غزل
میں تازہ خون کی بڑھتی طلب سے واقف ہوں
نگارِ شوق ترے چشم و لب سے واقف ہوں
براہِ راست مرا زندگی سے کیا ناتا
میں اِس کے ساتھ تمہارے سبب سے واقف ہوں
بنا رہا ہوں میں تقویمِ عالمِ امکاں
اگرچہ دن کی خبر ہے نہ شب سے واقف ہوں
جو دوست ہیں وہ مکلف نہیں کوائف کے
مگر حریف کے نام و نسب سے واقف ہوں
کچھ اس تپاک سے وہ اجنبی ملا ہے مجھے
ہر ایک پوچھ رہا ہے میں کب سے واقف ہوں
میں جانتا ہوں کہ بعد از وصال بھی غم ہے
بفیضِ ہجر مآلِ طرب سے واقف ہوں
بطورِ خاص مرا عکس گو نہیں زد پر
میں آئنوں کے عمومی غضب سے واقف ہوں
کسی گناہ سے صرفِ نظر نہیں کریں گے
یہاں پہ جتنے فرشتے ہیں سب سے واقف ہوں
تُو پوچھتا ہے ترا رزق کس کے ذمے ہے
مجھے یہ فکر نہیں ہے میں رب سے واقف ہوں
(اسد رحمان۔ پپلاں، پنجاب)
غزل
نجانے کون سا منظر ہرا کرے گا دوست
تُو مجھ کو چھوڑ کے بے حد برا کرے گا دوست
تجھے بتا تو دیا تھا کہ تُو محبت ہے
بقایا کام تو میرا خدا کرے گا دوست
تُو میرے بعد مرے موسموں کو ترسے گا
نہیں ملوں گا تجھے میںتو کیا کرے گا دوست؟
بھٹک گیا کہیں آب و ہوائے دنیا میں
مجھے لگا تھا کہ مجھ سے ملا کرے گا دوست
تجھے تو میں نے چھپایا تھا اپنے آپ سے بھی
تُو میرے ساتھ بھی اتنا برا کرے گا دوست
تجھے زمانوں کی حیرت سے دیکھتے رہنا
ہمارا کام ترا آئنہ کرے گا دوست
(حماد ہادی۔ کراچی)
غزل
آنکھوں سے گفتگو ہوئی، لب دیکھتے رہے
کل رات ایک خواب عجب دیکھتے رہے
اہلِ جنوں نے سر کو جھکایا، فنا ہوئے
اہلِ خرد تو نام و نسب دیکھتے رہے
پھر یوں ہوا کہ اس کی تمنا بھی چھن گئی
ہم خاک زاد بیٹھے یہ سب دیکھتے رہے
کچھ لوگ طور جا کہ بھی محروم ہی رہے
کچھ وہ تھے جو مدینے میں رب دیکھتے رہے
وہ آیا، اک نگاہ سے سب کاسے بھر گیا
اور لوگ اپنی اپنی طلب دیکھتے رہے
کچھ لوگ تو صدائیں بھی دھیمی نہ کر سکے
کچھ سانس لینے میں بھی ادب دیکھتے رہے
حالانکہ گفتگو کی بھی خواہش تو تھی مگر
اکرامؔ اس کو جان بلب دیکھتے رہے
(اکرام افضل ۔مٹھیال)
غزل
دور تجھ سے رہوں ایسا ممکن نہیں
اور میں کچھ کہوں ایسا ممکن نہیں
عشق بچوں کا تو کھیل ہے ہی نہیں
ہجر تیرا سہوں ایسا ممکن نہیں
موم مجھ کو کیا آپ کے عشق نے
پانیوں میں بہوں ایسا ممکن نہیں
جل بجھا راکھ بھی اڑ گئی ہے میری
پھر سے اب میں جلوں ایسا ممکن نہیں
عشق نے کردیا دم بخود اب مجھے
میں تیرا دم پڑھوں ایسا ممکن نہیں
اب تو ہر سمت ہی ہے خزاں اے علیمؔ
ساتھ اس کے چلوں ایسا ممکن نہیں
(عابد علیم سہو۔ بھکر)
غزل
فراقِ جاں میں مہکتا گلاب پتھر ہے
شبِ وصال کا ہر ایک خواب پتھر ہے
تڑپ رہا ہے مرا دشت پیاس کے مارے
برس رہا ہے ندی پر سحاب پتھر ہے
تجھے گماں تھا مقدر ہے میرا آئینہ
مجھے یقیں تھا ترا انتخاب پتھر ہے
بجھا چکا ہے چمن میں چراغ شبنم کے
یہ آگ اگلتا ہوا آفتاب پتھر ہے
گنہ کی شکل میں کی جمع ہم نے کنکریاں
تمام عمر کا کل احتساب پتھر ہے
نہ ٹوٹ جائے تمنائے دیدِ آئینہ
جو رخ پہ ڈالا ہے تم نے نقاب پتھر ہے
میں آئینہ ہوں مگر شہر میرا نابینا
ہر اک سوال کا میرے جواب پتھر ہے
(محمد کلیم شاداب ۔آکوٹ، ضلع آکولہ ،مہاراشٹر، انڈیا)
غزل
سیر میری، دشت سے رابطہ کہتے رہے
نقش ِپا کو ہم سفر زائچہ کہتے رہے
نشر ہو کر بھی فضیلت سے خالی نہیں عشق
دیکھنے والے اسے درس گہ کہتے رہے
خاک تو پیاسوں پہ نوحہ کناں تھی ہی، مگر
یہ سراب و خار بھی مرثیہ کہتے رہے
میں تعلق کے فرائض کو گنواتا رہا
وہ برابر میں فقط حادثہ کہتے رہے
گدھ نے کچھ مہلت ہی دی تھی قریب المرگ کو
یہ تماشائی اسے فاختہ کہتے رہے
ایسی بے چینی سے رگڑی گئی تھیں ایڑیاں
لوگ پھوٹے آب کو معجزہ کہتے رہے
راجہ کو فرعون کہنے سے ڈرتے تھے سبھی
اس لیے رانی کو ہی آسیہ کہتے رہے
ہم خیالِ قیس ہوں میں نے ساگرؔ کب کہا
ہاں مگر، صحرا نشیں طنزیہ کہتے رہے
(ساگرحضورپوری۔قطر)
غزل
لشکر جو کبھی نعرۂ تکبیر سے نکلے
دشمن کی مجال اس خطِ تاثیر سے نکلے
تاعمر نہیں دید کی زنجیر سے نکلے
وہ سلسلے جو خواب کی تعبیر سے نکلے
کل آئینے سے دیر تلک گفتگو ٹھہری
اپنے بھی مراسم کسی دلگیر سے نکلے
اِس آس پہ پھرتے ہیں ترے جھنگ کی گلیاں
کچھ ربط تو اپنا بھی کسی ہیر سے نکلے
ناحق ہوئے مفلس یہاں پابندِ سلاسل
جو صاحبِ زر تھے بڑی تدبیر سے نکلے
جن لوگوں نے بس ایک جھلک دیکھ لی اس کی
پھر کب وہ بھلا حسنِ اساطیر سے نکلے
اُستاد الشعرا نظر آتا ہے جہاں کو
شاعر جو صفِ میر تقی میر سے نکلے
تا دیر وہاں رہتا ہے پھر ظلم مسلط
جس شہر کے باغی ذرا تاخیر سے نکلے
بے انت شہیدان کا حاصل ہے یہ قلزمؔ
ظالم کہاں آسانی سے بونیر سے نکلے
(سجیل قلزم۔فیصل آباد)
غزل
دل کا اجڑا ہوا بن چھوڑ کے جا سکتے ہو
مجھ کو بے گور و کفن چھوڑ کے جا سکتے ہو
چاندنی رات میں جب یاد ستانے لگ جائے
میرے خوابوں کا چمن چھوڑ کے جا سکتے ہو
حشر تک ساتھ نبھانے کی قسم کھا کر بھی
’تم مجھے عہد شکن چھوڑ کے جا سکتے ہو‘
میں نے چاہا ہے تجھے جان سے بڑھ کر لیکن
تم ہو ہرجائی، سجن چھوڑ کے جا سکتے ہو
اور جب کوئی نہیں دل میں تمھارے حمزؔہ
پھر بھلا کیسے لگن چھوڑ کے جا سکتے ہو
(حافظ حمزہ سلمانی۔ گجرات)
غزل
جب خیالات ستاتے رہے تیرے مجھ کو
اُس گھڑی تم مجھے لگنے لگے میرے مجھ کو
دل کی دیواروں سے یہ خون بھی ٹکرانے لگے
مخملیں اپنا اگر ہاتھ تُو پھیرے مجھ کو
تُو گئی چھت پہ تو کھڑکی میں کھڑا سورج خود
دینے آیا تھا خبر صبح سویرے مجھ کو
کاش تُو بانہوں کے اس جال کو کھولے پہلے
اور پھر گھات لگا کر وہیں گھیرے مجھ کو
غم کا خنجر اے خدا چھین لے اِن سے ورنہ
مار ڈالیں گے اُداسی کے بسیرے مجھ کو
مشکلوں میں مجھے جس جس نے اکیلا چھوڑا
اب تلک یاد ہیں کم ظرف وہ چہرے مجھ کو
جو تجھے ڈستے رہے سانپ نے مجھ سے یہ کہا
یہی تو دودھ پلاتے تھے سپیرے مجھ کو
(نعمان نذر نعمان۔ لاہور)
غزل
عشق کا اِنتخاب ہیں ہم تم
ایک دوجے کا خواب ہیں ہم تم
عشق اپنا گواہی دیتا ہے
حسن میں لاجواب ہیں ہم تم
استعارے ہیں روز و شب کے ہم
ماہتاب، آفتاب ہیں ہم تم
دنیا والوں کی رائے ہے جیسی
اس قدر کب خراب ہیں ہم تم
لوگ کیونکر سوال کرتے ہیں
جبکہ واضح جواب ہیں ہم تم
اپنے احباب کے لئے شوبیؔ
اک مسلسل عذاب ہیں ہم تم
(ابراہیم شوبی۔کراچی)
غزل
کتابِ خاک میں حرفِ فنا رقم اُس کا
کہ زلزلوں میں بھی زندہ رہا حرم اُس کا
چراغِ دشت بجھا اور دل فروزاں ہے
کہ ایک شعلۂ تحقیق ہے علم اُس کا
شجر پہ برق گری، اور میں یہ سوچتا ہوں
کہ کس ضمیر میں محفوظ ہے کرم اُس کا
وہ شوخ، تیر چلاتا ہے اور ہنستا ہے
کہ میری خاک میں پیوست ہے ستم اُس کا
خموش لب پہ وہی حرفِ ناتمام آیا
کہ خونِ عشق میں مستور ہے قلم اُس کا
(زبیر احد۔ فیصل آباد)
غزل
دیکھو تو آج آدمی حیوان بن گیا
تہذیب کے لباس میں شیطان بن گیا
ظلمت نے اس کے دل پہ اثر ایسا کچھ کیا
خوش نام تھا کبھی جو وہ اپمان بن گیا
دولت کما رہا ہے جو ایمان بیچ کر
جھوٹوں کا سرغنہ وہی سلطان بن گیا
اب خود کو دیکھنے کا چلن ہی نہیں رہا
ہر شخص اپنے چہرے سے انجان بن گیا
کردار، ظرف، غیرتِ ایمان مر گئی
اپنے نفس کا بندہ مسلمان بن گیا
تہذیب مر گئی، نہ رہا ظرفِ گفتگو
اپنا ضمیر ظرف کی میزان بن گیا
بولی جو روشنی تو اسے قید کر لیا
تاریک ملک گویا کہ زندان بن گیا
سوچا تھا آدمی کا تقدّس بحال ہے
لیکن یہاں شکار ہی انسان بن گیا
قاضیؔ کسی کے ساتھ رہا مشکلوں میں مَیں
مشکل جو کام تھا مرا آسان بن گیا
(قاضی محمد آصف ۔کراچی)
غزل
ہے قبا کیسی ادھڑتی ہی چلی جاتی ہے
زندگانی ہے کہ جھڑتی ہی چلی جاتی ہے
ایسا کچھ بھی تو کیا تھا نہ بہو بیٹی نے
بے سبب ساس جھگڑتی ہی چلی جاتی ہے
صدقے واری بھی کئی بار گئی ہے بیگم
ضد پہ آ جائے تو لڑتی ہی چلی جاتی ہے
یہ جو رہتی ہے تو آباد وفا کے دم سے
دنیا اجڑی تو اجڑتی ہی چلی جاتی ہے
بے حسی چہرے کو بے رنگ بناتی ہے ضرور
گرد احساس پہ پڑتی ہی چلی جاتی ہے
ہم اسے اپنی شرافت سے، شرافت سے ملیں
اور دنیا کہ اکڑتی ہی چلی جاتی ہے
خون انسان کا توقیر گنوا بیٹھا ہے
انسیت خاک میں گڑتی ہی چلی جاتی ہے
ایک لڑکی کہ جو کانٹوں سے بچائے دامن
پر چنریا ہے کہ اڑتی ہی چلی جاتی ہے
بات کرتے ہوئے تو اس کو کبھی دیکھ رشیدؔ
جو رتن لفظوں کے جڑتی ہی چلی جاتی ہے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)
شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایسا ممکن نہیں کرے گا دوست سے واقف ہوں دیکھتے رہے ہیں ہم تم کہتے رہے سے نکلے بن گیا رہا ہے مجھ کو ہے میں
پڑھیں:
’’آئین نَو‘‘ سے ڈرنے اور ’’طرزِ کہن‘‘ پر اَڑنے والے
علامہ محمد اقبال ؒ ، جنہیں اہلِ ایران محبت سے اقبالِ لاہوری کہتے ہیں،ہمارے قومی شاعر ہیں۔ اُنہیں جدید دَور کے علمائے فلاسفہ میں بھی بلند مقام حاصل ہے ۔ ہم اُنہیں شاعرِ مشرق ، حکیم الامت اور یکے از بانیِ پاکستان کے خوبصورت اور دلکش ناموں سے بھی یاد کرتے اور پکارتے ہیں ۔ اِس موقع پر مجھے ’’اقبال کے حضور‘‘ نامی ایک نہائت شاندار تصنیف یاد آ رہی ہے ۔ اِسے جناب سید نذیر نیازی نے تحریر کیا۔یہ دراصل علامہ اقبال کے دولت کدے پر برپا لاتعداد مجالس کی ڈائری ہے ۔
سید نذیر صاحب مرحوم اِن بلند علمی مجالس میں باقاعدہ شریک ہوتے تھے ۔ حکیم الامت کی زبان سے جو کچھ بھی سُنتے ، ڈائری میں لکھ لیتے اور بعد ازاں علامہ اقبال کو اپنے لکھے الفاظ دکھا اور پڑھا کر اِسے محفوظ کر لیتے ۔ یہی محفوظ الفاظ بعد ازاں کتابی شکل میں ’’اقبال کے حضور‘‘ کے زیر عنوان شائع ہُوئی ۔ اِس دلکشا تصنیف میں ہم علامہ اقبال ؒ کو اپنے کلام ، نظریات اور افکار کی تشریح وتفسیر اور گرہ کشائی فرماتے دیکھتے ہیں ۔مذکورہ تصنیف میں مصنف نے، محبت و احترام سے، علامہ اقبال ؒ کو ہر جگہ ’’حضرت علامہ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے ۔
یہی بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر ، فلسفی اور ہمارے نظریہ ساز، علامہ اقبالؒ، اپنے ایک معروف شعر میں فرماتے ہیں کہ دُنیا میں وہی قومیں اپنی منزل پر پہنچنے میں رکاوٹوں اور کٹھن کا سامنا کرتی ہیںجو آئینِ نَو سے ڈرتی اور طرزِ کہن پر اَڑتی ہیں ۔
یہ طرزِ فکر و عمل ٹھیک نہیں ہے : آئینِ نَو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اَڑنا/ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں! حضرت علامہ ؒ نے تو ہمیں شعر کی زبان میں ہمارے اجتماعی مرض کی نشاندہی کرتے ہُوئے مدتوں قبل فرما دیا تھا کہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی راہ میں کونسے عناصر ’’کٹھن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اب جب کہ آئینِ پاکستان میں 27ویں ترمیم کی صورت میں ’’آئینِ نَو‘‘ سامنے آ چکا ہے ، دونوں ایوانوں سے منظور بھی ہو چکا ہے اور صدرِ مملکت اِس پر دستخط بھی فرما چکے ہیں تو پرانے آئین پر بدستور اَڑنے اور اَکڑنے کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے ؟
لیکن نہیں صاحب ! بعض لوگ ’’آئینِ نَو‘‘ سے ڈرتے ہُوئے اور اپنی طرزِ کہن پر اَ ڑتے ہُوئے اپنے بلند عہدوں سے مستعفی ہورہے ہیں ۔ حالیہ27ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں سپریم کورٹ سے اپنے بلند عہدوں سے بطورِ احتجاج مستعفی ہوتے ہُوئے جن دو صاحبان نے بنامِ صدر جو خطوط لکھے ہیں(ویسے دورانِ ملازمت بھی خط لکھنا ان کا خاص مشغلہ رہا )، اِن خطوط کا بالاستعیاب مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اعلیٰ ترین عہدوں اور اعلیٰ ترین مراعات کی حامل ملازمتوں سے رخصت ہوتے ہُوئے اُنہیں خوش رنگ ’’چمن‘‘ کی یاد بھی شدت سے آتی رہی۔
اگر یہ کہا جائے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے فلیش بَیک میں مستعفی ہونے والے معزز افراد کے یہ احتجاجی خطوط دراصل ’’دُکھے دِلوں کی فریاد ‘‘ اور صدا ہے تو اِسے بے جا بھی نہیں کہا جائیگا ۔ استعفیٰ دینے والے دو صاحبان میں سے ایک بڑے صاحب کا دُکھی خط تومبینہ طور پر 13صفحات کو محیط ہے ۔ اِسی سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چوٹ کتنی گہری ہے اور رُخصتی کسقدر بادلِ نخواستہ ہے ۔ آئینِ نَوسے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اَڑنے پر مُصر اِن مستعفی حضرت نے دُکھے دِل اور اپنے ’’ضمیر کی آواز‘‘ کی عکاسی کرتے ہُوئے کچھ اشعار بھی شاملِ خط کیے ہیں ۔ مثلاً:’’مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی/ مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے‘‘۔ وغیرہ۔
ستم ظریف اور’’ بیدرد‘‘وفاقی وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، نے اِس خط اور اشعار پر ردِ عمل دیتے ہُوئے ’’ایکس‘‘ پر لکھا:’’ یہ شعر اُس وقت کیوں یاد نہ آئے جب انصاف کا قتلِ عام ہورہا تھا؟ جب ایک ٹولہ مل کر آئین اور قانون کے محافظ کی بجائے کسی کے سیاسی مفادات کے محافظ بنے ہُوئے تھے ۔ یہ سیاسی پارٹی کے ورکر بنے ہُوئے تھے ۔‘‘خواجہ صاحب نے ردِ عمل دیتے ہُوئے بعض ایسے الفاظ بھی ’’ایکس‘‘ پر لکھ مارے ہیں جن کا ہم یہاں اعادہ نہیں کر سکتے ۔ اتنا مگر ضرور ہے کہ خواجہ صاحب کے یہ الفاظ سُن اور پڑھ کر مستعفی حضرات مزید دُکھی ہُوئے ہوں گے ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں جو صاحبان بھی مستعفی ہُوئے ہیں، عوام میں اُن کے استعفے پذیرائی حاصل کر سکے ہیں نہ اُنہیں عوام کی ہمدردیاں حاصل ہو سکی ہیں ۔
عوام کے مصائب اور دُکھوں سے لاتعلقی کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ، مگر جب اقتدار اور اختیار کے شہ زور گھوڑے پر انسان بیٹھا ہو تو اُسے بیکس اور انصاف سے محروم طبقات و افراد کہاں نظر آتے ہیں ؟ وقت کا سفاک اور بیدرد کارواں مگر تھمتا نہیں ہے ۔ دو جسٹس صاحبان کے استعفے اگر سامنے آئے ہیں تو نئی وفاقی آئینی عدالت کے نئے سربراہ ، جناب جسٹس امین الدین خان ، اور تین جج صاحبان بھی اگلے تین برسوں کے لیے حلف بھی اُٹھا چکے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان صاحب کو وفاقی آئینی عدالت کا پہلا سربراہ بننے کا شرف ملا ہے ۔ ساتھ ہی لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب بھی مستعفی ہونے والوں کی ٖفہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔
آئینِ نَو سے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اَڑیل ٹٹو کی طرح اَڑنے والے کچھ افراد ، گروہ اور عاقبت نااندیش ہماری مغربی سرحد کے پار بھی بَس رہے ہیں ۔ یہ لوگ اب افغان طالبان، ٹی ٹی پی ، ٹی ٹی اے ، فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ مہلک ، لالچی اور اجتماعی طور پر اُمتِ اسلامیہ و اُمتِ پاکستان کے خلاف عناد پر آمادہ مذکورہ گروہوں کا خیال ہے کہ طرزِ کہن پر اَڑے رہنے ہی میں وہ اپنے نجی، گروہی ، بھارتی اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں ۔
پاکستان کے خلاف یہی لالچ افغانستان کے مقتدر طالبان مُلّاؤں اور ملوانوں کے وزیر خارجہ، امیر متقی، کو بھارت لے گیا ۔ اور اب اِنہی پاکستان دشمن افغان طالبان رجیم کے نائب وزیر اعظم ، مُلّا عبدالغنی برادر، نے طرزِ کہن پر اَڑے رہنے کی جبلّت کا ثبوت فراہم کرتے ہُوئے 12نومبر2025ء کو اعلان کیا ہے :’’ ہم پاکستان کے ساتھ اپنی جملہ لین دین بند کررہے ہیں۔‘‘برادر کشی کردار کے حامل،عبدالغنی برادر، نے افغان تاجروں کویہ بھی تنبیہ کی ہے کہ ’’ اگلے تین ماہ کے اندر (پاکستان سے ) اپنا تجارتی حساب کتاب بیباک کرو اور تجارت کے لیے نئے ممالک میں نئے راستے تلاش کرو، وگرنہ (پاکستان کے معاملے میں ) ہم کسی افغان تاجر و ٹریڈر کی مدد نہیں کر سکیں گے ۔‘‘
افغان نائب وزیر اعظم کے مذکورہ بیان کا پاکستان نے مناسب ترین اور ترنت جواب دیا ہے ۔ خواجہ آصف نے بھی خوب کہا ہے کہ ’’افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے ۔‘‘ مُلّا عبدالغنی برادر(جو کبھی برسوں پاکستان کی مفت روٹیاں کھاتا اور پاکستانی اداروں کی میزبانیوں سے بے تحاشہ لطف اندوز ہوتا رہا ہے ) نے مذکورہ اعلان کرکے دراصل بھارت، بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی اُجیت ڈووَل کی زبان بولی ہے۔ اِس اعلان کے بعد راقم نے کئی بھارتی اخبارات کا مطالعہ کیا ہے ، سبھی عبدالغنی برادر پر نہال ہو رہے ہیں ۔
گویا افغانستان کی غیر نمایندہ حکومت کے عبوری وزیر خارجہ (امیر خان متقی) کے دَورئہ بھارت کے نتائج نکلنا شروع ہو گئے ہیں ۔ حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ افغان نائب وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا اعلان کررہا ہے اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اپنے ’’ امن جرگہ‘‘ ( منعقدہ 12 نومبر2025) میں مطالبہ کرتی سنائی دے رہی ہے کہ ’’افغانستان کے ساتھ سارے تجارتی راستے کھولے جائیں ۔‘‘ ایسے ہی موقع پر شائد بولا جاتا ہے: ناطقہ سر بگریباں ہے کیا کہیئے!ہم سمجھتے ہیں کہ مُلّا برادر کا اعلان پاکستان کے لیے Blessing in Disguise ہے ۔ خس کم ،جہاں پاک۔شائد اِسی لیے ہمارے وزیر دفاع نے بھی کہا ہے :’’افغانستان سے آمدورفت کم ہوگی تو پاکستان میں دہشت گردی بھی کم ہوگی۔‘‘ اور اگر ہم روزنامہ ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ میں 14 نومبر2025ء کو ممتاز رپورٹر شہباز رانا کی رپورٹ بالتفصیل پڑھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مُلّا برادر کے اعلان پر اگر پوری طرح عمل ہوتا ہے تو افغانستان ہی کو بھاری تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھ لیں افغان طالبان طرزِ کہن پر اَڑ کر !!