محترمہ شین فرخ گنتی کی ان چند خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی مرضی سے شعبہ صحافت کا انتخاب کیا۔ صحافت کے تمام اتار چڑھاؤ برداشت کیے مگر زندگی کی آخر رمق تک صحافت سے منسلک رہیں۔ ش، فرخ ایک صحافی کے علاوہ ایک ترقی پسند ادیبہ بھی تھیں۔ ش فرخ پنجاب میں پیدا ہوئیں۔
انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے جغرافیہ کے مضمون میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ شین نے پہلے شعبہ تدریس کو اختیار کیا۔ انھیں ساہیوال کے گرلز کالج میں لیکچرار کی ملازمت مل گئی۔ شین فرخ کا تعلق اگرچہ ایک قدامت پرست خاندان سے تھا مگر ان کے والد ایک روشن خیال انسان تھے۔ وہ زندگی میں کچھ کرنا چاہتی تھیں ، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اس ملازمت کو خیر آباد کہا اور کراچی چلی آئیں۔
کامرس کے شعبہ میں کمرشل جغرافیہ کے مضمون کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی، یوں انھیں کراچی کے اسلامیہ کالج میں ملازمت مل گئی، مگر وہ جلد ہی اس کام سے اکتا گئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب روزنامہ مشرق کے بانی عنایت اللہ خواتین کا پہلا اخبار ’’ اخبارِ خواتین‘‘ شایع کر رہے تھے۔ اخبارِ خواتین کی پہلی ٹیم میں معروف صحافی فرہاد زیدی، مسرت جبیں اور حسن عابدی بھی شامل تھے۔ فرہاد زیدی اور مسرت جبیں کے کچھ عرصہ بعد عنایت اللہ سے اختلافات پیدا ہوئے اور پھر ترقی پسند ادیب و دانشور حسن عابدی اخبار کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ حسن عابدی کی زندگی کا بیشتر حصہ بائیں بازو کے معروف دانشور ادیب سید سبط حسن اور عظیم شاعر فیض احمد فیض کی صحبت میں گزرا تھا، یوں حسن عابدی نے اخبار خواتین کو صرف خواتین کی سرگرمیوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اخبار خواتین میں حالاتِ حاضرہ، تاریخ، سماجیات، فلم اور فن کے بارے میں خبریں، آرٹیکلز اور کالمز شایع ہوتے تھے۔
شین فرخ نے بھی اخبار خواتین میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس وقت شمیم اختر، معروف ایکٹیوسٹ انیس ہارون ، زاہدہ حنا، راشدہ حسن اور نوشابہ زبیری بھی اس ٹیم کا حصہ تھیں۔ شین فرخ ترقی کرتے کرتے اس اخبار کے ایڈیٹرکے عہدے پر فائز ہوئیں۔ جب پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں نیشنل پریس ٹرسٹ کو ختم کیا گیا تو اخبار خواتین بھی اس صورتحال کا شکار ہوا۔ شین فرخ کو کراچی سے شایع ہونے والے اخبار روزنامہ مشرق میں سٹی ایڈیٹر کی اسامی کی پیش کی گئی۔ شین فرخ ایک ذہین اور محنت خاتون تھیں۔
وہ کام کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور نہیں کرسکتی تھیں، یوں انھوں نے یہ چیلنج قبول کیا۔ وہ ایسے وقت روزنامہ مشرق کی سٹی ایڈیٹر بنیں جب کراچی شہر شدید بدامنی کا شکار تھا۔ خاص طور پر شام کی شفٹ میں کا م کرنے والے صحافیوں کو شدید دباؤ کا سامنا تھا مگر شین نے بہادری سے اسی طرح فرائض انجام دیتی رہیں جس طرح مرد صحافی انجام دیے تھے۔ انھوں نے گلشن اقبال بلاک 4 میں صحافیوں کو ملنے والے پلاٹ پر ایک گھر تعمیر کیا تھا۔ گلشن اقبال سے شاہراہ فیصل آنا اور جانا ایک مشکل ترین کام تھا۔ شین فرخ مشکل کام کرنے کی عادی تھیں، یوں وہ مشرق میں کام کرتی رہیں۔ شین فرخ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں متحرک رہیں۔
وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کراچی پریس کلب کے مختلف عہدوں پر کئی بار منتخب ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں عظیم صحافی منہاج برنا کی قیادت میں پی ایف یو جے میں کام کرنا اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنا تھا، خاص طور پر نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات میں کام کرنے والوں کے لیے حالات زیادہ خطرناک تھے مگر شین فرخ نے کبھی اس پرواہ نہیں کی۔ شین فرخ ایک ترقی پسند سوچ کی مالک تھیں۔ معروف وکیل عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر مبشر حسن، معروف دانشور آئی اے رحمن، ڈاکٹر ہارون، کرامت علی، انیس ہارون اور محمد تحسین کی طرح وہ اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان مستقل رابطوں اور دوستی سے دونوں ممالک میں غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور یہ خطہ ترقی کی کرسکتا ہے۔
اس لیے وہ پاک انڈیا پیپلز فورم کے پلیٹ فارم پر متحرک رہیں۔ فورم کے اکابرین کی کوششوں سے دونوں ممالک کی حکومتوں نے عام آدمی کے لیے ویزے حاصل کرنے کی سہولت بہت آسان کردی۔ شین فرخ ہمیشہ سے خوب صورت افسانہ نگار کی حیثیت سے معروف تھیں۔ انھوں نے پانچ کے قریب کتابیں تحریر کیں۔ عظیم ادیب انتظار حسین نے ان کی خود نوشت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
دراصل یہ خود نوشت ایک آزاد خیال عورت کی المیہ کہانی کے طور پر زیادہ بہتر پڑھی جا سکتی ہے۔ شین کے دکھ اُس وقت شروع ہوتے ہیں جب اُسے یہ احساس ہوتا ہے کہ خاندانی بندھنوں کی زنجیروں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب وہ ان زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔
شین فرخ نے اپنی زندگی میں ہی بذریعہ وصیت اپنے گھر کو شین فرخ ٹرسٹ بنایا۔ شین نے اپنی خود نوشت میں آخری جملہ یہ لکھا تھا ’’ میں نے ہار نہیں مانی‘‘ یہی سچائی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اخبار خواتین انھوں نے میں کام میں کا
پڑھیں:
پنجاب کے اہم شہر میں نادرا کا خواتین کیلئے پہلا مخصوص رجسٹریشن سینٹر قائم
ویب ڈیسک: نادرا نے جنوبی پنجاب میں پہلا خواتین کے لیے مخصوص رجسٹریشن سینٹر قائم کر دیا۔
نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے جنوبی پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان میں اپنا پہلا خواتین کے لیے خصوصی رجسٹریشن سینٹر قائم کر دیا ہے۔
یہ سینٹر خواتین کو ایک محفوظ، آرام دہ اور باعزت ماحول فراہم کرے گا جہاں وہ بآسانی شناختی کارڈ، فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ، اور بچوں کے اندراج جیسے تمام خدمات حاصل کر سکتی ہیں۔
بجلی کے بلوں کی ادائیگی؛ صارفین کو بڑا ریلیف مل گیا
نیا نادرا سینٹر مرکز مال آف ڈی جی خان، گارڈن ٹاؤن، ملتان روڈ پر بنا گیا ہے۔
نادرا کے مطابق اس سہولت کا مقصد خواتین کو بااختیار بنانا اور انہیں رجسٹریشن کے عمل میں خودمختاری فراہم کرنا ہے تاکہ وہ شناخت حاصل کرنے میں کسی رکاوٹ یا ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوں۔
شناختی دستاویزات محض کاغذ نہیں بلکہ یہ خواتین کے لیے مالی خودمختاری، جائیداد کے حقوق اور سیاسی شناخت کی بنیاد ہیں، نادرا نے اس اقدام کے ذریعے خواتین کو قانونی اور سماجی طور پر بااختیار بنانے کی نئی راہ ہموار کی ہے۔
ماس ٹرانزٹ سسٹم کا ٹی کیش کارڈ مہنگا ہوگیا
یہ اقدام نادرا کے اس وسیع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت ملک بھر میں صنفی حساس خدمات کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ خواتین کو قومی رجسٹریشن اور سماجی ترقی کے مواقع تک آسان رسائی حاصل ہو سکے۔