غزل
اوڑھے ہوئے ہے آج جو گردو غبار شخص
ہوتا تھا اپنی ذات میں باغ و بہار شخص
اک بار بھی نہ دیکھا اسے تو نے کم نظر
آتا رہا جو در پہ ترے باربار شخص
چہرہ بھی اپنا دیکھ نہ پایا تمام عمر
جو آئنوں کا کرتا رہا کاروبار شخص
اس سے بھی پوچھتے ہو مدد کیا کریں تری؟
جو ہے ضروریات کا اک اشتہار شخص
چھا جائے گا سکوت فضا میں چہار سمت
جب جائے گا جہان سے وہ بیقرار شخص
اپنا ہی دل نہیں ہے مرے اختیار میں
میں ہوں نگاہ غیر میں بااختیار شخص
آتے ہی رات ہوگیا تنہا جمیل ؔوہ
کرتا تھا سائے پر جو بڑا انحصار شخص
(صادق جمیل۔ لاہور)
غزل
قدم قدم پہ اذیت نے سر قلم کیا ہے
پھر اس کے بعد سخن ور نے مجھ پہ دم کیا ہے
میں جھیلتا چلا آیا ہوں جس کی وحشت کو
اسی کے خوف سے تصویر کو بہم کیا ہے
گرفت تھوڑی سی مربوط کر رہا ہوں میں دوست
مجھے خبر ہے کہ کس کس نے یہ کرم کیا ہے
سفر سے لوٹ کے آؤں گا اور دیکھوں گا
کہ کس نے منہ مرا نوچا ہے کس نے غم کیا ہے
ملے گا وقت تو سوچوں گا اس کے بارے میں
حضور آپ نے احساں جو دم بہ دم کیا ہے
طلسم گاہ سے آئیں گی جب صدائیں ندیمؔ
میں تب کہوں گا کہ میں نے بھی کچھ رقم کیا ہے
(ندیم ملک ۔ کنجروڑ، نارووال)
غزل
گھر سے باہر بھی تو آ سکتے ہیں
سر پرندے بھی اٹھا سکتے ہیں
حادثہ خواب میں ہو سکتا ہے
زخم بستر پہ بھی آ سکتے ہیں
میرے بارے میں بتائیں مجھ کو
آپ جتنا بھی بتا سکتے ہیں
ایسے چہرے ہیں مری نظروں میں
جو مری نیند اڑا سکتے ہیں
ایسے لگتا ہے پرندوں سے مجھے
یہ مرے خواب چرا سکتے ہیں
آپ سے اور توقع بھی نہیں
آپ بس آگ لگا سکتے ہیں
(بلال شافی۔ جڑانوالہ، فیصل آباد)
غزل
ضرورتوں کے بہاؤ میں خواب ڈوب گئے
نجانے کتنے ہی یوں آفتاب ڈوب گئے
تمہاری آنکھ کی کوئی بھی تاب لا نہ سکا
تمہیں تو تَک کے کئی ماہتاب ڈوب گئے
گلاب بیچنے والی ندی کنارے پر
یہ کہہ کے رو پڑی!’سارے گلاب ڈوب گئے‘
ہم اپنی آنکھ کے اُس معجزے پہ حیراں تھے
ہماری آنکھ میں جب کچھ چناب ڈوب گئے
کسی عجیب اداسی کی پہرے داری میں
سکوں کے ساتھ سبھی اضطراب ڈوب گئے
جدا پڑی تھی بدن سے ہر ایک کی گردن
لہو کے رنگ میں پھر انقلاب ڈوب گئے
پھر اُس کہانی کا انجام کس نے لکھنا تھا
وہ جس کے لکّھے ہوئے انتساب ڈوب گئے
میں شعر کہہ ہی رہا تھا کہ ایک دن شوزبؔ
صدا بھی ڈوب گئی،انتخاب ڈوب گئے
(شوزب حکیم۔شرقپور، ضلع شیخوپورہ)
غزل
زمیں پہ آنکھ رکھی آسماں پہ شعر کہے
فقیر ہو کے ترے آستاں پہ شعر کہے
گزر رہی تھی کسی دشتِ بے اماں میں حیات
سفر کے مارے ہوؤں نے مکاں پہ شعر کہے
بہت دنوں سے ترس آ رہا تھا خود پہ مجھے
سو آج زخم کو چوما، نشاں پہ شعر کہے
امر کیا ترے نقشِ قدم کو غزلوں سے
جہاں جہاں سے تُو گزری وہاں پہ شعر کہے
تمھاری آنکھ پہ مرتے ہوئے سپاہی کو
بدن پہ تیر لگا تو کماں پہ شعر کہے
ہمارے بعد بہاریں ہیں یہ کہا تھا نا؟
ہمارے بعد بتاؤ کہاں پہ شعر کہے
ہمارے خواب کا جب گھر نہیں بچا تو حسنؔ
شجر کو دل میں رکھا آشیاں پہ شعر کہے
(حسیب الحسن ۔خوشاب)
غزل
ایک بڑھاپا بچپن میں اترا اور ایک جوانی میں
ہم نے بھی ہر درد لگایا سینے سے، نادانی میں
آج بھی اس کے پیار کے جملے سبز ہیں اور سنہرے ہیں
آج بھی ایک نیا پن سا ہے اُس کی بات پرانی میں
ہم دونوں میں ایک ذرا سا فرق نہیں ملنے والا
تم چاہو تو دیکھو مجھ کو لے جا کر ویرانی میں
مجھ کو آسانی سے سننے تم تو قریب آ جاتی ہو
لیکن مجھ کو مشکل پڑ جاتی ہے اس آسانی میں
اب یہ تیری مرضی، اُس کو دیکھ یا اُس کی باتیں سُن
ایک فقیر ہے سامنے تیرے، اک درویش کہانی میں
رنگ سرابی، جسم فریبی، لب پر جھوٹ کا جھرنا ہے
آنکھوں جیسی سچی ایک بھی بات نہیں مر جانی میں
دریا اور میں، دونوں اُس کی گہرائی میں گم صم تھے
گہری لڑکی گہرا دیکھ رہی تھی گہرے پانی میں
(زین شکیل۔گجرات)
غزل
بے دلی تجھ سے مخاطب نہیں اے زندہ دل
اِس قدر خوف مناسب نہیں اے زندہ دل
یہ مشینوں کی بنائی ہوئی دنیا ہے یہاں
کسی پر کوئی بھی غالب نہیں اے زندہ دل
تجھے کیا موسموں کی دل کشی سے مطلب ہے
تیری جانب کوئی راغب نہیں اے زندہ دل
شاہ زادی کے لیے حفظِ مراتب اور ہیں
محض یہ پھول مناسب نہیں اے زندہ دل
ہر کسی سے نہ محبت سے یہاں پیش آؤ
لوگ اتنے بھی مہذّب نہیں اے زندہ دل
عیش و عشرت کی یہ خُو اپنے لیے اچھی نہیں
ہم کسی شہ کے مصاحب نہیں اے زندہ دل
شہر آباد کیے رکھنے سے کیا ہو گا اگر
ایک بھی شخص مہذّب نہیں اے زندہ دل
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)
غزل
کچھ لوگوں کی سوچیں اچھی لگتی ہیں
کچھ لوگوں کی باتیں اچھی لگتی ہیں
کچھ لوگوں کو منزل جان سے پیاری ہے
کچھ لوگوں کو راہیں اچھی لگتی ہیں
کچھ لوگوں سے دل کے رشتے ہوتے ہیں
کچھ لوگوں کی شکلیں اچھی لگتی ہیں
سب کو اپنا مذہب اچھا لگتا ہے
سب کو اپنی باتیں اچھی لگتی ہیں
کچھ لوگوں کو سورج اچھا لگتا ہے
کچھ لوگوں کو راتیں اچھی لگتی ہیں
جس کو دیکھ کے سکتہ طاری ہوجائے
اصغرؔ ایسی آنکھیں اچھی لگتی ہیں
(اصغر بھٹی ۔نارووال)
غزل
نہیں آئے گا وہ واپس خدارا بھول جاؤ اب
بھنور کی زد میں آئے ہو کنارا بھول جاؤ اب
اگرچہ زندگانی میں خسارے ہی خسارے ہیں
دلاتا وہ دلاسہ ہے خسارا بھول جاؤ اب
وہ مجھ سے آ کے کہتا ہے میں تیرا ہو نہیں سکتا
کیا جو تھا کبھی میں نے اشارا بھول جاؤ اب
کہا یہ خواب میں آ کر کہ میں تو لوٹ آیا ہوں
بناں میرے جو جو لمحہ گزارا بھول جاؤ اب
جو تارا رات کو تم دیکھتے تھے، مسکراتے تھے
وہ راتیں بھول جاؤ اب وہ تارا بھول جاؤ اب
وہ موجِ بیکراں جس میں تھا ساگرؔ کا جنوں شامل
نہیں مچلے گا پھر سے تم وہ دھارا بھول جاؤ اب
(رجب علی ساگر ۔ڈیرہ اسماعیل خان،پہاڑ پور)
غزل
آپ کے واسطے تو صرف بھرم رکھنا ہے
وہ کسی کے لیے تاروں پہ قدم رکھنا ہے
آپ کی مرضی ہے دوڑیں کہ افق پار اڑیں
ہاں مگر ایک قدم سوئے عدم رکھنا ہے
کار دنیا بھی تو ہوتا ہے محبت میں شمار
کتنا مشکل ہے کہ دونوں کو بہم رکھنا ہے
دید سے خالی ہی رکھنا ہے مری آنکھوں کو
اس نے ٹھانی ہے کہ صحراؤں کو نم رکھنا ہے
اب مرے زخم نہ گن، مجھ کو مرے حال پہ چھوڑ
تو نے کس کس پہ بھلا دست کرم رکھنا ہے
جینے والے سے اب اتنی بڑی امید نہ رکھ
اس نے تربت پہ تو اک پھول بھی کم رکھنا ہے
وقت تخلیق بھی شائق ؔنے بس آمین کہا
اس نے بتلایا یہاں دل نہیں غم رکھنا ہے
( شائق سعیدی ۔ رحیم یار خان)
غزل
دیکھتے ہو کہ کوئی دیکھنے والا تو نہیں
چاند ہے آنکھ میں یہ چاند کا ہالہ تو نہیں
پیاس کو باندھ لیا پیٹ پہ پتھر کرکے
میں نے دریا کو سمندر سے نکالا تو نہیں
خوگرِ حرص تجھے جان کے مفلس رکھا
میں نے سکے کو تری سمت اچھالا تو نہیں
میری سچائی ترے زہر میں شامل ہے میاں
میرا مٹی کا پیالہ بھی پیالہ تو نہیں
واقفِ ہجر نئے شعر سناتا ہوں تجھے
یہ حوالہ ہے مرا اور حوالہ تو نہیں
ساعتِ وصل گھڑی بھر ہی سجھائی دے دے
دشتِ ہجراں میں مگر اتنا اجالا تو نہیں
(سید فیض الحسن فیضی۔ پاکپتن)
غزل
میں ہر اک قافلے کے جسم و جاں میں خوفِ محشر ہوں
چلے جو چشمِ صحرا میں وہی میں بادِ صر صر ہوں
کھنکتا ہوں گلستاں میں گلِ تازہ کی نظروں میں
سمجھ لو برگِ آوارہ کی مانند ایک بے گھر ہوں
مرے درد و الم کا آپ کو اندازہ کیا ہوگا
میں جنت کے کسی گوشے کا اک برباد منظر ہوں
لرزتی آنکھ ہوں شاید کسی معصوم لڑکی کی
مجھے دیکھو میں اپنی ذات میں ہی خوفِ محشر ہوں
مری اس زندگی کی پائیداری ہے شہاب ؔاتنی
ہٹا دے گا کوئی آخر ترے رستے کا پتھر ہوں
(شہاب اللہ شہاب۔منڈا،دیر لوئر،خیبرپختونخوا)
غزل
باتوں میں گر نہ جن کی روایت دکھائی دے
ہر جا ،ہر مقام پہ ذلت دکھائی دے
شاید اس ایک شخص کا انداز ہو غلط
لیکن مجھے وہ نیک ہی نیت دکھائی دے
اکثر نفاق و جھوٹ میں پایا گیا ہے وہ
وحشت دکھائی دے کبھی دہشت دکھائی دے
ظاہر بنا لو کچھ بھی مگر غور سے سنو
انسان کی خلوص میں قیمت دکھائی دے
اچھے برے کا علم ہی انسان کو نہ ہو
ایسے میں بے وقار نصیحت دکھائی دے
احمق کی دوستی کا کوئی فائدہ نہیں
الٹا ہی یہ تو باعث ِزحمت دکھائی دے
محفل میں دوستوں کی تُو قاضی ؔضرور بیٹھ
لیکن پھر اٹھ کے بھاگ جو غیبت دکھائی دے
(قاضی محمد آصف ۔کراچی)
شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نہیں اے زندہ دل کچھ لوگوں کو بھول جاؤ اب دکھائی دے رکھنا ہے سکتے ہیں تو نہیں ڈوب گئے مجھ کو نہیں ا کیا ہے
پڑھیں:
بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ
امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں یہ بات تو کسی تردد کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ امریکا کی تاریخ میں ان جیسا صدر نہیں گزرا۔ امریکا کے اندر اور دنیا بھر میں سیاسی تجزیہ نگار اور مبصرین ان کے رویے اور بیانات پر حیران ہیں۔
امریکا میں تاثر عام ہے کہ صدر جھوٹ بولنے میں بلا کی مہارت رکھتے ہیں اور اس پر نادم بھی نہیں ہوتے۔ امریکا کے ایک مقبول اور ممتاز صدر آئزن ہاور کہا کرتے تھے کہ امریکا کے صدر کے پاس جو سب سے موثر ہتھیار ہے، وہ لوگوں کا اس کے منہ سے نکلی ہر بات پر اعتبار ہے۔ یہاں ٹرمپ کے معاملے میں صورت یہ ہے کہ ان کے منہ سے نکلے الفاظ کا اعتبار یہ بات طے کرتی ہے کہ وہ الفاظ کس کے بارے میں کہے گئے ہیں۔
آیا وہ دوست ہے یا دشمن‘ اپنی جماعت کا ہے کہ مخالف پارٹی کا۔ گو کہ صدر ٹرمپ کی اس طرح کی باتیں ایک عالمی طاقت کے سربراہ کو زیب نہیں دیتیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ان کی کہی ہوئی اکثر باتیں مزاحیہ پن کا شاہکار ہوتی ہیں اور سننے والا ان سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر اپنے عرصہ صدارت کے آغاز میں انھوں نے امریکا کے ایک مقبول ٹیلی ویژن ہوسٹ ’جو ساربروہ‘ کو قاتل قرار دے دیا۔
انتخابات ابھی ہوئے نہیں تھے لیکن ٹرمپ انھیں ’’عنقریب ہونے والے دھاندلی زدہ الیکشن‘‘ کہا کرتے تھے۔ پھر انھوں نے الزام لگا دیا کہ صدر اوباما ان کی انتخابی مہم کی جاسوسی کروا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے شاید امریکی تاریخ میں پیش آنے والے واٹر گیٹ اسکینڈل‘ کا تصور ہو جب امریکی صدر نکسن کو مخالف جماعت کی جاسوسی پر اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ ایک ایسے وقت پر جب دنیا کورونا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں تھی اور امریکا میں ہزاروں لوگ اس وباء کا شکار ہو کر ہلاک ہو رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ’’صرف وہی ڈیموکریٹ ایک اچھا ڈیموکریٹ ہے جو وفات پا چکا ہو‘‘۔ڈیمو کریٹ سے مراد مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا بندہ۔
"The only good democrat is a dead democrat" یہ بلاشبہ ایک سفاکانہ تبصرہ ہے۔
صدر ٹرمپ کا ایک اور ’’امتیاز‘‘ یہ ہے کہ آپ ان کی اگلی بات یا عمل کی پیشگوئی نہیں کر سکتے۔ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے ہی قائم کردہ کسی تاثر کے بالکل الٹ حرکت یا فیصلہ کر دیں۔ ابھی حال ہی میں جب فلسطین کے معاملے پر اہم مسلم ممالک کے سربراہان صدر ٹرمپ سے ملاقاتیں کر رہے تھے تو ترکی کے صدر اردوان سے ون ٹو ون ملاقات کے موقع پر دونوں صدور ساتھ ساتھ بیٹھ کر پریس سے مخاطب تھے۔
صدر ٹرمپ نے بات شروع کرتے ہوئے کہا ’’صدر اردوان میرے قریبی دوست ہیں۔ گزشتہ چار برس سے ہم ایک دوسرے کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ جب مجھے ایک دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے سیاست سے دیس نکالا دے دیا گیا‘‘ … یہاں ٹرمپ ڈرامائی انداز میں رکتے ہیں اور صدر اردوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’دھاندلی زدہ الیکشن کے بارے میں آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔‘‘حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت بھی صدر ٹرمپ کی گفتگو کا خاص موضوع رہے‘ بالخصوص دونوں ملکوں میں ہونے والی 4 روزہ جنگ پر صدر ٹرمپ نے بہت دلچسپ تبصرے کیے۔ پہلے تو انھوں نے جنگ رکوانے کو اپنا کارنامہ قرار دیا اور ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو دنیا بڑے خطرے سے دوچار ہو جاتی۔
دو روز قبل میامی میں امریکن بزنس فورم سے خطاب میں انھوں نے کہا ’’گزشتہ آٹھ مہینوں میں‘ میں نے آٹھ جنگیں ختم کروائی ہیں‘‘۔ ان میں سے آخری جنگ پاکستان اور بھارت کی تھی۔ پھر فرمایا ’’میں دونوں ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدے کے قریب تھا کہ ایک اخبار کی شہہ سرخی میں دونوں ملکوں کی جنگ کی خبر تھی‘ اخبار کا نام نہیں لوں گا کیونکہ یہ اکثر جھوٹی خبریں چھاپتا ہے‘ پھر پتہ چلا کہ واقعی جنگ ہو رہی ہے۔ آٹھ طیارے…سات طیارے تو گرا دیے گئے۔ آٹھواں شدید زخمی تھا … یہی کہنا بنتا کہ آٹھ طیارے گرے۔‘‘ اور پھر انھوں نے وہی بات دھرائی کہ میں نے دونوں ملکوں سے کہا کہ جنگ کرو گے تو تجارتی معاہدہ نہیں ہو گا۔
ان دنوں انھوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کی سُبکی کا کوئی موقع نہیں جانے دیا اور پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ حتی کہ اس تاثر کے زیر اثر نریندر مودی نے ٹرمپ کے سامنے نہ آنے کی شعوری کوشش شروع کر دی۔ لیکن کہانی میں اب ایک اور ڈرامائی موڑ آ چکا ہے۔ امریکا اور بھارت کے درمیان عسکری تعاون کا دس سالہ معاہدہ ہو گیا ہے۔
دونوں ملکوں کے وزراء دفاع نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ ایسے وقت ہوا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملات کو طے کرنے کے لیے بات چیت آخری مراحل میں ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکا کی طرف سے بھارت پر بھاری محصولات عائد کرنے کا معاملہ بھی بھارت کی سہولت کے مطابق طے پا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کی ان ڈرامائی حرکتوں سے ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکا سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کی دوڑ شروع کرانا چاہتے ہیں۔ طیارے گرنے کے بار بار ذکر کے بعد اب امریکا بھارت معاہدے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ بھارت کو امریکی اسلحے تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے اور اس کے لیے جدید ترین امریکی طیارے F-35 ملنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔
اسی طرح امریکا کی کوشش ہو گی کہ اسلحہ کے لیے بھارت کے روس پر انحصار کو ختم کرا دے۔ نئی صورتحال میں پاکستان اور چین کے لیے پیغام ہے کہ خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے بھارت پر امریکی انحصار کا تصور برقرار ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ امریکی مفاد میں کسی نئی جنگ یا محاذ آرائی کا حصہ نہ بنے۔