مانچسٹر کی سرد ہواؤں سے نکل کر لندن کا رخ کیا ، وہی لندن جو سیاحوں کا محبوب ترین شہر ہے۔ لندن سے جدائی کو آٹھ برس بیت چکے تھے۔ ہم بھی لندن کے رومانس میں مبتلا رہے ۔ اس مرتبہ سفر کا ارادہ پختہ تھا اور خوشی اس بات کی کہ ہم سفر بھی نہایت مہربان اور خوش مزاج تھے، عبداللہ حفیظ خان اور ذوالقرنین مہدی۔ ان دونوں کی خوش گپیوں نے مانچسٹر سے لندن کا فاصلہ پل بھر میں سمیٹ دیا۔ جونہی گاڑی ہوٹل کی پارکنگ میں رکی معلوم ہوا کہ لندن ہمارے سامنے کھڑا ہے۔
صبح سویرے ناشتے کے بعد عبداللہ حفیظ خان کی معیت میں لندن کی زیرِ زمین مشہور زمانہ ٹرین ٹیوب کا رخ کیا اور پکاڈلی سرکس جا پہنچے۔ پکاڈلی سے ٹہلتے ہوئے ٹرافلگر اسکوائر کی جانب بڑھے۔ یہاں کی چہل پہل، عمارتوں کی شان اور لوگوں کا تنوع دیکھ کر احساس ہوا کہ لندن واقعی دنیا کا ایسا چوراہا ہے جہاں ہر رنگ، ہر زبان اور ہر ثقافت کی گونج سنائی دیتی ہے۔
ٹرافلگر کے بعد دریائے ٹیمز کے کنارے پہنچے تو دریا کا مدھم بہاؤ اور اس کے اردگرد ایستادہ پرشکوہ عمارتیں دیکھ کر دل مسحور ہو گیا۔ برطانوی پارلیمان کی عمارت، بگ بین اور وکٹوریہ دور کے دوسرے حیرت انگیز آثارسبھی تاریخ کا ایک زندہ عجائب گھر محسوس ہوتے ہیں۔اسی راستے پر چلتے چلتے ہم بکنگھم پیلس جا پہنچے۔ اس محل کے مقیم وہی ہیں جن کے آباؤ اجداد نے تاجِ برطانیہ کی چھتری کے سائے میں صدیوں تک مشرق و مغرب پر حکمرانی کی۔ ہندوستان، آسٹریلیا، کینیڈا دنیا کے وہ علاقے جہاں کبھی نہ کبھی سورج ضرور چمکتا تھا اور اسی لیے کہا جاتا تھا کہ برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ آج بھی اس محل کے مکیں ماضی کی انھی خوشگوار یادوں کے سہارے زندگی گزر رہے ہیں۔
مرکزی لندن میں قدم قدم پر سیاح دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی فون تھامے تاریخی عمارتوں کی تصویریں اتار رہا ہوتا ہے تو کوئی آکسفورڈ اسٹریٹ کے مصروف بازاروں میں کھویا ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے برانڈ کا اسٹور یہاں موجود ہے اور اگر جیب اجازت دے تو خریداری کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ آکسفورڈ اسٹریٹ سے ذرا آگے بڑھیں تو مشہور ہیروڈز اسٹور بھی واقع ہے جو امراء کی دنیا ہے۔ البتہ ہم جیسے مڈل کلاسیئے یہاں ایک اچھی کافی پی کر دل خوش کر لیتے ہیں۔اس کے قریب ہی ہمارا سفارت خانہ ہے جہاں ایک تقریب میں ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل سے ملاقات ہوئی۔
انھیں پی آئی اے کی جانب سے اعزازی شیلڈ پیش کی گئی کیونکہ برطانیہ کے لیے پروازوں کی بحالی میں ان کا کردار لائقِ تحسین ہے۔ وہیں علی اعوان سے بھی ملاقات ہوئی جنھیں لندن میں مقیم ہمارے صحافی دوست ایک نہایت فعال پریس منسٹر کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ان کی خوش اخلاقی اورخوش مزاجی کے متعلق جیسا سن رکھا تھا ویسا ہی پایا۔
لندن ایک عجیب سا شہر ہے۔ یہاں انسان کو اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ چاہے دس برس بعد آئیں یا دس بار آئیں لندن آپ کا استقبال کھلے بازوؤں سے کرتا ہے۔ اس کے در و دیوار آج بھی ویسے ہی دکھتے ہیں جیسے برسوں پہلے تھے۔ نہ بدانتظامی، نہ بے ہنگم تعمیر ، یہ شہر جدید بھی ہے اور پرانے حسن کا امین بھی ہے۔ انھی دنوں لندن میں ورلڈ ٹریول مارکیٹ ایکسپو جاری تھی ، دنیا میں سیاحت سے متعلق سب سے بڑا میلہ یہی ہے۔
دنیا بھر کے ممالک نے اپنے اپنے اسٹال سجائے ہوئے تھے۔ رنگ، روشنی، آڈیو ویژول ڈسپلے، روایتی ملبوسات، دستکاری ہر چیز اس بات کی دلیل تھی کہ دنیا اپنی سیاحت پر کس قدر توجہ دے رہی ہے۔ انھی چھوٹے بڑے اسٹالوں کے درمیان پاکستان کا ایک سادہ سا اسٹال بھی موجود تھا جہاں ہمارے سیاحت کے نمایندے پاکستان کے خوبصورت مقامات وادی ہنزہ، سوات، شنگریلا، قراقرم ہائی وے کی تشہیر کرتے دکھائی دیے۔ مگر سچ یہ ہے کہ عالمی میلوں میں پاکستان کی موجودگی اس شان و شوکت کی حامل نہیں، جو ہونی چاہیے تھی۔ پڑوسی ملک کے بڑے اور جدید اسٹال کو دیکھ کر دل میں کسک پیدا ہوئی کہ اگر ہمارے اداروں کی سرپرستی مضبوط ہو تو پاکستان کی سیاحت دنیا کو خیرہ کر سکتی ہے۔
لندن آ کر صحافتی دوستوں سے ملے بغیر واپسی ممکن ہی نہیں۔ غلام حسین، شوکت ڈار اور آصف سلیم مٹھا۔سبھی نے محبت بھرے انداز میں دعوتیں دیں۔ مٹھا صاحب کا والد محترم سے پرانا تعلق تھا جو وہ آج تک نبھا رہے ہیں۔ غلام حسین نے اپنے لندنی ڈیرے پر ایسی پرتکلف محفل سجائی کہ رات ڈھلتے دیر نہ لگی۔
لیکن یہاں دفتر کی غیر حاضری بڑی مشکل سے معاف ہوتی ہے، اس لیے بادل نخواستہ محفل برخاست کرنا پڑی۔لندن میں ہر شہر، ہر ضلع اور ہر علاقے کا کوئی نہ کوئی پاکستانی ضرور ملتا ہے۔ برسوں بعد اپنے دیرینہ دوست ساجد تارڑ سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے تو ہمیں اسٹیشن سے پک کیا اور واپس اسی اسٹیشن تک چھوڑنے آئے۔ یہی اصل پاکستانی محبت ہے جو پردیس میں مزید گہری ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وادی سون کے ہمارے دوست نصیر ملک سے بھی ملاقات ہوئی جنھوں نے علاقہ داری کا حق ادا کرتے ہوئے قدم قدم پر ساتھ رکھا، لندن گھمایا اور ذائقے دار کھانے کھلائے۔
مدعا یہ ہے کہ لندن کی ہوا میں ایک سکون ضرور ہے لیکن یہاں مقیم پاکستانی دل سے اپنے وطن سے جڑے رہتے ہیں۔ سیاسی اور معاشی حالات پر فکر مندی ضرور ہے مگر ناامیدی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حالات ضرور بدلیں گے بس ہمارے اربابِ اختیار کو دل تھوڑا وسیع کرنا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ملاقات ہوئی
پڑھیں:
دہشت گردی کی حالیہ لہر …نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!
ملک میںدہشت گردی کی ایک نئی لہر آئی ہے جس میں وانا میں کیڈٹ کالج اور اسلام آباد میں جوڈیشل کمپلیکس پر حملے شامل ہیں۔ وانا کیڈٹ کالج میں سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی سے تمام بچوں کو تحفظ مقام پر منتقل اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا
۔دوسری طرف اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس پر حملے میں 12 افراد شہید اور دو درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ سکیورٹی فورسز دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے بڑے اقدامات کر رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے ضلع بنوں اور لکی مروت میں 7 خوارج کو ہلاک کیا جبکہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز بھی جاری ہیں۔ ان تمام واقعات کے پیش نظر ’’ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر اور تدارک کیلئے اقدامات‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی معاشی اور دفاعی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
کرنل (ر) فرخ چیمہ
(دفاعی تجزیہ کار)
وطن عزیز میں گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کا ناسور موجود ہے جسے کئی بار ختم کیا گیا لیکن یہ کہیں نہ کہیں سے پھوٹ پڑتا ہے۔ دہشگت گردی کی جڑیں کسی ایک جگہ نہیں ہوتیں لہٰذا سب سے پہلے ہمیں بین الاقوامی معاملات کا جائزہ لینا ہے۔اس خطے میں بڑی طاقتیں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ان کی توجہ اس خطے خصوصاََ ایران، پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرکے یہاں کی معدنیات اور اپنے سٹرٹیجک اہداف حاصل کرنے پر ہے۔ اس کیلئے بین الاقوامی طاقتیںاپنا زور لگا رہی ہیں اور ان کے درمیان بھی رسہ کشی جاری ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ علاقائی طاقتیں کیا چاہتی ہیں۔ افغانستان اور بھار ت کا گٹھ جوڑ ہمیشہ سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اورعالمی فوائد حاصل کرنے کیلئے کام کرتا ہے۔ جونہی افغانستان اور ہمارے درمیان معاملات کشیدہ ہوئے تو بھارت نے اس کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔
حال ہی میں دہشت گردی کے دو بڑے واقعات ہوئے ہیں، ایک وانا میں کیڈٹ کالج پر اور دوسرا اسلام آباد میں کچہری پر حملہ ہوا۔ کیڈٹ کالج پر پہلے خودکش دھماکہ ہوا اور پھر حملہ کیا گیا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے حملہ آور جہنم واصل کیے گئے ، ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دوسری طرف اسلام آباد کچہری پر خودکش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں درجن کے قریب افراد شہید اور دو درجن سے زائد زخمی ہوئے۔
یہ کہنا کہ آج تک دہشت گردوں کو روکا کیوں نہیں گیا درست نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب خودکش بمبار خود کو تیار کرکے نکل پڑے تو وہ نقصان کرکے ہی جاتا ہے۔ اگر اسے ٹارگٹ پر پہنچنے سے پہلے اسے روکا جائے یا تیاری سے پہلے ہی پکڑ لیا جائے تو بچت ہوسکتی ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری سکیورٹی فورسز نے خودکش بمبار کو پہلے ہی گولی سے اڑا دیا۔ اب دہشت گردی کی حالیہ لہر میں دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے کہ دہشت گردی سے خود کو محفوظ کر سکیں۔ہماری انٹیلی جنس ادارے اور فورسز بہترین کام کر رہی ہیں، ہمیں اپنی انٹیلی جنس کو مزید تیز کرنا ہے۔
ہمیں کسی بھی ممکنہ حملے سے پہلے ہی اس کو روکنا ہے۔ اس کیلئے عوام کی شمولیت اور تعاون بہت ضروری ہے۔ عوام اداروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، اسے مزید بہتر بنانا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر ہم صرف لاہور کے سکولوں کا جائزہ لیں تو وہاں سکیورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔
کسی کو نہیں معلوم کہ اگر خدانخواستہ کوئی مشکل صورتحال پیدا ہوجاتی ہے تو کیا کرنا ہے، اس سے کیسے نمٹنا ہے، رپورٹ کیسے کرنا ہے، بچوں کو محفوظ راستہ کیسے دینا ہے؟ اس وقت ہمیں تیاری کی اشد ضرورت ہے، ہمیں لوگوں کو سمجھانا اور تیار کرنا ہے، پھر ہی یہ دہشت گردی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکیں گے۔ ہمیں ملک اور ملک سے باہر اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید بہتر کرنا ہے اور سفارتی سطح پر بھی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتا ہے، آئندہ بھی جیتے گا، انشاء اللہ!
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات)
جب سے جنرل ضیاء الحق نے سوویت یونین کے خلاف امریکا کے تعاون سے لڑائی کا آغاز کیا تب سے آج تک، ہمارے ہاں دہشت گردی ختم نہیں ہوئی۔ کئی برس تک خیبر پختونخوا میں روزانہ دہشت گردی کے واقعات ہوئے ، پھر بیرونی طاقتوں نے بلوچستان نیشنل آرمی کی فنڈنگ کی تو بلوچستان میں بھی دہشت گردی شروع ہوگئی۔
ہندوستان سے ہماری لڑائی پرانی ہے،ا س کے ساتھ کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک میں مسائل پیدا ہوئے اور سافٹ ٹارگٹس پر دہشت گردی ہوئی۔ ہماری بہادر افواج نے دہشت گردی کے خلاف ملک بھر میں کارروائیاں کی ہیں، بڑے آپریشنز بھی کیے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں متعدد بڑے آپریشنز ہوچکے ہیں۔ امریکا کی افغانستان میں جنگ کے برے اثرات بھی پاکستان پر پڑے ہیں۔ یہاں طالبان بنے ، وہ استعمال ہوئے اور ہمارے لیے مزید مسائل پیدا ہوگئے۔ آج بھی طالبان کی وجہ سے دہشت گردی ہو رہی ہے، تحریک طالبان پاکستان یہاں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔
دہشت گردی کی ایک وجہ غربت بھی ہے۔ پاکستان میں غربت کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے، بے روزگاری بھی ہے۔ دہشت گرد جو افغانستان میں بیٹھے ہیں، جنہیں بھارت و دیگر مالی تعاون فراہم کر رہے ہیں،وہ 5 لاکھ سے 50 لاکھ روپے میں بچے خرید لیتے ہیں اور ان سے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ عراق اور شام میں داعش بنی۔ اس کا خراسانی حصہ پاکستان اور افغانستان میں آیا ، تحریک طالبان پاکستان بھی یہاں موجود تھی۔
امریکا جب افغانستان سے گیا تو یہ سب افغانستان میں چلے گئے اور اب وہاں سے آپریٹ کرتے ہیں۔ طالبان حکومت ان سے فائدہ بھی اٹھاتی ہے۔ افغانستان میں بعض جگہ تو حکومتیں بھی مختلف گروہوں کی ہیں۔ رواں برس مئی میں ہم نے بھارت کو بدترین شکست دی، اس کے جہاز گرائے جس سے عالمی سطح پر اس کی سبکی ہوئی۔ اپنی خفت مٹانے کیلئے اس نے ان گروہوں کی مدد شروع کر دی ہے۔ جب ہم نے 3 ملین سے زائد افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا شروع کیا تو ان کے مسائل پیدا ہوئے،ا فغانستان نے ان کا بدلہ بھی ہم سے لینا شروع کیا ہے۔
یہ سب دہشت گردی کی نئی لہر کے عوامل ہیں۔ ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں 80 ہزار سے زائد قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے بچے محفوظ نہیں ہیں۔ پہلے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ ہوا تھا، اب کیڈٹ کالج وانا پر حملہ کیا گیا۔ اس مرتبہ شکر ہے کہ ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی سے سب محفوظ رہے اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا۔ دہشت گرد ظالم لوگ ہیں۔ افغانستان میں ان لوگوں کا روزگار ہی قتل و غارت، اغواء برائے تاوان جیسی وارداتوں سے جڑا ہے۔
ہم ان کا قلع قمع تو کرتے رہے ہیں لیکن غربت کی وجہ سے دونوں اطراف کے لوگ استعمال ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے یہاں بیرونی سرمایہ کاری نہیں آتی۔ چین بھی رکا ہوا ہے، بڑی کمپنیاں یہاں سے جا رہی ہیں۔ ہم نے اپنی معیشت کو ٹھیک نہیں کیا۔ یہاں گورننس کے مسائل بھی ہیں۔ عوام اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد کا معاملہ بھی ہے۔ صوبوں اور وفاق کے درمیان لڑائی بھی موجود ہے۔ فاٹا کے عوام کو ان کا حق نہیں مل رہا۔ بلوچستان کی معدنیات کا فائدہ ان کے عوام نہیں وڈیروں کو مل رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہماری تجارت تھی،ا سے بند کرنے سے نقصان ہو رہا ہے۔ انار 1500 روپے ، ٹماٹر 500 روپے اور پیاز 250 روپے فی کلو تک مہنگا ہوگیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری فصلیں تو سیلاب کی نذر ہوگئیں، یہ سبزیاں افغانستان سے آتی تھیں، تجارت بند ہونے سے یہاں قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا۔ افغانستان اور ایران سے سمگلنگ تو ہو رہی ہے لیکن اصل تجارت کو نقصان ہوا ہے۔ اس وقت ہمیںخطے کے تمام ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ مذاکرات اس لیے ڈیڈلاک کا شکار ہوئے کیونکہ افغان حکومت دہشت گرد گروہوں پر قابو نہیں پاسکتی۔میرے نزدیک گفتگو صرف ان گروہوں سے ہو سکتی ہے جو ہتھیار پھینک دیں، دہشت گردوں سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔ ہمیں افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ ایسے بے شمار افراد ہیں جو یہاں کاروبار کر رہے ہیں، ان کی شادیاں یہاں ہوئی ہیں، بچے یہاں پیدا ہوئے، ان کے زندگی کے معاملات یہاں سے جڑے ہیں۔
انہیں فوری واپس نہ بھیجیں،ا س کا ہماری معیشت پر برا اثر پڑے گا۔ دہشت گردی اب اسلام آباد تک پہنچ چکی ہے ۔ یہ اس وقت پہنچی جب ملک میں 27 ویں آئینی ترمیم اور عالمی پارلیمانی کانفرنس ہو رہی تھی۔ ہم دنیا کو امن دکھا رہے تھے لیکن دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ ہوگیا۔ میرے نزدیک ہمیں بھارت کے ساتھ سنجیدگی سے بات کرنا ہوگی، اب جہاز گرانے کی باتیں چھوڑ کر تجارت کی طرف جانا چاہیے۔ ہمیں ایران کے ساتھ بھی تجارت کو فروغ دینا ہے۔ ہمیں سی پیک منصوبے کو آگے بڑھانا ہے، اس میں افغانستان کوبھی شامل کیا جائے۔ ہمیں خطے کے تمام ممالک کو انگیج کرنا اور تجارت کو فروغ دینا ہے۔ ہمیں اس خطے کے بچوں کو جدید تعلیم، ہنر اور روزگار دینا ہوگا۔ اگر یہ کام ہوگیا تو خطے سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔
ڈاکٹر زمرد اعوان
(ماہر امور خارجہ)
دہشت گردی کے حالیہ حملوں کے بارے میں پاکستان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے جبکہ دوسری طرف افغان حکومت کا موقف ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا معاملہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، اس میں افغانستان کی سرحد استعمال نہیں ہو رہی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ’بی ایل اے‘ کی پشت پناہی میں بھی افغانستان کا اہم کردار ہے۔
پاک افغان کشیدگی ختم کرنے میں قطر، سعودی عرب اور ترکیہ نے کردار بھی ادا کیا، معاہدہ بھی ہوا لیکن زیادہ دیر چل نہیں سکا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ معاہدہ تو کرلیں لیکن اسے پورا کرنے کیلئے جس کمٹمنٹ کی ضرورت ہے وہ نہ ہو۔ یہاں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس خطے میں امریکا، یورپ اور مغربی طاقتیں جس طریقے سے متحرک رہیں اور افغانستان ہی وہ وجہ تھی جس کیلئے یہ طاقتیں یہاں آئیں، وہ حالات آج نہیں ہیں۔ اب خطے کو خود سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے اور ان مسائل کیلئے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے نسلی اور مذہبی حوالے سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔
خاص طور پر پاکستان میں ایک بہت بڑی آبادی پشتون ہے، سرحدی وقبائلی علاقوں کے لوگوں کی دونوں ممالک میں آپس میں شادیاں اور رشتے داریاں ہیں۔ اس حساب سے دونوں ممالک کو بڑی احتیاط کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بات صرف حکومتوں کی کشیدگی کی نہیں ہے بلکہ اس کا اثر دونوں ممالک کی آبادی پر بھی ہو رہا ہے۔ جب بھی پاک افغان کشیدگی ہوتی ہے تو بارڈر بند کر دیا جاتا ہے، تجارت روک دی جاتی ہے جس کا خاص طور پر سرحدی علاقوں میں رہنے والی آبادی پر برا اثر پڑتا ہے۔ یہ اس وقت زیادہ اہم اس لیے ہے کہ فاٹا کے یہ علاقے کچھ عرصہ قبل ہی خیبر پختونخوا میں ضم ہوئے ہیں۔
یہ اپنے حساب سے بہت سارے معاشی اور علاقائی مسائل سے گزر رہے ہیں لہٰذا ضروری یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، کشیدگی جتنی بھی ہو، دونوں ممالک بعض معاملات پر اتفاق کر لیں جن میں سب سے پہلا یہ ہے کہ سرحد کسی بھی حالت میں تجارت کیلئے بند نہ کی جائے۔ بہت سارے ٹرک جو بارڈر پر رکے ہوتے ہیں ان میں پھل یا ایسی اشیاء ہوتی ہیں جو خراب ہو جاتی ہیں اور لوگوں کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سرحدی آبادی کی معاشی اور انسانی حفاظت بہت ضروری ہے۔افغانستان سے بہت سارے لوگوں کو یہاں سے مدد کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے خاندان یہاں ہیں، لوگ علاج کیلئے بھی یہاں آتے ہیں لہٰذا وہ پابندی سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ افغان سرزمین دہشت گرد ی کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہیے، دونوں ممالک کو معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔
بھارت کے ساتھ پاکستان کا جنگ کا ماحول رہا۔ اب افغانستان کے ساتھ مسائل پیدا ہو رہے ہیں، پاکستان یہاں سرحدی مسائل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کیلئے علاقائی تعاون کویقینی بنانا ضروری ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت یہ کا موقف یہ ہے کہ جب تک عوامی نمائندے پالیسی نہیں بنائیں گے تب تک اس خطے میں امن نہیں آسکتا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاہدوں کو لے کر اعتماد کا فقدان ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ ہونے کے باوجود حالات خراب ہوئے۔ دونوں ممالک کی معیشت اس قابل نہیں ہے کہ وہ جنگ کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اگر جنگ ہوئی تو خطے میں پھیلے گی جس میں گروہ بندیاں بھی ہوں گی۔ ممکن ہے کہ بھارت افغانستان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالے لہٰذا پاکستان اور افغانستان دونوں کو اس معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے۔
Tagsپاکستان