رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، ایک مختصر تجزیہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران اور امریکہ کے درمیان اختلافات کسی خاص شخصیت یا ایک مخصوص ریاست سے نہیں ہے بلکہ یہ تصادم عالمی نقطہ نظر، اقدار، اسٹریٹجک مفادات اور عالمی نظام کی شناخت اور جہان بینی میں تصادم کی بدولت ہے۔ جب تک امریکہ دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے، ایران کی قومی خود مختاری کو پامال کرنے اور اسلامی جمہوریہ کے اصولوں پر مبنی طرز عمل کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا اور جب تک اسلامی جمہوریہ آزادی، مزاحمت اور انصاف کے حصول جیسے اصولوں پر اصرار کرتا رہے گا، یہ اختلاف باقی رہے گا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے اس خطاب کا لب لباب بھی یہی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
یوم طلبہ اور سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی نے پیر 3 نومبر 2025ء کی صبح ملک کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس اور اسی طرح مسلط کردہ بارہ روزہ جنگ کے کچھ شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات کے دوران اپنے خطاب میں ایران کے ساتھ تعاون میں دلچسپی کے بعض امریکی عہدیداروں کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ تعاون، ملعون صیہونی حکومت کے ساتھ امریکا کے تعاون اور مدد سے میل نہیں کھاتا۔ انھوں نے عالمی رائے عامہ میں صیہونی حکومت سے نفرت اور اس کی مذمت کے باوجود امریکا کی جانب سے اس حکومت کی مدد، پشت پناہی اور حمایت جاری رہنے کے بعد بھی ایران کے ساتھ تعاون کی درخواست کو لایعنی اور ناقابل قبول قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ اگر امریکا صیہونی حکومت کی پشت پناہی پوری طرح سے چھوڑ دے، خطے سے اپنے فوجی اڈوں کو ختم کر دے اور اس علاقے میں اپنی مداخلت بند کر دے تو اس مسئلے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت اور مستقبل قریب میں نہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کے ماضی اور اسی طرح 4 نومبر 1979ء کو امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی جوانوں کے ہاتھوں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے واقعے کا تاریخی اور ماہیتی پہلو سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے تاریخی پہلو سے اسٹوڈنٹس کے اس شجاعانہ اقدام کو ایرانی قوم کے فخر اور فتح کا دن قرار دیا اور کہا کہ ایران کی تاریخ میں، فتح کے دن بھی ہیں اور کمزوری کے بھی اور دونوں کو قومی حافظے میں محفوظ رہنا چاہیئے۔ انھوں نے اس بڑے واقعے کے ماہیتی پہلو کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارتخانے پر قبضے نے امریکی حکومت کی ماہیت اور اسی طرح اسلامی انقلاب کی حقیقی ماہیت کو عیاں کر دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے آپ کو برتر سمجھنے کے معنی میں قرآن میں استعمال ہونے والے لفظ "استکبار" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی زمانے میں برطانیہ جیسی اور آج کل امریکا جیسی کوئی حکومت اس بات کو اپنا حق سمجھتی ہے کہ اقوام کے حیاتی مفادات کو لوٹ کر ان پر حکم چلائے یا کسی ایسے ملک میں جہاں مضبوط حکومت اور ہوشیار عوام نہیں ہیں، اپنے فوجی اڈے قائم کرے اور اقوام کے تیل اور دیگر ذخائر کو لوٹے اور یہ وہی استکبار یا سامراج ہے، جس کے ہم دشمن ہیں اور جس کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ انھوں نے ایران میں دسیوں سال پہلے مصدق کی حکومت کو گرانے کے لیے برطانیہ اور اس کے ہمنواؤں کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، برطانیہ سے بچنے کے لیے ان کی جانب سے امریکا سے مدد مانگنے میں ان کی سادہ لوحی اور غفلت کی یاد دہانی کرائی اور کہا کہ امریکیوں نے مصدق کو بھروسہ دلایا، لیکن ان کی پس پشت انھوں نے انگریزوں سے ہاتھ ملا کر بغاوت کرائی اور ایران کی قومی حکومت کو گرا کر ملک سے فرار ہوچکے شاہ کو ایران میں واپس لوٹایا۔
انھوں نے امریکی سینیٹ میں ایران کے خلاف پاس ہونے والے معاندانہ بل کو اسلامی انقلاب سے امریکا کا پہلا ٹکراؤ بتایا اور محمد رضا کو امریکا میں آنے دینے پر ایرانی رائے عامہ کے غیظ و غضب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کو محسوس ہوا کہ امریکی اپنے ملک کو شاہ کو بسا کر، ایک بار پھر ایران میں بغاوت کرانا اور شاہ کو واپس لوٹانا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ طیش میں سڑکوں پر آگئے اور ان کے اور اسٹوڈنٹس کے مظاہروں کا ایک حصہ، امریکی سفارتخانے پر قبضے پر منتج ہوا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ابتدا میں اسٹوڈنٹس صرف دو تین دن سفارتخانے میں رہنا اور دنیا کے سامنے صرف ایرانی قوم کے غصے کا اظہار کرنا چاہتے تھے، لیکن انھیں سفارتخانے میں ایسے دستاویزات ملے، جن سے پتہ چلا کہ معاملہ تصور سے کہیں آگے کا ہے اور امریکی سفارتخانہ، انقلاب کو ختم کرنے کی سازشوں کا مرکز ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے دنیا میں سفارتخانوں کے معمول کے کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارتخانے کا مسئلہ، معلومات اکٹھا کرنے کا نہیں تھا بلکہ امریکی سازشوں اور چالوں کا ایک مرکز بنا کر انقلاب کے خلاف کارروائی کے لیے شاہ کی حکومت کی باقیات، فوج کے بعض افراد اور کچھ دوسرے لوگوں کو اکٹھا کرنا چاہ رہے تھے اور جب اسٹوڈنٹس کو یہ پتہ چلا تو انھوں نے سفارت خانے کو اپنے قبضے میں باقی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے امریکی سفارتخانے پر قبضے کو ایران اور امریکا کے درمیان مسائل کی شروعات بتائے جانے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ امریکا کے ساتھ ہمارا مسئلہ 4 نومبر 1979ء کو نہیں بلکہ 19 اگست 1956ء کو شروع ہوا تھا، جب برطانیہ اور امریکا نے مصدق کے خلاف بغاوت کرائی تھی۔ اس کے علاوہ امریکی سفارتخانے پر قبضے کی وجہ سے انقلاب کے خلاف بہت گہری سازش اور خطرے کا پتہ چلا اور اسٹوڈنٹس نے یہ اہم کام کرکے اور دستاویزات کو اکٹھا کرکے اس سازش کو بے نقاب کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب سے دشمنی اور اس کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کی اصل وجہ، امریکا کے منہ سے ایک شکار کا نکل جانا اور ایران کے ذخائر پر سے امریکا کا تسلط ختم ہو جانا بتایا اور کہا کہ وہ اتنی آسانی سے ایران کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے اور اسی لیے انھوں نے شروع سے ہی نہ صرف اسلامی جمہوریہ کے خلاف بلکہ ایرانی قوم کے خلاف اپنی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے انقلاب کے بعد کے برسوں میں ایرانی قوم کے خلاف امریکا کی لگاتار دشمنی کو امام خمینی کے اس جملے کی حقانیت کی نشانی بتایا کہ "آپ جتنا بھی برا بھلا کہنا چاہتے ہیں، امریکا کو کہیں۔" انھوں نے کہا کہ امریکا کی دشمنی صرف زبانی نہیں تھی بلکہ امریکیوں نے ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے کے لیے پابندی، سازش، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی مدد، ایران پر حملے کے لیے صدام کو ترغیب دلانے اور اس کی حمایت، تین سو افراد کے ساتھ ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرانے، پروپیگنڈوں کی جنگ اور براہ راست فوجی حملے جیسا ہر کام کیا، کیونکہ امریکا کی ماہیت، اسلامی انقلاب کی خود مختارانہ ماہیت سے میل نہیں کھاتی اور امریکا اور اسلامی جمہوریہ کا اختلاف کوئی ٹیکٹکل اور جزوی اختلاف نہیں بلکہ بنیادی اور وجودی اختلاف ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے بعض لوگوں کی طرف سے "امریکا مردہ باد" کے نعرے کو ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کی وجہ قرار دیے جانے کو تاریخ کو الٹا لکھنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ یہ نعرہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے امریکا ہماری قوم سے ٹکرا جائے، اسلامی جمہوریہ سے امریکا کا اصل مسئلہ، ماہیت کا اختلاف اور مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ انھوں نے بعض لوگوں کے اس سوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہم امریکا کے سامنے نہیں جھکے، لیکن کیا ابد تک ہمارے اس سے تعلقات نہیں ہوں گے؟ کہا کہ امریکا کی سامراجی ماہیت، فریق مقابل کے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کسی بھی دوسری چیز کو نہیں مانتی اور یہ چیز سبھی امریکی سربراہان مملکت چاہتے تھے، لیکن زبان پر نہیں لاتے تھے، تاہم ان کے موجودہ صدر نے یہ بات کھل کر زبان سے کہہ دی اور امریکا کے باطن پر پڑا ہوا پردہ ہٹا دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اتنی زیادہ توانائی، ثروت، فکری و نظریاتی ماضی اور ذہین و پرجوش نوجوان رکھنے والی ایرانی قوم سے سرینڈر ہو جانے کی توقع رکھنے کو فضول بتایا اور کہا کہ مستقبل بعید کے بارے میں تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس وقت سبھی جان لیں کہ بہت سے مسائل کا علاج، طاقتور بننا ہے۔ رہبر انقلاب نے اس خطاب میں انقلاب اور امریکہ دشمنی کی ماہیت کو بیان فرمایا ہے اور اس دشمنی کی وجوہات پر موجودہ صورتحال کے تناظر میں روشنی ڈالی ہے۔ امریکہ کے ساتھ ایران کا اختلاف کیوں اور کس لئے ہے؟ بین الاقوامی تعلقات کے تجزیے میں، بعض اوقات اختلافات اور محاذ آرائی محض عارضی ہوتی ہے، جو حکمت عملی میں تبدیلی سے حل ہو جاتی ہے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے درمیان تصادم میں، ہمیں ایک گہرے اور ملٹی ڈائیمینشن (کثیرالجہتی) رجحانات کا سامنا ہے۔ رہبر معظم انقلاب کے بقول بڑا فرق "اندرونی و ماہیتی فرق" ہے۔
رہبر انقلاب کے یہ دانشمندانہ الفاظ امریکہ سے دہائیوں کی کشیدگی اور محاذ آرائی کو سمجھنے کی کلید ہیں۔ لیکن اس اندرونی فرق کا اصل مطلب کیا ہے اور یہ کس سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔؟
1۔ دونوں حکومتوں کی فلسفیانہ بنیادوں میں تصادم کی بدولت، یعنی آزادی بمقابلہ تسلط۔
2۔ شناخت اور اقدار میں تصادم کی بدولت، یعنی خالص اسلام بمقابلہ سیکولر لبرل جمہوریت۔
3۔ تزویراتی مفادات میں تصادم کی وجہ سے، یعنی مزاحمت کا خطہ بمقابلہ بالادستی یا تسلط کا نظام۔
4۔ تاریخی واقعات اور گہری جڑوں والا عدم اعتماد، یعنی امریکہ کے ایران مخالف ماضی کے جرائم۔
ایران اور امریکہ کے درمیان اختلافات کسی خاص شخصیت یا ایک مخصوص ریاست سے نہیں ہے بلکہ یہ تصادم عالمی نقطہ نظر، اقدار، اسٹریٹجک مفادات اور عالمی نظام کی شناخت اور جہان بینی میں تصادم کی بدولت ہے۔ جب تک امریکہ دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے، ایران کی قومی خود مختاری کو پامال کرنے اور اسلامی جمہوریہ کے اصولوں پر مبنی طرز عمل کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا اور جب تک اسلامی جمہوریہ آزادی، مزاحمت اور انصاف کے حصول جیسے اصولوں پر اصرار کرتا رہے گا، یہ اختلاف باقی رہے گا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے اس خطاب کا لب لباب بھی یہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارتخانے پر قبضے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے میں تصادم کی بدولت اسلامی جمہوریہ کے ایرانی قوم کے کہا کہ ایران خامنہ ای نے کرتا رہے گا اور امریکا اور کہا کہ امریکا کے کہ امریکی اصولوں پر امریکا کی سے امریکا کہ امریکا امریکہ کے کے درمیان ایران اور انقلاب کے کی سازشوں ایران کے ایران کی قرار دیا حکومت کی انھوں نے کو ایران اور اسی کے ساتھ کے خلاف کی وجہ کے لیے اور اس ہے اور
پڑھیں:
ایک یمنی کا بے باک تجزیہ
اسلام ٹائمز: ڈاکٹر الحوثی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکی، برطانوی اور اسرائیلی انٹیلی جنس رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کی موت کا باضابطہ اعلان کریں اور امریکہ، برطانیہ یا اسرائیل کی فوجی، سیاسی یا اقتصادی مدد کے بغیر بلا مشروط اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں، کیونکہ اب حقیقت میں امریکی اور اسرائیلی فوجیں مدد فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہوں نے اس مضمون میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرف سے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف اب کوئی بھی فوجی مہم جوئی ان ممالک کے حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
جدید تاریخ میں مغرب اور عرب دنیا کے تعلقات ہمیشہ مفادات اور طاقت کے توازن پر مبنی رہے ہیں۔ جب بھی یہ توازن مغرب کے نقصانات کی طرف منتقل ہوا ہے، ان کی سیاسی اور عسکری حکمت عملی بھی تبدیل ہوئی ہے۔ آج مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے خطے میں برسوں کے طویل اور مہنگے تنازعات کے بعد، بڑی طاقتوں کے رویئے میں تھکاوٹ اور دوبارہ سوچنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یہاں تک کہ اسرائیل بھی اب علاقائی تنازعات میں براہ راست ملوث ہونے کو تیار نہیں ہے اور محفوظ فاصلے سے تبدیلیوں کی رہنمائی کو ترجیح دیتا ہے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی کا تجزیہ قابل غور ہے۔ موجودہ سیاسی موڑ اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے مستقبل نیز یمن کے خلاف جنگ کے اثرات کیا رخ اختیار کریں گے، اس بارے میں اس تجزیہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ یمن میں انصار اللہ (حوثی) اور یمنی مسلح افواج کے مقابلے میں سعودی عرب، امارات اور قطر کو اب عسکری، سیاسی اور اقتصادی مدد فراہم کرنے سے گریز کریں گے۔ وہ سابقہ تنازعات میں شکست کھا چکے ہیں اور اب امریکہ، برطانیہ اور اسرائیلی فوجیں یمن کے ساتھ جنگ کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان ممالک کی افواج اور سکیورٹی اداروں کی طرف سے شائع ہونے والی خفیہ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یمن کے خلاف جنگ کو ایک لا حاصل جنگ سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر الحوثی اپنے تجزیئے میں بتاتے ہیں کہ یہ رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ سعودی عرب کو چاہیئے کہ وہ جلد از جلد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے اور امریکہ سے بغیر کسی حمایت اور توقع کے اسے یہ اقدامات انجام دینا ہوگا۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے محمد بن سلمان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سعودی عرب پر حکومت کرنے کی خواہش ترک کر دیں اور آل سعود خاندان کو ان کی جگہ نیا حکمران منتخب کرنا چاہیئے۔
یہی بات متحدہ عرب امارات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ محمد بن زاید کو مستعفی ہونا چاہیئے اور اسے اپنا ایک جانشین انتخاب کرنا چاہیئے۔ قطر میں تمیم بن حمد کو مستعفی ہونا چاہیئے اور ایک مناسب جانشین کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ یہ اقدامات امن کے ذریعے یا عوامی انقلاب کے ذریعے انجام پانے چاہئیں۔ یمنی تجزیہ نگار کے مطابق امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، فرانس اور جرمنی کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی محمد بن سلمان کو اپنے مرحوم والد کی جگہ سعودی عرب کا بادشاہ تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ شاہ سلمان کا انتقال ایک سال سے زائد عرصہ قبل ہوا تھا، لیکن محمد بن سلمان نے اپنے خلاف بغاوت کے خدشے کے پیش نظر اپنے والد کی موت کا باضابطہ اعلان کرنے اور ان کی جانشینی کے لیے شاہی فرمان جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ڈاکٹر الحوثی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکی، برطانوی اور اسرائیلی انٹیلی جنس رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کی موت کا باضابطہ اعلان کریں اور امریکہ، برطانیہ یا اسرائیل کی فوجی، سیاسی یا اقتصادی مدد کے بغیر بلا مشروط اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں، کیونکہ اب حقیقت میں امریکی اور اسرائیلی فوجیں مدد فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہوں نے اس مضمون میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرف سے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف اب کوئی بھی فوجی مہم جوئی ان ممالک کے حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ الحوثی کے مطابق یمنی مسلح افواج سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دارالحکومتوں میں چند دنوں یا اس سے بھی کم یعنی چند گھنٹوں میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔یمنی فورسز بڑی آسانی سے تیل کی تنصیبات، آرامکو، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں اور سعودی اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کا کنٹرول حاصل کرسکتی ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی مزید لکھتے ہیں: سعودی عرب نے یمن میں جن گروہوں پر انحصار کیا ہے، جیسے کہ سیاسی قیادت کونسل، طارق افش، العرادہ اور الاصلاح پارٹی، یہ سب بدعنوان گروہ ہیں اور سعودی پیسہ ہڑپ کر رہے ہیں۔ یہ یمن کی حفاظت یا حوثی اور یمنی افواج کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اتحادی بھی کرائے کی خواتین سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ دوسری جانب امریکی، برطانوی اور اسرائیلی فوجیں صنعا کے ساتھ کوئی نیا ایڈونچر کرنے کو تیار نہیں ہیں، خاص طور پر حوثیوں کی فوجی، میزائل اور بحری صلاحیتوں میں اضافے کے بعد امریکا، برطانیہ اور حتیٰ کہ اسرائیل بھی خوفزدہ ہے۔ اس یمنی مصنف کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ بھی صنعاء کے ساتھ کوئی نیا ایڈونچر کرنے کے قابل نہیں ہے اور امریکی فوج، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی آمرانہ اور جابر حکومتوں کی جانب سے کوئی نئی جنگ لڑنے پر آمادہ نہیں ہوگی۔