رشوت کے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں،اے سی سی اے کی نئی رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(کامرس رپورٹر)ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس( اے سی سی اے) کی جانب سے ایک نئی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق، ایشیا پیسیفک بھر کی تنظیمیں ایک مختلف اور تیزی سے بدلتی ہوئی دھوکہ دہی کی صورتِ حال سے نمٹ رہی ہیں، جس میں خریداری کے فراڈ (÷34)، رشوت اور بدعنوانی (÷20) اور کرپٹو فراڈ و ای ایس جی کی غلط بیانی جیسے مسائل شامل ہیں۔ ڈیجیٹل ادائیگیوں اور سپر ایپ پلیٹ فارمز میں تیز جدت نے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے، جبکہ اے آئی پر مبنی فریب کاری خطے میں دھوکہ دہی کی رفتار اور تکنیکی مہارت دونوں کو بڑھا رہی ہے۔ ایشیا پیسیفک کی کئی مارکیٹوں میں دھوکہ دہی سے متعلق کھل کر گفتگو کو بے وفائی سمجھا جاتا ہے، جب کہ روایتی درجہ بندی پر مبنی ماحول میں خفیہ طور پررپورٹنگ کی اب بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس لیے تفتیش کاروں کی آزادی اور انتقامی کارروائی سے بچاؤ کے واضح تحفظات نہایت اہم ہیںخصوصاً جونیئر عملے کے لیے، جنہوں نے سب سے زیادہ تشویش کا اظہار کیا جبکہ ثقافتی عوامل اب بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔دنیا بھر سے 2,000 سے زائد پیشہ ور افراد اور 31 گول میزکانفرنسزکے نتائج پر مبنی یہ مطالعہ جو انٹرنیشنل فراڈ اویئرنیس ویک کے دوران جاری کیا گیااس بات پر زور دیتا ہے کہ رویّہ جاتی خطرات کے جائزے اداروں کے اندر شامل کیے جائیں اور دھوکہ دہی کی روک تھام کو مقامی ثقافتی حقائق کے مطابق مربوط کیا جائے۔ صرف روایتی کنٹرول ایسے ماحول میں کافی نہیں جہاں تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی مالی، تجارتی اور صارفین کے نظام کو تبدیل کر رہی ہو۔علاقائی سروے میں رپورٹنگ کے عمل کی آسانی کا اوسط اسکور 3.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ثقافتی طور پر میں دھوکہ دہی ایشیا پیسیفک اے سی سی اے روی ہ جاتی کے مطابق کرتا ہے تیزی سے کے لیے
پڑھیں:
انتہا پسندی پر مبنی رجحانات اور نوجوان طبقہ
پاکستان میں انتہا پسندی پر مبنی پرتشدد رجحانات یا معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت سے جڑے مسائل ایک حساس اور سنگین مسئلہ بن گیا ہے ۔ سیاسی ،سماجی ،معاشرتی یا علاقائی ،لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی ہمیں یہ مسائل دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔بالخصوص نئی نسل یا نوجوان نسل میں عدم برداشت کا پہلو نمایاں طور پر سامنے آیا ہے۔
ہم ایک دوسرے سے عملی طور پر الجھتے جارہے ہیں ۔ایک دوسرے کے خیالات،فکر ،سوچ،مذہب، فرقہ ، زبان ، کلچر یا سماج اور ان کے رہن سہن کو قبول کرنے کی جگہ ہم ان کے بارے میں تعصب ،بغض یا سیاسی و فکری اختلافات کو دشمنی کا رنگ دینے میں بہت آگے تک چلے گئے ہیں ۔
تنقید کے بجائے ہمیں تضحیک اور ایک دوسرے کی مختلف رائے کو احترام دینے کے بجائے اسے دشمنی کے طور پر سمجھنا ہمارا قومی بیانیہ بنتا جارہا ہے ۔مکالمہ کا حسن اور اس کے طور طریقے یا سلیقہ بہت پیچھے چلاگیا ہے ۔اس کے مقابلے میں ہم مکالمہ کو نظر انداز کرکے طاقت کے استعمال کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنا کر اپنی حکمت عملی کو ترتیب دیتے ہیں۔انتہا پسندی،عدم برداشت کا نتیجہ پہلے پر تشدد رجحانات اور پھر دہشت گردی یا طاقت کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔
ایک عمومی رائے یہ موجود ہے کہ تعلیم نئی نسل کی اعلیٰ تربیت کا سبب بنتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان میں سیاسی ،سماجی اور مذہبی شعور کی بیداری کا احسا س پیدا ہوتا ہے ۔یہ عمل نئی نسل کو منفی رجحانات سے مثبت اور تعمیری رجحان کی طرف لے جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے سے اختلافات کے باوجود سب کے لیے اپنے اندر احترام کا رشتہ پیدا کرتا ہے ۔لیکن ہمارے تعلیمی نظام میں موجود مسائل یا ترجیحات میں تربیت کا عمل عملا پیچھے کی طرف چلاگیا ہے ۔
پاکستان میں سیاسی،سماجی اور علمی و فکری ماہرین کے بقول اگر ہم نے اپنی تعلیمی نظام میں ریاست میں موجود ان مسائل کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنا کر اسے تعلیمی نظام یا تربیت کا حصہ نہ بنایا تو معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی یا عدم برداشت جیسے اہم مسائل کا کوئی نتیجہ یا حل نہیں نکل سکے گا۔ایک حکمت عملی ہم نے ریاست اور حکومت کی سطح پر یہ اختیار کی ہوئی ہے کہ ہم نئی نسل کے مسائل کو سمجھنے یا اس کا ادراک نہ کرنے کے بجائے محض نئی نسل پر گالم گلوچ یا ان کو منفی انداز میں پیش کرکے سارا ملبہ نئی نسل پر ڈال دیتے ہیں۔
پنجاب میں خیبر پختون خواہ کے بعد صوبائی سطح پر پنجاب سینٹر فار ایکسیلنس برائے انتہا پسندی کے خلاف ایک باقاعدہ ادارہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر تشکیل دیا گیا ہے۔یہ ادارہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور ہوم سیکریٹری کی نگرانی میں تشکیل دیا گیا ہے ۔اس ادارے کو تعلیمی اداروں کی سطح پر یا وہ نوجوانوں کی سطح پر چلانے کے لیے تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کو بنیادی مرکز بنایا گیا ہے۔ احمد خاور شہزاد ڈپٹی کوارڈینیٹنگ آفیسر پنجاب مقرر کیا گیا ہے۔
ان کے بقول ان کی ترجیحات میں نوجوانوں کو مستحکم کرنا ،عورتوں کو مستحکم کرنا، مدارس اصلاحات ، ڈیجیٹل یا آن لائن سطح پر ہونے والے انتہا پسند رجحانات کو بنیاد بنا کر ہم مثبت انداز میں ریاست کے پرامن بیانیہ کو مستحکم کیا جائے گا۔اسی تناظر میں پنجاب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ سوشل اینڈ کلچر اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فرحان نوید یوسف اورڈی جی پنجاب محمد شاہد اقبال جو پروبیشن اینڈ پے رول سروس ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں کے زیر اہتمام ایک فکری نشست یا مکالمہ منعقد ہوا۔اس تقریب میں دیگر مقررین میں راقم کے علاوہ سعیدہ دیپ،قانونی ماہر یواین او ڈی سی پروفیسر سید حسنین حیدر اور ماہر تعلیم شانتی کماراور ڈین سوشل سائنسز ڈاکٹر ارم خالد شامل تھے۔اس مکالمہ میں طلبہ و طالبات سمیت بڑی تعداد میں اساتذہ نے بھی شرکت کی ۔
حکومت پنجاب یا ریاستی اداروں کی یہ موثر حکمت عملی ہے جس میں تعلیمی اداروں اور جامعات کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔میں خود ایسے کئی منصوبوں میں پنجاب کی مختلف جامعات اور دینی مدارس کے طلبہ و طالبات سمیت اساتذہ کے ساتھ مختلف نوعیت کی تربیتی پروگرام بطور ٹرینر کام کرچکا ہوں ۔اس علمی اور فکری نشست میں ڈی جی محمد شاہد اقبال اور سی ای وی کے پنجاب کے ڈپٹی کوارڈنیشن افیسرمحمد خاور شہزاد نے نوجوانوںمیں انتہا پسندی رجحانات پر اعداد وشمار کے ساتھ کئی اہم نکات اٹھائے۔جن میں اہم بات یہ ہی ہے کہ اس میں کچھ تحقیق کے پہلو اور تجزیہ بھی تھا جو نئی نسل کو عدم برداشت کی لے جانے کا سبب بنتی ہے۔
اصولی طور پر اگر اس اہم اور حساس مسئلہ کو تعلیمی اداروں یا جامعات کی سطح پر حکمت عملی کا حصہ بنانا ہے تو اس میں اہم کردار جامعات کے وائس چانسلر ،ڈین اور فیکلٹی کے ممبران کا ہے۔اسی طرح تعلیمی نصاب میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے، یہ واقعی ایک بڑا چیلنج ہے ۔یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اسٹوڈنٹس سوسائٹیوں کی تشکیل کو ممکن بنا کر اسے متحرک اور فعال کرکے اسے سرگرمیوں کا بنیادی مرکز بنائیں گی۔ڈیجیٹل لٹریسی کو باقاعدہ ایک بڑی علمی اور فکری مہم کی بنیاد پر چلانا ہوگا اور عملی طور پر بچوں اور بچیوں کے لیے نہ صرف جامعات بلکہ کالجز اور اسکولوں کی سطح پر ریاست،حکومت کی مختلف پالیسیوں کی آگاہی کی مدد سے ایک مثبت بیانیہ بنانا ہوگا۔
ردعمل یا نئی نسل پر غصہ نکالنے کے بجائے ان کے ساتھ مل بیٹھ کر کام کرنا ہوگااور ان کو مختلف مثبت سرگرمیوں کی بنیاد پران کے ساتھ جوڑ کرمعاشرے کو رواداری پر مبنی معاشرے کی طرف بڑھانا ہوگا۔یہ اچھی بات ہے کہ ہمیں لڑکیوں کو بھی اس تحریک کا حصہ بنانا ہوگا اور ان کی اس تحریک میں شمولیت نئے مثبت امکانات کو پیدا کرے گی۔نیشنل ایکشن پلان، پیغام پاکستان سمیت ریاست اورحکومتی سطح پر نئی بننے والی پالیسیوں پر ایک بڑی آگاہی اور شعور کی بیداری پر مبنی مہم کی ضرورت ہے۔
یہ کام محض رسمی تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات تک ہی محدود نہ ہوں بلکہ دینی مدارس کو بھی اس حکمت عملی کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔اسی طرح اس کام کو موثر بنانے کے لیے ہمیں ادارہ جاتی سطح کی اصلاحات یا اسٹرکچرل ریفارمزدرکار ہیں اور ان اداروں میں جوابدہی ،نگرانی سمیت شفافیت کا ایسا نظام بھی قائم کرنا ہوگاجہاں تمام فریق ایک دوسرے کے سامنے جوابدہ ہوں۔ایک بات یہ بھی سمجھنی ہوگی کہ محض طاقت کی بنیاد پر بیانیہ کارگر نہیں ہوسکتا اور یہ جنگ صرف ہم تعلیمی میدان اور علمی و فکری میدان میں ہی جیت سکتے ہیں۔