data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اب اِسے لطیفہ نہیں تو اور کیا جائے گا کہ مودی سرکار نے اُن تمام بھارتیوں کو افلاس زدہ افراد کے زُمرے سے نکال دیا ہے جو یومیہ پانچ ڈالر تک کماتے ہیں۔ بھارتی وزیر ِاعظم اور اُن کے ساتھ ساتھ رہنے والے وزیروں اور دیگر رفقائے کار کا کہنا ہے کہ جو لوگ یومیہ پانچ ڈالر تک کماتے ہیں وہ مڈل کلاس کا حصہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔ سبیر بھاٹیہ کا شمار اُن چند بھارتی نژاد ارب پتی آجروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اہل ِ بھارت سے روا رکھے جانے والے انتہائی نوعیت کے سُلوک کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور حکومت کو لتاڑنے میں کبھی تساہل سے کام لیا نہ بُخل سے۔ اُنہوں نے جب بھی رائے دی اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔
سبیر بھاٹیہ نے ڈیڑھ دو ماہ قبل بھی ایک پوڈ کاسٹ میں بتایا تھا کہ بھارت میں علم و فن اور تحقیق کے محاذ پر کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ شور بہت مچایا جارہا ہے مگر عملی سطح پر ایسا کچھ نہیں کیا جارہا جو بھارت کو آگے لے جاسکے۔ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے اور اِس کا فائدہ وہ خوب اٹھا رہا ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ فطری علوم و فنون اور دیگر شعبوں میں اپنے آپ کو منوانے کی بھی اہلیت رکھتا ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سبیر بھاٹیہ نے بتایا تھا کہ بھارت کے انجینئرز میں علم و فن کا معیار پست ہے۔ وہ عملی میدان میں کچھ زیادہ کر دکھانے کے قابل نہیں ہو پائے ہیں۔ بیشتر انجینئرز میدان میں نکل کر کچھ کرنے کے بجائے انتظامی عہدے سنبھال کر سُکون کا سانس لیتے ہیں اور اپنے لیے ایک شاندار کمفرٹ زون قائم کرلیتے ہیں۔
سبیر بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ بھارت میں عام آدمی کا بہت بُرا حال ہے مگر مودی سرکار جھوٹ کر لوگوں کو دھوکا دینے میں مصروف ہے۔ ملک بھر میں انتہائی افلاس زدہ زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کم و بیش ۹۰ کروڑ ہے۔ اب مودی سرکار نے نیا ڈراما رچایا ہے۔ افلاس کی نئی تعریف و توضیح متعارف کرائی گئی ہے۔ یومیہ دو سے تین ڈالر کمانے والے تو افلاس زدہ کہلاتے ہیں اور حکومت مُصِر ہے کہ جو لوگ یومیہ پانچ ڈالر تک کماتے ہیں اُنہیں لوئر مڈل کلاس میں شمار کیا جائے۔ سبیر بھاٹیہ نے سوال اٹھایا ہے کہ یومیہ پانچ ڈالر تک کمانے والے کیا اچھا کھالیتے ہیں، اچھی رہائش رکھتے ہیں، بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھالیتے ہیں اور کیا وہ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی صحت کا کماحقہ خیال رکھ پاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ بھارت میں اِس وقت مہنگائی کی جو سطح ہے اُس کے پیش ِ نظر یومیہ پانچ ڈالر کمانے والے دو وقت کی روٹی کا اہتمام بھی بمشکل کر پاتے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں مڈل کلاس میں سے قرار دینا لطیفہ ہی نہیں، ستم ظریفی بھی ہے۔ یومیہ پانچ ڈالر تک کمانے والوں کی تعداد بھارت میں ۲۵ کروڑ تک ہے۔ یہ لوگ اب حکومت کی طرف سے انتہائی کم قیمت پر فراہم کی جانے والی غذائی اجناس بھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں سبیر بھاٹیہ نے لکھا ہے کہ ذرا مودی سرکار ہی بتائے کہ کوئی شخص محض پانچ ڈالر یومیہ کماکر اپنے اور اپنے اہل ِ خانہ کے لیے ایک مستحکم اور پُرسکون زندگی کا اہتمام کرسکتا ہے۔ ایسا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ بھارت میں اِتنا کمانے والے بے چارے ڈھنگ سے جینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار کرنے کا بھی نہیں سوچ سکتے۔ ایک طرف مہنگائی ہے اور دوسری طرف بے روزگاری۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری لوگوں کے ذرائع ِ معاش پر ویسے ہی بہت زیادہ دباؤ مرتب کرتی ہے۔ سبیر بھاٹیہ نے لکھا ہے کہ یومیہ پانچ ڈالر کمانے والے تو بے چارے ڈھنگ سے کسی اچھے مکان میں کرائے پر بھی نہیں رہ سکتے۔ ایسے میں اُنہیں اِس ’’آمدنی‘‘ کی بنیاد پر ٹیکنیکل اپ گریڈیشن دینا ستم ظریفی کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت کے شہروں میں مہنگائی اِس قدر ہے کہ مڈل کلاس کہلانے کے حق دار وہ لوگ ہیں جو سالانہ ۷۰ لاکھ روپے تک کماتے ہیں۔ دہلی، ممبئی، چنئی، بنگلور، حیدر آباد، احمد آباد اور دوسرے بڑے شہروں میں مکانات بہت مہنگے ہیں۔ عام آدمی تو زندگی بھر مکان بنانے یا خریدنے کا محض خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ ممبئی میں زمین کی قیمت اِس قدر ہے کہ سُن کر یقین ہی نہیں آتا۔ وہاں تو کروڑوں کمانے والے بھی شاندار طرزِ رہائش کو ترس جاتے ہیں۔ بہت سے اداکار ایسے ہیں جو کروڑوں کما کر بھی جوہو کے علاقے میں اپارٹمنٹ تک نہیں خرید پائے۔ اِس علاقے میں کامیاب اداکاروں اور دیگر مالدار افراد کی رہائش ہے۔
سبیر بھاٹیہ کی تنقید نے ملک بھر میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ لوگ مودی سرکار کو پوری قوت سے ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔ ایکس اور دیگر سوشل میڈیا پورٹلز پر شدید نکتہ چینی کی جارہی ہے، لعن طعن پر مبنی تبصروں کی بھرمار ہے۔ ایک شخص نے لکھا کہ اگر آپ اگلے وقت کے کھانے کے لیے بھیک مانگنے سے بچ جائیں گے تو آپ کا شمار مڈل کلاس میں ہوگا۔ سوشل میڈیا پر لوگ اِس بات کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں کہ ۲۵ کروڑ افراد کو افلاس زدہ لوگوں کے زُمرے سے نکال کر اُنہیں حکومت کی طرف سے ملنے والی سستی اشیائے خور و نوش اور دیگر آئٹمز کے لیے غیر مستحق قرار دے دیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت چاہے کچھ بھی کہتی پھرے، زمینی حقیقت یہ ہے کہ ۴۰ کروڑ سے زائد بھارتی باشندے آج بھی حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی سستی اشیائے خور و نوش کی مدد سے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کر پارہے ہیں۔ (بزنس ٹوڈے)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سبیر بھاٹیہ نے مودی سرکار کمانے والے افلاس زدہ بھارت میں مڈل کلاس بھی نہیں اور دیگر اپنے ا ا نہیں کے لیے
پڑھیں:
چین کی غذائی پیداوار چودہویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران نئی بلندی پر پہنچ گئی
چین کی غذائی پیداوار چودہویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران نئی بلندی پر پہنچ گئی WhatsAppFacebookTwitter 0 16 September, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چین کی ریاستی کونسل کے نیوز آفس نے ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں زراعت اور امور دیہات کے شعبے کے عہدیدار نے “چودہویں پانچ سالہ منصوبہ” کے دوران زراعت اور دیہات میں اعلیٰ معیاری ترقی سے متعلق صورتحال سے آگاہ کیا۔
منگل کے روز پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ “چودہویں پانچ سالہ منصوبہ” کے دوران چین میں اناج کی پیداوار نئی بلندی تک پہنچ گئی ۔2024 میں زرعی پیداوار پہلی بار 0.7 ٹریلین کلوگرام سے تجاوز کر گئی ، جو 2020 کے مقابلے میں 37 ارب کلوگرام کا اضافہ ہے۔ اس وقت چین میں فی کس اناج کی دستیابی 500 کلوگرام تک پہنچ گئی ہے،
جو بنیادی طور پر اناج کی خود کفالت اور غذائی تحفظ کو یقینی بناتا ہے، اور خوراک کی سیکیورٹی کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسانوں کی زندگی کے معیار میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ “چودھویں پانچ سالہ منصوبہ” کے دوران، کسانوں کی آمدنی میں تیز اضافہ جاری ہے، اور 2024 میں دیہی رہائشیوں کی فی کس دستیاب آمدنی 23119 یوان تک پہنچ گئی ہے ۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاک بھارت ٹاکرے کے متنازع میچ ریفری ’اینڈی پائی کرافٹ‘ کون ہیں؟ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ کا شرح سود برقرار رکھنے پر رد عمل ’’چین میں ہر جگہ مواقع ہیں‘‘،غیرملکی سرمایہ کار موجودہ حکومت کے 16ماہ میں قرضوں میں 13ہزار 78ارب روپے کا اضافہ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام کاٹریڈ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیشن کے قیام کا خیر مقدم امریکہ سے درآمد کردہ متعلقہ اینلاگ آئی سی چپس کے خلاف اینٹی ڈمپنگ تحقیقات کا آغاز،چینی وزارت تجارت پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے کا امکان، قیمت میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے؟Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم