوگوں نے ان کی پکار پر لبیک کہا ۔سب سے پہلے تینوں بچوں کی خالہ آگے بڑھی اور ان دو عورتوں نے مل کر جنگ زدہ علاقے کی طرف اپنے صلح کے سادہ مگر دل کو چھو لینے والے پیغام کے ساتھ دلیر ی سے قدم بڑھائے ۔
اس مختصر سی ابتداء سے آج ساری دنیا میں وہ کچھ ہوا جس کو شمالی آئر لینڈ کی امن تحریک کے نام سے جانا جاتاہے ۔1976 کا نوبیل انعام گھریلو خاتون بیٹی ولیمز اور تینوں بچوں کی خالہ مریڈ کو ریگن کو دیاگیا۔ یہ عورتیں اپنی مہم میں کیوں کامیاب ہوئیں اس کی وجہ یہ ہے کہ محاذ جنگ کے دونوں جانب اس کی آرزو نے جڑیں پکڑ لیں تھیں ۔ان دونوں عورتوں نے جو کچھ کہا وہ ہزاروں دلوں کے خیالات کی گونج تھیں۔ اس لیے وہ عام ذہانت کی ترجمان بن گئیں۔ انہوں نے غلط سمت سے شروعات کی۔ اوپر سے نہیں چالاک ذہنوں کے درمیان سے نہیں جو سیاسی بصیرت کے حامل تھے نہیں ، انہوں نے عام آدمی سے رابطہ کیا ایک کھر ے اور ساد ہ پیغام کے ساتھ ۔ انہوں نے کبھی اپنے کام کی مشکلات کی پرواہ نہیں کی۔ بس وہ اپنے کام میں جتی رہیں اس لیے کہ انہوں نے پورا یقین تھا کہ یہ کچھ ہے جس کی اشد ضرورت ہے ایک باہمت، بے غر ض ، عمل جو ہزاروں کے لیے روحانی فیضان ثابت ہوا جس نے ظلمت میں ایک شمع روشن کی جس نے ان لوگوں کو نئی امید دلائی جو سمجھتے تھے کہ ساری امیدیں ختم ہوچکی ہیں ۔ آج اگر ہم پاکستان میں امید کو ڈھونڈنے نکلیں تو ہر جگہ ہمارا استقبال مایوسی پہلے سے کررہی ہوگی ۔ ہم امید کو ملک میں کہیں بھی تلاش نہیں کر پائیں گے ۔ ہاں نا امیدی ،مایوسی اور بے بسی سے ہماری ملاقات نہ چاہتے ہوئے بھی باربار خود بخو د ہوتی چلی جائے گی۔ آج پاکستان میں سب بے بس ہیں ،سب خوفزدہ ہیں بے بسی اور خوف کا آپس میں کیا تعلق ہے آئیں اس نتیجے پر پہنچنے کی کو شش کرتے ہیں لیکن اس سے بھی پہلے بے بسی کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب آپ کسی ایسی صورتحال سے دو چار ہوجاتے ہیں جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ آپ کو دکھائی اور سجھائی نہیں دے رہی ہو اور آپ کا دل اور ذہن شل ہوکر آپ کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیں ۔ جب آپ کے دل اور ذہن میں ہولوں کاغبا ر گر دش کرنے لگے جب آپ کے اعصاب ، حوصلہ ، جذبہ ، ہمت آپ کے دشمن بن جائیں ۔ تو آپ بے بس ہوجاتے ہیں اور جب آپ بے بس ہوجاتے ہیں تو پھر اسی لمحے آپ کی تاک میں بیٹھے خوف آپ کو دبو چ لیتے ہیں۔ روزگار کا خوف ،بے عزتی کا خوف ، بے اختیاری کا خوف ، مہنگائی کا خوف ، پانی ، بجلی ، صحت کا خوف ،بیماریوں کے خو ف پھرآ پ کے اندر ننگا ناچنا شروع کردیتے ہیں اور پھر آپ ناامیدی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں ، آج ہم سب کو اپنی ناامیدی کے علاوہ اور کسی بات کا ہوش نہیں ۔ آج ہم سب اپنی اپنی نظروں میں بے تو قیر ہیں۔ سب سے زیادہ وحشت ناک صورتحال یہ ہے کہ ہم سب اس کو اپنی آخری منزل سمجھے بیٹھے ہیں ۔ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ ناامیدی کبھی آخری منزل نہیں ہوتی ۔جب امید مرتی ہے تو ناامیدی پیداہوتی ہے جب ناامیدی مرتی ہے تو ایک بار پھر امید پیدا ہوتی ہے ۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو بیٹی ولیمز اور مریڈ کوریگن کبھی بھی اس وحشت ، دہشت اور ناامیدی کے حالات میں اپنے گھروں سے نہیں نکلتیںاور کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتیں ۔
کیا ہم ان دونوں گھریلو خواتین سے بھی گئے گزرے ہوگئے ہیں ، جو ناامیدی ،مایوسی کے خلاف اور اپنی بے بسی کے خلاف اپنے گھروں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے خلاف بولنے، اٹھنے اور دوسروں کو آواز دینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔یاد رکھیں یہ زندگی آپ کو صرف ایک بار جینے کے لیے ملی ہے، اگر آپ ان ہی حالات میں زندہ رہنے پر اضی ہیں تو پھر الگ بات ہے اگر نہیں تو پھر شمالی آئرلینڈ کی ان دونوں گھریلو خواتین کی طرح بس آپ کو عام لوگوں کو آواز دینے کی ضرورت ہے پھرآپ دیکھیں گے کہ کس طرح عام لوگ آپ کا ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوتے ہیں کیونکہ ناامیدی کبھی آخری منزل نہیں ہوتی ۔یاد رکھیں عام لوگ آپ کی آواز کے منتظر ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کے لیے تیار نہیں ہوتی انہوں نے کے خلاف کا خوف

پڑھیں:

یہ دنیا بچوں کی امانت ہے

دنیا کے کیلنڈر پرکچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں صرف یاد نہیں دلاتے، جھنجھوڑتے ہیں۔ بیس نومبر بھی ایسا ہی دن ہے، بچوں کا دن۔ یہ دن خوشی کے نعروں، رنگ برنگے غباروں اور مسکراہٹوں کے ساتھ منایا جاتا ہے مگر ہم اپنے گرد دیکھیں، تو یہ مسکراہٹیں کتنی ناپید ہیں۔ یہ دن اس لیے منایا جاتا ہے کہ ہم بچوں کے حقوق ان کی معصومیت اور ان کے مستقبل کی حفاظت کریں مگر کیا واقعی ہم ایسا کر رہے ہیں؟

۱۹۵۴ء میں اقوامِ متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ ہر سال نومبر کی 20 تاریخ کو عالمی یومِ اطفال منایا جائے گا۔ مقصد یہ تھا کہ دنیا کے بچے صرف کسی ملک یا طبقے کی ذمے داری نہ رہیں بلکہ پوری انسانیت کی امانت ہوں۔

اسی دن ۱۹۵۹ء میں بچوں کے حقوق کا اعلامیہ منظور ہوا اور ۱۹۸۹ء میں اقوامِ متحدہ نے بچوں کے حقوق کا عالمی کنونشن اپنایا، وہ کنونشن جو آج تقریباً ہر ملک نے دستخط کیا ہے مگر جس کی روح اب تک بے سکونی میں تڑپ رہی ہے۔

یہ دنیا بچوں کی امانت ہے ہمارے پاس مگرکیا ہم نے اس امانت کا حق ادا کیا ہے؟ جب بھی یہ دن قریب آتا ہے، میرے ذہن میں ایک شور اٹھتا ہے۔ وہ بچوں کی ہنسی نہیں، ان کی چیخیں ہیں۔ مجھے غزہ کے بچے یاد آ جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں اب اسکول کے خواب نہیں دھماکوں کی چمک ہے۔ جن کے بستے ملبے تلے دب گئے اور جن کی انگلیاں قلم کے بجائے اینٹوں کے ٹکڑے تھامے ہوئے ہیں۔

مجھے سوڈان کے بچے یاد آ جاتے ہیں جو اپنے والدین سے بچھڑ گئے جو جنگ اور بھوک کے درمیان زندگی کی کشمکش میں ہیں۔ ان سب کے چہروں پر ایک سوال لکھا ہے کیا ہمارا بچپن اتنا سستا ہے کہ طاقتوروں کی لڑائیوں میں برباد کر دیا جائے؟

پھر میں اپنے وطن کی طرف دیکھتی ہوں، جہاں کروڑوں بچے اب بھی اسکول کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکے۔ یونیسیف کے مطابق ہمارے ملک میں تقریباً ۲۳ ملین بچے (یعنی پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تقریباً ۴۴ فیصد بچے) تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ یہ دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں سے ایک ہے۔

بلوچستان میں تقریبا 78 فیصد لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ سندھ میں غربت زدہ خاندانوں کے بچوں میں سے نصف اسکول سے باہر ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف نمبر نہیں، یہ گواہی ہیں کہ ہمارا نظام طبقاتی بنیادوں پر بچوں کو تقسیم کر چکا ہے۔

کچھ بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں آئی پیڈ پر پڑھتے ہیں اورکچھ دھوپ میں اینٹیں ڈھوتے ہیں۔ پھر بھوک کا المیہ ہے۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ۱۰ ملین بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔

تقریباً ۱۸ فیصد بچے شدید غذائی قلت (Severe Acute Malnutrition) میں مبتلا ہیں جو کسی بھی قوم کے لیے ایک المناک اشارہ ہے۔ کیا ہم سوچتے ہیں کہ ایک بھوکے بچے کے لیے دنیا کیسی ہوتی ہے؟ اس کے خواب کیسے اندھیری رات میں دفن ہو جاتے ہیں؟

یہ سب محض اتفاق نہیں یہ نظام کی پیداوار ہے۔ ایک ایسا نظام جو طاقتوروں کو اور طاقتور امیروں کو اور امیر اور غریبوں کے بچوں کو ہمیشہ محتاج بنائے رکھتا ہے۔ بائیں بازو کا نکتہ نظر یہ کہتا ہے کہ بچوں کے حقوق محض رحم یا خیرات کا مسئلہ نہیں یہ سماجی انصاف کا سوال ہے۔

اگر ریاست تعلیم کو حق کے بجائے کاروبار بنائے اگر علاج سرمایہ دار کی ملکیت ہو اگر روزگار کی تقسیم میں ناانصافی ہو تو پھر بچہ چاہے کسی بھی ملک میں پیدا ہو وہ اسی غلامی کی زنجیر کا حصہ بن جائے گا۔

بچوں کا دن صرف ہیپی چلڈرنز ڈے کہہ کر گزر جانے کا موقع نہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی برابری کی لڑائی بچپن سے شروع ہوتی ہے، اگر ایک بچہ بھوکا ہے، غیرتعلیم یافتہ ہے یا ظلم کے نیچے کچلا جا رہا ہے تو ہم سب اس جرم میں شریک ہیں، چاہے ہم خاموش ہی کیوں نہ رہیں۔

اقوامِ متحدہ کے کنونشن میں لکھا ہے کہ ’’ ہر بچہ زندگی، تعلیم، تحفظ اور ترقی کا حق رکھتا ہے۔‘‘ لیکن آج دنیا کے کئی خطوں میں بچہ صرف زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ غزہ ہو یا سوڈان یا کراچی کے کسی فٹ پاتھ پر بیٹھا وہ بچہ جو شیشے صاف کرتا ہے سب کی ایک ہی چیخ ہے ایک ہی سوال ہے، کیا ہم واقعی بچوں کا دن منانے کے قابل ہیں؟

 میں سوچتی ہوں شاید ہم اس دن کو جشن نہیں احتجاج بنا دیں۔ احتجاج اس نظام کے خلاف جو بچوں سے ان کا بچپن چھین لیتا ہے۔ احتجاج ان طاقتوں کے خلاف جو جنگوں کو استحکام کا نام دیتی ہیں اور احتجاج اپنے ضمیر کے خلاف جو خاموش رہنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

یہ دنیا ہمارے پاس بچوں کی امانت ہے، مگر اگر ہم نے اس امانت کو خون بھوک اور خوف میں لپیٹ دیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کیسے معاف کریں گی؟ یہ دن صرف بچوں کا دن نہیں انسانیت کے ضمیرکا دن ہے۔

ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک محفوظ کل دیں۔ ہم ایک ایسی دنیا بنائیں جہاں بچہ نہ صرف محفوظ ہو بلکہ جہاں اس کے سر پہ چھت ہو۔ وہ تعلیم حاصل کرسکے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہا ہو جہاں جنگ نہ ہو اور جہاں وہ خواب دیکھ سکے۔

لیکن ابھی بھی امید باقی ہے۔ پاکستان کے کچھ گوشوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو خاموشی کے بجائے عمل پر یقین رکھتے ہیں، وہ اساتذہ جو پہاڑی علاقوں میں بغیر تنخواہ کے بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ لڑکیاں جو خود مشکلات کے باوجود دوسری بچیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے مہم چلاتی ہیں وہ والدین جو اپنی بھوک برداشت کر کے بچوں کو کتاب خرید کر دیتے ہیں۔ 

یہی وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں روشنی بن سکتے ہیں، اگر ریاست ان چھوٹے چھوٹے خوابوں کا ساتھ دے تو شاید یہ ملک واقعی بچوں کے لیے ایک محفوظ گھر بن سکے۔

ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک ایک ایسی دنیا دیں جہاں بچہ نہ صرف محفوظ ہو بلکہ خوش بھی ہو۔ جہاں وہ خواب دیکھ سکے، محبت پا سکے اور جہاں کسی بچے کی آنکھ آنسوؤں سے نہیں بلکہ روشنی سے بھری ہو۔

متعلقہ مضامین

  • سنو تم ستارے ہو!
  • نفرت اور محبت
  •  پہلے ہم 26ویں ترمیم کو رو رہے تھے اب 27ویں ترمیم کو روئیں گے، ساری علی سید 
  • غزہ، انسانیت کا امتحان
  • کوچۂ سخن
  • ذرا سنبھل کے
  • ستائیسویں ترمیم
  • یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
  • ہیں کواکب کچھ