نوابشاہ ،والدین میں تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی فیسوں پر تشویش
اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نواب شاہ( نمائندہ جسارت) شہر بھر کے والدین طلبہ نے نجی تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی بے ضابطگیوں، غیر واضح فیسوں اور شفافیت سے محروم مالی نظام کے باعث گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر ایک ایسا ڈیجیٹل فیس مانیٹرنگ سسٹم متعارف کروایا جائے جو تمام نجی اسکولوں کو ایک ہی مرکزی نظام سے منسلک کرے اور فیسوں کے نظم و ضبط کو مکمل طور پر قابلِ نگرانی بنا دے۔ والدین کے مطابق اس قسم کا نظام نہ صرف اسکولوں کے مالی امور میں شفافیت لائے گا بلکہ من مانی وصولیوں اور قانون شکنی کے دروازے بھی بند کرے گا۔والدین نے کہا کہ کئی نجی اسکول فیسوں میں اپنے طور پر اضافہ کر دیتے ہیں، جب کہ 2001ء کے قوانین اور 2005ء کے رولز واضح طور پر پابند کرتے ہیں کہ کوئی بھی ادارہ ڈائریکٹر ایجوکیشن پرائیوٹ کی منظوری کے بغیر فیس میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود متعدد اسکول نہ تو منظوری لیتے ہیں اور نہ ہی اس تبدیلی کو نوٹس بورڈ پر آویزاں کرتے ہیں، جس سے والدین کو بروقت آگاہی نہیں ملتی اور انہیں غیر ضروری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ والدین نے اسکولوں کے فیس اسٹرکچر کی وہ تفصیلات بھی سامنے رکھیں جو ان کے مطابق ہر ادارے کو شفاف انداز میں والدین کے سامنے رکھنی لازمی ہیں۔ ان میں داخلہ فیس شامل ہے جو صرف ایک مرتبہ لی جاتی ہے اور اس میں اضافہ جائز نہیں۔ رجسٹریشن فیس نئے داخلے کے وقت لی جاتی ہے لیکن والدین کے مطابق کئی اسکول اسی عنوان کے تحت اضافی رقوم بھی وصول کرتے ہیں۔ ماہانہ ٹیوشن فیس میں اضافہ صرف ڈائریکٹر ایجوکیشن کی تحریری اجازت کے بعد سالانہ 10 سے 15 فیصد تک کیا جا سکتا ہے، مگر اکثر اسکول اس بنیادی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔سالانہ فنڈ ایک سال میں صرف ایک بار لیا جا سکتا ہے، لیکن متعدد اسکول اسے مختلف عنوانات میں تقسیم کرکے والدین پر اضافی بوجھ ڈالتے ہیں۔ لیبارٹری یا کمپیوٹر فیس صرف اْن کلاسوں سے لی جا سکتی ہے جہاں یہ سہولت موجود ہو، مگر والدین نے شکایت کی کہ بعض اسکول پرائمری طلبہ سے بھی یہ فیس وصول کرتے ہیں۔ لائبریری فیس صرف اس وقت جائز ہے جب اسکول کے پاس مکمل طور پر فعال لائبریری موجود ہو۔ امتحانی فیس کے حوالے سے والدین نے افسوس کا اظہار کیا کہ سرکاری قوانین میں اس کی واضح ممانعت کے باوجود کئی ادارے اسے معمول کی طرح وصول کرتے ہیں۔ اسی طرح ایکٹیویٹی فیس صرف انہی سرگرمیوں کے لیے لی جا سکتی ہے جو حقیقت میں منعقد کی جا رہی ہوں۔ ٹرانسپورٹ فیس میں بھی مقررہ حد سے زیادہ اضافہ قانون کے خلاف ہے۔ والدین نے شکایت کی کہ اسکول والدین کو کتابیں اور یونیفارم مخصوص دکانوں سے خریدنے پر مجبور کرتے ہیں جو قانون کے صریح خلاف ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اسرائیل نے امدادی سامان کی غزہ آمد پھر روک دی، بڑھتی سردی میں فلسطینی گیلے خیموں میں رہنے پر مجبور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں موسمِ سرما کی پہلی بارش نے پہلے سے متاثرہ فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ شدید بارش سے پناہ گزینوں کے ہزاروں خیمے پانی میں ڈوب گئے، جبکہ لاکھوں بے گھر افراد کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے ایک بار پھر خیموں اور دیگر امدادی سامان کی غزہ میں آمد روک دی ہے، جس کے باعث ٹھنڈ اور بارش سے متاثرہ فلسطینی گیلے خیموں میں رہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
غزہ میں بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔ مقامی افراد نے اپنے خیموں کو پانی سے بچانے کے لیے اردگرد گڑھے کھودنا شروع کر دیے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) کے مطابق 13 لاکھ فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان موجود ہے، مگر اسرائیلی پابندیوں کے باعث وہ پہنچ نہیں پا رہا۔ ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ سرد موسم اور بارش میں امداد کی فراہمی پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گئی ہے۔