بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے، جنگ مسلط کرنے والوں کو اسی طرح جواب دیا جائے گا جیسا مئی میں دیا۔ وفاقی دارالحکومت میں اردن کے شاہ دوم کے ظہرانے کے موقع پر ایوان صدر میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے فیلڈ مارشل نے غزوہ احد سے متعلق بات کرتے ہوئے قرآنی آیات کا حوالہ دیا اورکہا کہ مسلمان جب اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ دشمن پر پھینکی مٹی کو بھی میزائل بنا دیتا ہے، بھارت کے خلاف جنگ میں اللہ نے پاکستان کو سر بلند کیا۔ پاکستان نے اپنے دشمن کو دھول چٹائی ہے۔
پاکستان کے ایوانِ صدر میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو نشانِ امتیاز عطا کیے جانے کی تقریب بظاہر ایک سفارتی روایت تھی، لیکن اس موقع پرآرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکے خیالات نے اسے ایک نئی معنویت عطا کی۔ ان کے الفاظ نہ صرف پاکستان کی عسکری سوچ کا اظہار ہیں بلکہ خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا اور ہمارے قومی اعتماد کا اشاریہ بھی ہیں۔
جب وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، اگر جنگ ہم پر مسلط کی گئی تو جواب اسی انداز میں دیا جائے گا جیسا کہ مئی میں دیا گیا، تو یہ بیان دراصل دشمن کے لیے پیغام اور عوام کے لیے یقین دہانی دونوں رکھتا ہے۔ ہمارے خطے میں طاقت کے توازن کی نزاکت ایسی ہے کہ ہر لفظ کے اثرات سفارتی سرحدوں سے پار جاتے ہیں اور ہر بیان عالمی فضا میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔
آج جب ہم خطے کی تزویراتی صورتِ حال کو دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کبھی بھی سادہ نہیں رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان ایک مستقل رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ سرحدوں پرکشیدگی، سیاسی بیانات، جارحانہ پالیسیاں اور پراپیگنڈا جنگیں ہمیشہ سے تعلقات کو پیچیدہ بناتی رہی ہیں۔ ایسے ماحول میں پاکستانی قیادت کا یہ کہنا کہ بھارت کی جارحیت کا جواب دیا گیا اور آیندہ بھی دیا جائے گا، یہ صرف عسکری پالیسی کا اعلان نہیں بلکہ سیاسی ترجیحات کی نشاندہی بھی ہے۔
وہ مئی جس کا آرمی چیف نے ذکرکیا، اس میں جوکچھ ہوا، وہ خطے کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اگرچہ عسکری کارروائیوں کی تفصیلات عمومی طور پر منظرِ عام پر نہیں لائی جاتیں، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے دفاعی سطح پر اپنی صلاحیت دکھائی اور دشمن کو جواب دیا۔
لیکن اس موقع پر ایک اہم پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے جنگ سے گریز کی اپنی دیرینہ پالیسی کو دوبارہ دہراتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں کوئی بھی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ معیشتیں جنگ سے کمزور ہوتی ہیں، معاشرے بکھرتے ہیں اور قومیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں، اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان جنگوں کے نتائج پر مختلف آراء موجود ہیں، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کبھی کمزور ثابت نہیں ہوئی۔
دوسری جانب حالیہ دنوں میں جب افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے گئے، تو اس نے نہ صرف دو طرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ بنا دیا بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا۔ پاکستانی قیادت کے مطابق یہ حملے محض سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ایک گہری بھارتی سازش کا نتیجہ ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور افغان سرزمین کو بھارت کے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف پراکسی وارکا حامی رہا ہے۔ چاہے وہ بلوچستان میں تخریب کاری ہو، فاٹا اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی یا افغانستان میں پاکستان مخالف بیانیہ، بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے ہمیشہ ایسے عناصر کو سہارا دیا جو پاکستان کے اندر انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے رہے۔
اب جب کہ بھارت کو خطے میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے ایک نیا محاذ درکار تھا، تو اس نے افغان طالبان حکومت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ بھارت نے افغان حکام کو یہ باورکرایا کہ پاکستان کی پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان عالمی تنہائی کا شکار ہے، لہٰذا پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے گزشتہ چار دہائیوں سے افغان عوام کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے۔
سوویت یونین کے حملے کے بعد سے لے کر طالبان کے اقتدار کے خاتمے تک، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، ان کے لیے تعلیمی، طبی اور معاشی سہولیات فراہم کیں۔ آج بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے ہر عالمی فورم پر افغانستان کے حق میں آواز بلند کی۔ چاہے طالبان حکومت کی بحالی کی بات ہو یا افغانستان کی تعمیرِ نو، پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ملک کی مدد کو اپنا اخلاقی اور انسانی فریضہ سمجھا، لیکن افسوس کہ آج وہی افغانستان پاکستان کے احسانات کو بھول کر دشمن کی زبان بول رہا ہے۔
پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیمیں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان کے خلاف منظم منصوبہ بندی کر رہی ہیں، اور افغان حکومت انھیں روکنے کے بجائے نظر انداز کر رہی ہے بلکہ بعض اوقات ان کی پشت پناہی بھی کرتی ہے۔ یہ طرزِ عمل اس احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے جو برادر ملک سے ہرگز متوقع نہ تھی۔ افغان طالبان حکومت ایک طرف دنیا سے تسلیم کیے جانے کے لیے پاکستان کی حمایت چاہتی ہے، لیکن دوسری طرف وہ پاکستان مخالف گروہوں کو خاموشی سے سہارا دے رہی ہے۔
طالبان قیادت جانتی ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر ان کا معاشی اور سفارتی وجود ممکن نہیں، مگر اس کے باوجود وہ داخلی دباؤ کم کرنے کے لیے پاکستان مخالف بیانیہ اختیار کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اپنے عوام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بیرونی دباؤ میں نہیں ہیں، لہٰذا وہ پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنا کر اپنی داخلی مقبولیت بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پالیسی نہ صرف افغانستان کے مفاد کے خلاف ہے بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
یہ صورتحال خطے کے عوام کے لیے نقصان دہ ہے، مگر اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے جو ایک طرف افغانستان کو اشتعال دلا رہا ہے اور دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان حقیقت پسندانہ سوچ اپنائے، اگر افغان طالبان واقعی اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں، تو انھیں بھارت کی چالوں کا حصہ بننے کے بجائے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ آج کا افغانستان اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بھارت کا آلہ کار بننا چاہتا ہے یا ایک آزاد اسلامی ریاست کے طور پر اپنے برادر ہمسائے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔
افغانستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کی چالوں سے ہوشیار رہے کیونکہ بھارت کبھی افغانستان کا خیر خواہ نہیں رہا، اس کا مقصد صرف پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے، اگر افغانستان نے پاکستان کے احسانات کو بھلا کر دشمن کے ایجنڈے پر چلنا جاری رکھا تو نقصان اسی کا ہوگا، کیونکہ پاکستان اپنی سرحدوں، اپنے عوام، اور اپنے وقار کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔افغان طالبان رجیم اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات اس امرکو ظاہرکرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے پاکستان مخالف عزائم مضبوط ہو رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا، خصوصاً ’’انڈیا ٹو ڈے‘‘ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان حکومت دریائے کنڑ پر بھارتی تعاون سے ڈیم تعمیرکرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، تاکہ پاکستان کو پانی کی فراہمی محدود یا بند کی جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت نے طالبان حکومت کو ایک ارب امریکی ڈالر کی مالی امداد کی پیشکش کی ہے اور مختلف ڈیموں جیسے نغلو، درونتہ، شاہتوت، شاہ واروس، گمبیری اور باغدرہ کی تعمیر میں تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈیم پاکستان کی آبی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں، کیونکہ ان کا براہ راست اثر دریائے کابل کے بہاؤ پر پڑے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری برتری کا سوال ہمیشہ سے میڈیا اور عوامی مباحث میں چھایا رہتا ہے۔ بھارت دفاعی بجٹ میں خطے کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے، جب کہ پاکستان محدود وسائل کے باوجود ایک مؤثر دفاع قائم کیے ہوئے ہے۔
اس کا سبب نہ صرف ہمارے فوجی جوانوں کی بہادری ہے بلکہ ہماری عسکری حکمتِ عملی، جدید تربیت اور انٹیلی جنس آپریشنز کی کامیابیاں بھی ہیں۔ پاکستان جانتا ہے کہ اس کے وسائل بھارت کے مقابلے میں کم ہیں، لیکن جنگ صرف وسائل سے نہیں جیتی جاتی۔ عزم، حکمت اور اتحاد بھی اسی طرح اہم ہوتے ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کا اظہار آرمی چیف کے بیان میں نمایاں تھا۔ حرف آخر، یہ کہنا مناسب ہے کہ پاکستان کا دفاع عوام کے اتحاد میں پوشیدہ ہے، اگر ہم اندر سے مضبوط ہوں گے، تو کوئی بیرونی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان مخالف کہ پاکستان کی ہے کہ پاکستان طالبان حکومت افغان طالبان پاکستان کے پاکستان نے پاکستان کو کہ بھارت بھارت کی بھارت کے عوام کے کے خلاف ہیں کہ رہا ہے رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
افغانستان اور دہشت گردی
دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرابی نے اگلے روز ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران واضح کیاہے کہ پاکستان نے کبھی کابل میں کسی بھی حکومت سے بات چیت سے انکار نہیں کیا، تاہم پاکستان کسی بھی دہشت گرد گروہ چاہے وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہو یا کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے مذاکرات نہیں کرے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان پاکستان مخالف تنظیموں کو معاونت فراہم کر رہے ہیں جب کہ طالبان نے پاکستان میں پشتون نیشنلزم کو ہوا دینے کی کوشش بھی کی۔ پاکستان میں پشتونوں کی تعداد افغانستان سے زیادہ ہے، لہٰذا پشتون شناخت کے نام پر پروپیگنڈا گمراہ کن ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے افغان طالبان رہنماؤں کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تجارت کیسے اور کس سے کرنی ہے، یہ ہر ملک کا انفرادی فیصلہ ہوتا ہے، افغانستان کے ساتھ تجارت یا ٹرانزٹ ٹریڈ تبھی ممکن ہے جب وہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا مکمل خاتمہ ہوگا، تجارت انسانی جانوں کے ضیاع سے زیادہ اہم نہیں، وانا اور اسلام آباد حملوں میں ملوث افغان دہشت گردوں پر کابل حکومت کو جواب دینا ہوگا۔
افغانستان کے اقتدار پر قابض افغان طالبان جو کچھ کر رہے ہیں، وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوئی ہیں، ان میں کسی نہ کسی حوالے سے افغانستان اور افغان باشندے شامل رہے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ مخاصمت کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی افغانستان نے پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈہ اور جارحانہ اقدامات شروع کر دیئے تھے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کو تسلیم نہ کرنے سے لے کر ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ بنانے تک، افغانستان کا وطیرہ چلا آ رہا ہے۔
پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وہ علاقے جو افغانستان کے ساتھ ساتھ ہیں، وہاں افغان حکومت نے منفی پراپیگنڈے کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع کر دیا تھا۔
کبھی پشتونستان اسٹنٹ اور کبھی سرحد کے آرپار بسنے والے پشتونوں کو ایک بنا کر پیش کرنے کا پراپیگنڈہ بھی کیا گیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ پراپیگنڈے کسی بھی طرح پاکستان کی وحدت اور قومی یکجہتی کو توڑ نہیں سکے۔ سردار داؤد کے دور میں اس پراپیگنڈے میں بہت شدت آئی اور اس کے بعد بھی معاملات جوں کے توں ہی چلے آئے ہیں۔
افغانستان طویل خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔ اصولی طور پر تو افغانستان کی حکومتوں کو اپنے ملک کی عوام کی فلاح وبہبود اور تعمیر وترقی کے بارے میں منصوبہ بندی کر کے اس پر عملدرآمد کرانا چاہیے۔
لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی بھی افغان حکومت نے افغانستان کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام نہیں کیا بلکہ اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں اور کرپشن کو چھپانے کے لیے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا اور افغان عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ افغانستان کی غربت اور بدحالی کا ذمے دار پاکستان ہے۔
اسی دوران پاکستان سے ہٹ کر خصوصی طور پر پنجاب کو نشانہ بنانے کے امر کا آغاز ہوا۔ افغانستان اڑھائی لاکھ مربع کلومیٹر کا خاصا بڑا ملک ہے۔ اس ملک میں کئی نسلی گروہ اور ثقافتی گروہ آباد ہیں۔
ہر کی اپنی اپنی زبان اور رسم ورواج ہے۔ اس لیے افغانستان کسی ایک قبیلے، قوم یا برادری کا ملک نہیں ہے۔ اس میں چند بڑے لسانی اور ثقافتی گروہوں کے علاوہ بیسیوں چھوٹے چھوٹے قبیلے بھی صدیوں سے آباد چلے آ رہے ہیں۔
افغانستان میں سماجی ارتقاء کی رفتار بھی بہت سست رہی ہے۔ عالمی طاقتوں کی مداخلتوں نے اس ملک میں ترقی کا راستہ روکے رکھا ہے۔ بدقسمتی سے اس علاقے کے ہر گروپ کے اپنے اپنے مفادات رہے ہیں اور ہر گروپ اپنے اپنے مفادات کے لیے مختلف طاقتوں کے زیرنگیں رہا یا ان کے لیے آلہ کار کے طور پر کام کرتا رہا۔
بیسویں صدی کے وسط کے دوران افغانستان میں باقاعدہ حکومتوں کا سلسلہ چلا۔ اس دوران ایک دو شہروں میں خصوصاً کابل میں سماجی اور ثقافتی ارتقاء خاصا بلند رہا اور یہ شہر ایک خوشحال اور آزاد خیال طبقے کی نمائندگی کرتا رہا لیکن باقی افغانستان بدستور قبائلی نظام اور غربت کے شکنجے میں پھنسا رہا۔
کسی بھی حکومت نے کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی جس سے گراس روٹ لیول پر ترقی ممکن ہو سکے۔ اس لیے اس ملک میں کوئی حکومتی سسٹم ڈویلپ نہیں ہو سکا۔ جو تھوڑا بہت سسٹم موجود بھی تھا وہ افغان وار کے دوران ختم ہو گیا اور اس کے بعد رہا سہا انفراسٹرکچر باہمی خانہ جنگی کی نذر ہو گیا۔
اب طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے حلقوں کا خیال تھا کہ طالبان کا تعلق چونکہ زمین سے ہے اس لیے وہ افغانستان کے عوام کی ترقی کے لیے زیادہ بہتر کردار ادا کریں گے۔
پاکستان میں بعض حلقوں کا یہ بھی خیال تھا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں بھارت کا اثرورسوخ کم ہو گا اور پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن یہ ساری توقعات وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی گئیں۔
طالبان جب بگرام میں داخل ہوئے تو انھوں نے جیلیں کھول دی تھیں۔ ان جیلوں میں بند قیدی فرار ہو گئے تھے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دورِ حکومت میں جو دہشت گرد گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالے گئے تھے، انھیں طالبان نے رہا کر دیا۔
اشرف غنی انتظامیہ ان گرفتار دہشت گردوں کو پاکستان کے ساتھ بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتی رہی۔ پاکستان کا مطالبہ رہا ہے کہ ایسے دہشت گرد جن کا تعلق پاکستان سے ہے، انھیں پاکستان کے حوالے کیا جائے لیکن اشرف غنی انتظامیہ بھی ڈبل گیم کر رہی تھی۔
اس نے انھیں بلیک میلنگ کے لیے جیلوں میں بند کیے رکھا لیکن جب امریکن فوجیں افغانستان سے نکلیں اور طالبان نے کابل کا اقتدار سنبھالا تو جیلوں میں بند ٹی ٹی پی کے تمام لوگوں کو رہا کر دیا گیا۔
اب یہی لوگ برسرعام پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرا رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں آزادانہ نقل وحرکت کر رہے ہیں، وہاں آزادانہ طور پر کاروبار کر رہے ہیں اور مختلف تقریبات کی صدارتیں بھی کر رہے ہیں۔
ان حقائق کے باوجود افغان طالبان کہتے ہیں کہ ہماری سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔ اب طالبان کی عبوری حکومت نے پاکستان کے ساتھ باہمی تجارت بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
طالبان حکومت کی یہ غلط کیلکولیشن ہے کہ وہ تجارت بند کر کے شاید پاکستان کو معاشی طور پر کوئی نقصان پہنچا لیں گے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت میں پاکستان کی کل برآمدات کا حصہ بہت معمولی نوعیت کا ہے۔
اس لیے پاکستان کو تجارت بند ہونے سے کسی قسم کا کوئی مالی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ افغانستان میں استعمال ہونے والی زیادہ تر اشیاء پاکستان سے جاتی ہیں۔ پاکستان سے تجارت بند کرنے سے نقصان افغانستان کا ہی ہو گا۔
ویسے بھی افغانستان کی سرحد اسمگلنگ اور غیرقانونی تجارت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ بلیک منی پاکستان میں بہت سے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ اصولی طور پر تو پاک افغان سرحد کو مکمل طور پر بند ہونا چاہیے۔
خاص طور پر پیدل اور روٹ ٹرانسپورٹ کے ذریعے پاکستان میں داخلے کی مکمل طور پر ممانعت ہونی چاہیے۔ تجارت بھی کرنی ہے تو وہ صرف قانونی تجارت ہونی چاہیے۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تجارت بند کرنے کا کبھی اعلان نہیں کیا اور نہ ہی کبھی یہ کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کی حکومت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات نہیں کرے گا۔
افغانستان کی حکومت کو ایک ذمے دار حکومت کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ موجودہ عبوری حکومت کے اکابرین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ افغانستان کی عوام کے نمایندہ نہیں ہیں۔
موجودہ عبوری حکومت ووٹ کے ذریعے اقتدار میں نہیں آئی ہے۔ افغانستان کی حکومت کو سب سے پہلے سسٹم کو ڈویلپ کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمسایوں کے ساتھ لڑائی جھگڑے سے معاملات حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی افغانستان خوشحال ہو گا۔
افغانستان کے عوام کو اپنی نمایندہ حکومت کی ضرورت ہے۔ افغانستان کو جمہوریت کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے عوام کو ریاستی اور حکومتی اداروں کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے عوام کو بہتر انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔
اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز کی ضرورت ہے۔ جدید اسپتالوں کی ضرورت ہے لیکن طالبان کی حکومت ان امور کی جانب توجہ نہیں دے رہی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی ایک ایسے ملک کی نمائندگی کر رہی ہے جو پسماندگی کا شکار ہے۔