Express News:
2025-11-18@23:12:27 GMT

کیا نظام بدل گیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT

27ویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا ملک کا نظام حکومت مضبوط ہوا یا کمزور۔ آئینی ترامیم حکومتیں اپنے اقتدار کو مضبوط اور نظام کو استحکام دینے کے لیے کرتی ہیں۔ آئینی ترامیم کبھی اپوزیشن نہیں کرتی۔ کیونکہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکا ر ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پا س سادہ اکثریت ہو تو آپ حکومت بنا لیتے ہیں۔ اس لیے دو تہائی کے ساتھ اپوزیشن میں ہونا نا ممکن ہے۔ اس لیے آئین میں ترمیم کرنا اور قانون سازی کرنا بنیادی طو رپر حکومت کا ہی استحقاق ہے۔ حکومت چاہے تو اپوزیشن کو شامل کر سکتی ہے۔ اس کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن زیادہ مواقع پر حکومت نے خود ہی آئین سازی اور قانون سازی کی ہے۔

قانون سازی آسان کام ہے۔ اس کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ حکومت سادہ اکثریت پر ہی بنتی ہے۔ اگر مخلوط حکومت ہو تو قانون سازی مشکل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آپ کو اتحادیوں کو منانا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس خود سادہ اکثریت موجود ہو تو پھر قانون سازی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ آئین میں ترمیم کے کے لیے دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کو ملنا فطری نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی اپوزیشن اس سے دور ہی رہتی ہے۔

اب موجود ترامیم کو دیکھیں۔ دوستوں کی رائے کہ اس ترمیم سے ملک میں نظام حکومت ہی بدل دیا گیا ہے۔ آئین کی بنیادی شکل ہی بدل دی گئی ہے۔ مجھے ان کی یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ کیا ملک میں آئینی معاملات دیکھنے کے لیے ایک الگ آئینی عدالت کے قیام سے ملک کے آئین کی شکل ہی بدل گئی ہے؟ کیا آئینی عدالت کے قیام سے نظام حکومت کی بنیادی شکل ہی بدل گئی ہے؟ آئینی عدالت میں بھی جج ہی لگائے گئے ہیں۔ آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے۔

عدلیہ یہ کام ججز کے ذریعے کرتی ہے۔ اب 27ویں ترمیم کے بعد ملک کے آئین کی تشریح کاکام عدلیہ ہی کرے گا۔ جج ہی یہ کام کریں گے۔ نہ تو حکومت نے آئین کی تشریح کے راستے بند کیے ہیں۔ نہ ہی یہ کام ججز سے لے کر کسی اور کو دے دیا گیا ہے۔ مسئلہ تو تب ہوتا جب آئین کی تشریح کا کام عدلیہ سے لے کر کسی اور کو دے دیا جائے۔ ایسا نہیں ہوا۔ عدلیہ میں نئی عدالتوں کا قیام کوئی نیا کام نہیں ہے۔

کیا آئینی عدالت کے قیام سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی دلیل نہیں ، اگر کوئی خاص جج ہی آئینی کیس سنیں گے تو عدلیہ آزاد ہے، اگر وہ کیس نہ سنیں تو عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ سب جج برابرہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ جج کا نام سن کر ہمیں ان کی سیاسی سوچ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے ۔ معاشرہ میں سیاسی تقسیم ہونا کوئی بری بات نہیں۔ لیکن نظام انصاف میں سیاسی تقسیم کوئی اچھی بات نہیں۔ نظام انصاف کو بہر حال غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہوناچاہیے۔ اس لیے آج تنازعہ یہ نظر آرہا ہے کہ اب مخصوص جج آئینی معاملات کیوں نہیں سن سکیں گے۔ کیا آئینی عدالت الگ بننے سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ تو اس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہے۔ عدلیہ میں کام کی تقسیم کی گئی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عام آدمی کے مقدمات کی سپریم کورٹ میں باری ہی نہیں آرہی۔ ہزاروں لاکھوں مقدمات زیر التو ہیں۔ ججز آئینی معاملات میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی۔ آج کی ترمیم ان مسائل کی وجہ سے بھی کی گئی ہے۔ میں صرف یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا عدلیہ کا سیاسی ایجنڈا نظر نہیں آرہا تھا؟ کیا عدلیہ کے چند ججز کی خاص سیاسی سوچ پوری عدلیہ پر غالب نظر ہوتی نظر نہیں آرہی تھی؟ معاملات غیرجانبدار نہیں رہے تھے۔

دوسرا مسئلہ ججز کے تبادلے کا ہے۔ کیا جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلے سے عدلیہ کی غیر جانبد اری ختم ہو جاتی ہے؟ یہ کیا منطق ہے کہ اگر جج صاحب ایک ہا ئی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ چلے جائیں گے تو ان کی آزادی ختم ہو جائے گی۔کیس تو ملک کے عام آدمی کا سننا ہے۔ انصاف تو عام آدمی کو دینا ہے۔ اب عام آدمی کا تعلق کس صوبے سے ہے، یہ کیوں اہم ہے۔ ایک ہائی کورٹ میں ہی جج کے فرائض دینا ہی کیوں عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے۔ تبادلہ ایک روٹین کا عمل ہے۔ فوج کے بڑے افسران کے تبادلے ہوتے ہیں۔

افسر شاہی میں تبادلے ہوتے ہیں۔ تبادلے کو انتقامی کارروائی کب سے سمجھا جانے لگا ہے، خاص جگہ پر فرائض دینے سے آپ آزاد ہیں۔ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاص کیس سنیں گے تو آزاد ہیں۔ ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاس بنچ میں ہونگے تو آزاد ہیں ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ یہ منطق کوئی قابل فہم نہیں ہے۔ ایک تبادلے کے اختیار سے نہ تو عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے اور نہ ہی ملک میں عدالتی نظام میں کوئی بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ وہی نظام ہے۔ پھر جج کے تبادلے کا نظام اٹھارویں ترمیم سے پہلے آئین میں موجود تھا۔ دوبارہ آگیا ہے۔ اس میں ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ اب ججز کے استعفوں کی بھی بات کر لیں۔ ابھی تک استعفے کم آئے ہیں۔ توقع سے کم آئے ہیں۔ جو آئے ہیں ان کی وجوہات الگ ہیں۔ وہ صرف 27ویں ترمیم کی وجہ سے نہیں آئے ہیں۔

اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ ان ججز کی رائے ہم سب کے سامنے ہی ہے۔ ان کے فیصلے ان کی سوچ کے عکا س رہے ہیں۔ اب ان کے استفعوں کو بھی ان کی اسی سوچ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا اور استعفیٰ آئیں گے؟ حکومت کہہ رہی ہے کہ نہیں آئیں گے۔

عام رائے ہے کہ آئیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ استعفوں کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ زیادہ استعفیٰ آئیں۔ اس لیے معاملا ت رک گئے ہیں۔ بات ہو رہی ہے۔ورنہ استعفے تو اکٹھے ہی آنے چاہیے تھے۔ ایک سوال سب پوچھتے ہیں کہ کتنے استعفے آئیں تو بات بن جائے گی۔ میں کہتا ہوں اگر استعفوں کا عدلیہ کے تناظر میں دیکھنا ہے تو سب کو دینے ہوںگے ورنہ سیاسی تقسیم کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ہم خیال ججز کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ابھی تک جتنے آئے ہیں، وہ بہت ہی ناکافی ہیں۔ اسی لیے کسی تحریک کا کوئی ماحول نظر نہیں آرہا۔ بات سمجھیں۔ لوگ اتنے بیوقوف نہیں کہ چند استعفوں کے جھانسے میں آجائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی ا زادی ختم ہو عدلیہ کی ا زادی ا ئین کی تشریح کے تناظر میں ا ئینی عدالت سادہ اکثریت ا زاد نہیں ہائی کورٹ جائیں گے ا ئے ہیں نہیں ہے ہے کہ ا گئی ہے نہیں ا ججز کے اس لیے کے لیے ئیں گے ہی بدل گیا ہے

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم پر آزاد کشمیر کی حکومت پی پی کی جھولی میں ڈال دی جائے گی، لیاقت بلوچ

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو بھی قومی قیادت کے خلاف دل آزار باتیں کام نہیں آئیں۔ موجودہ حکمرانوں کو بھی دل آزار باتیں کام نہیں آئیں گی۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر  لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے بعد تحفتاً آزاد کشمیر کی حکومت پیپلز پارٹی کی جھولی میں ڈال دی جائے گی۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو بھی قومی قیادت کے خلاف دل آزار باتیں کام نہیں آئیں۔ موجودہ حکمرانوں کو بھی دل آزار باتیں کام نہیں آئیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اجتماع عام جماعت اسلامی کی تیاریوں کی فل ڈریس ریہرسل آج ہو گی۔ واضح رہے کہ جماعت اسلامی کا  کُل پاکستان اجتماع عام 21 تا 23 نومبر کو لاہور میں منعقد ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • استثنیٰ کسی کے لیے نہیں
  • ملک میں شرافت‘ آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے‘ سلمان اکرم راجا
  • آئینی ترمیم کیخلاف آزاد عدلیہ کے حامیوں سے ملکر احتجاج کرینگے،تحریک تحفظ آئین پاکستان
  • آج اس ملک میں شرافت، آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ، سلمان اکرم راجا
  • آئینی ترمیم کیخلاف آزاد عدلیہ کے حامیوں سے مل کر احتجاج کرینگے، تحریک تحفظ آئین پاکستان
  • کوئی شک نہیں ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، وزیراعظم
  • ای کامرس کے فروغ کیلیے ورک فورس روڈ میپ کی ضرورت ہے،ماہرین
  • 27ویں آئینی ترمیم پر آزاد کشمیر کی حکومت پی پی کی جھولی میں ڈال دی جائے گی، لیاقت بلوچ
  • ایم کیو ایم کے 27ویں ترمیم میں بلدیاتی ترامیم شامل نہ کرنے پر تحفظات