لاہور کے درخت زد پر آتے ہیں تو ممتاز ادیب انتظار حسین کی یاد ضرور آتی ہے جنہیں درخت دل وجان سے عزیز تھے اس لیے قاتل تیشے ان پر وار کرتے تو وہ مضطرب ہو جاتے۔ اپنے کرب کا اظہار کالم میں کرتے۔ ادبی محفلوں اور دوستوں کی منڈلی میں آواز اٹھاتے جسے ترقی کے جویا احباب سنی ان سنی کر دیتے تھے۔
1964 میں مال روڈ پر ایک درخت کو گرانے پر انتظار حسین نے ‘ درخت کی شہادت ‘ کے عنوان سے کالم لکھا جو اس شہر میں کٹنے والے درختوں کا ہمیشہ کے لیے نوحہ بن گیا:
‘پنجاب یونیورسٹی کے سر سے اس کے بزرگ کا سایہ اٹھ گیا ہے۔ یہاں گیٹ کے برابر مال روڈ پر ایک اونچا گھنا درخت بہت زمانے سے کھڑا تھا۔ اس یونورسٹی میں بہت وائس چانسلر آئے اور چلے گئے مگر یہ وائس چانسلر اپنی ایک وضع کے ساتھ قائم تھا اور یونیورسٹی کی باوقار روایت کا حصہ بنا ہوا تھا۔ اس ہفتے عجب افتاد پڑی کہ سڑک کی توسیع کی فکر کرنے والوں نے اس پر آرا چلایا اور اس صاحب منزلت مقتول کی لاش کئی دن مال روڈ پر پڑی رہی۔’
1963 میں مال روڈ پر انارکلی کی طرف جانے والی سڑک کے موڑ پر کھڑے بزرگ درخت کے زمین بوس ہونے پر انتظار صاحب ملول ہوئے تو بیرسٹر افسانہ نگار نے ان سے کہا:
‘تم نوسٹالجیا میں مبتلا ہو۔ اپنی بستی کے املی کے پیڑوں کا نوحہ کرتے کرتے لاہور کے درختوں کے بارے میں جذباتی ہونے لگے مگر یہ کوئی قصبہ نہیں ہے یہ نیا شہر ہے اور ہم 20ویں صدی میں رہتے ہیں۔’
حلقہ اربابِ ذوق میں اپنی آہ وفغاں پر ردعمل کے بارے میں ‘ چراغوں کا دھواں میں وہ لکھتے ہیں :
‘جب میں حلقے میں روتا گاتا تھا کہ بلند و بالا درخت شہید کیے جا رہے ہیں تو ترقی پسند دوست کہتے تھے کہ یہ تو صنعتی ترقی کا لازمہ ہے۔’
انتظار صاحب نے اپنے ہاں کے ادیبوں و شاعروں کی بے اعتنائی کے مقابلے میں البرٹو موراویا کا حوالہ دیا تھا جو درخت کاٹنے پر عدالت چلے گئے تھے کہ ان کا زندہ ہم عصر شہید کیا گیا ہے۔
انتظار صاحب نے مذکورہ کالم میں کبیر کا شعر بھی نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے درختوں کے بیری بڑے پرانے ہیں:
بڑھئی آوت دیکھ کر ترور ڈالن لاگ
ہم کٹے تو اب کٹے، پکھیرو تو بھاگ
انتظار صاحب نے پنجاب یونیورسٹی کے باہر کٹنے والے درخت کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کیا ہے تو یونیورسٹی کے اندر اس نوع کی واردات کی تخلیقی شہادت ڈاکٹر خورشید رضوی نے ‘اورینٹل کالج کے لیے ایک نظم’ میں دی ہے :
جو آ کے کلاس رُوم کے پاس
بازو پھیلا کے رُک گیا تھا
بچوں پر اپنے جھک گیا تھا
برگد کا وہ پیڑ کٹ چکا ہے
لاشہ بھی یہاں سے ہٹ چکا ہے
انتظار صاحب کی درختوں سے محبت کا حوالہ ان کے کالموں تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ ادبی مضامین اور فکشن میں بھی درختوں کا مقدمہ لڑتے نظر آتے ہیں۔ یہ ان زمانوں کی بات ہے جب شہر اپنی جون بدل رہا تھا اور ترقی کے نام پر درختوں کی بیخ کنی ہو رہی تھی اور اس عمل سے آنے والے وقت میں شہر جس مصیبت میں گرفتار ہونے کو تھا اس کا ادراک کسی کسی کو تھا۔
1964 میں تحریر کردہ کالم کا حوالہ آپ دیکھ چکے ہیں۔ اب آجاتے ہیں شمس الرحمٰن فاروقی کے ‘ شب خون’ کی طرف جس کے جون 1972 کے شمارے میں انتظار حسین کا مضمون ‘ درخت اور افسانے’ شائع ہوا تھا۔ اس میں تخلیقی عمل اور درختوں کے تعامل پر بڑی پتے کی باتیں انہوں نے کی ہے۔
ان کی دانست میں شاعری اور افسانہ خالص انسانی ذریعہ اظہار نہیں ہیں بلکہ انہوں نے انسان اور غیر انسان کے سنجوگ سے جنم لیا ہے۔ ان کے خیال میں تخلیقی عمل صرف انسان سے سروکار پر منحصر نہیں ہوتا، فطرت کے مختلف عناصر تخیل کو بلندی عطا کرتے ہیں ۔ ان کے بقول ‘گیان دھیان اور تخیل کی تربیت برگد کی چھاؤں میں بھی ہو سکتی ہے اور پہاڑوں کی گپھاؤں میں بھی ، مگر کارخانے کی دیوار کے سائے میں نہیں ہو سکتی اور فلک بوس عمارتیں اونچے پہاڑوں کا بدل نہیں بن سکتیں۔’
انتظار صاحب درخت کاٹ کاٹ کر نئی سڑکیں بنانے اور پرانی سڑکوں کو وسیع کرنے کے مسئلے پر اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ترقی کے دوسرے مظاہر کے جلو میں آنے والی تباہی کا عکس اپنے آئینہ ادراک میں دیکھ کر فطرت کی سخت تعزیروں سے خبردار کرتے ہیں:
‘ہم اپنی فلک بوس عمارتوں ،شور مچاتے کارخانوں اور بھاری بھرکم مشینوں کے ساتھ ایک نئے عہد بربریت میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب نما بربریت کی بدولت تجربے کا منطقہ سکڑتا جا رہا ہے اور اطلاعات و معلومات کا جنگل پھیلتا جا رہا ہے… ہماری راہیں اتنی پرشور ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے انسان اور غیر انسان کے درمیان مکالمہ ممکن نہیں رہا۔’
اس اقتباس سے علامہ اقبال اور احمد مشتاق کے شعر ایک ساتھ ذہن میں آئے ہیں جو بالترتیب ملاحظہ کیجیے:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
دھویں سے آسماں کا رنگ میلا ہوتا جاتا ہے
ہرے جنگل بدلتے جا رہے ہیں کارخانوں میں
انتظار حسین کے کالم اور مضمون سے گزر کر ہم نے ان کے ناول ‘ تذکرہ ‘ تک پہنچنا تھا کیونکہ اس سے ہم جان سکیں گے کہ کمرشلائزیشن کا عذاب بستیوں پر کیسے اترتا ہے اور کس طریقے سے انہیں تاراج کر کے اپنی حکمرانی قائم کرتا ہے لیکن اس سے پہلے ‘ بستی’ کا خیال بھی آتا ہے جس میں ذاکر نیم کے پیڑ کی تلاش میں ہے اور اس کے دوست کا بیان ہے:
‘یہ سب درخت میرے دوست ہیں’
ایک دن ذاکر درخت دوست افضال سے پوچھتا ہے یہاں نیم کا درخت نہیں ہوتا تو وہ اسے پارک کے ایک درخت کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیتا ہے کہ ‘ یہ رہا تمھارا نیم .
لیکن وہ نیم کے بجائے بکائن کا درخت نکلتا ہے ۔
نیم کو افضال زنانہ پیڑ گردانتا ہے اور برگد کی شان میں رواں ہو جاتا ہے کیوں کہ اس کی چھاؤں میں نروان ملتا ہے۔ ذاکر برگد کی گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں میں گھاس پر لیٹ کر تصورات کی دنیا میں کھو جاتا ہے:
‘مجھے اپنے گمشدہ پیڑ یاد آرہے تھے ۔ گمشدہ پیڑ ،گمشدہ پرندے ،گمشدہ صورتیں۔ نیم کے موٹے ٹہنے میں پڑا ہوا جھولا ،صابرہ، لمبے جھونٹے، نیم کی نبولی پکی، ساون کب کب آوے گا۔ بوندوں سے بھیگے گال پر گری ہوئی گیلی لٹ۔ جیوے موری ماں کا جایا۔ ڈولی بھیج بلاوے گا۔ دور کے پیڑ سے آتی ہوئی کوئل کی آواز ۔
نیم کا پیڑ بھی میں نے دریافت کر ہی لیا مگر کوئل کی آواز پہلے سنی ۔اس دیار میں وہ میرا پہلے پہل کوئل کی آواز سننا:
از کجا می آید ایں آواز دوست’
اس ایک اقتباس میں کتنے رنگ اور اسلوب سمو گئے ہیں۔
اب ہم آجاتے ہیں ‘تذکرہ’ پر جس میں سوانحی رنگ بھی شامل ہیں ۔ ناول میں الاٹمنٹ کے دھندے کا تذکرہ ہے۔ شہر کے کمرشلائزیشن کی لپیٹ میں آجانے کی بات ہے جس کے لیے درختوں پر آرے چلنا لازمی ہے ۔اس میں ہاؤسنگ سوسائٹی بھی ہے اور خرانٹ پراپرٹی ڈیلر بھی۔ ناول میں ضیاء الحق کے زمانے کے لاہور کا نقشہ مصنف نے مؤثر اسلوب میں کھینچا ہے۔ اس میں پھانسیوں کو دیکھنے کے لیے جیل کے نواح میں اخلاق کے گھر خلقت امنڈ آتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد شہر کی سہمی فضا کا بیان ہے۔ ڈائجسٹ کے مدیر کا اسلامی بینکاری کے بارے میں کتاب لکھنے کی تجویز پیش کرنا بدلے ہوئے حالات کا اشارہ ہے اور کرکٹ کے ایک سپر سٹار کا حوالہ بھی ناول میں موجود ہے۔ خاندانی قصے بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس پہلو دار ناول کے جس خاص پہلو پر ہم نے بات کرنی ہے وہ اس المیے کے بارے میں ہے جس نے نہ صرف شہر کے حسن کو گہنا دیا بلکہ شہریوں کے لیے اس کی فضا میں سانس لینا بھی دوبھر کر دیا ہے۔
ناول میں اخلاق کے مالک مکان کا نام برکت الٰہی ہے۔ یہ آدمی چلتا پرزہ ہے۔ کوٹھی یہ الاٹ کرا چکا ہے۔ انارکلی میں ایک دکان اس کے نام ہے۔ ملتان میں پن چکی بھی چل رہی ہے۔ ادھر چراغ حویلی کا چشم و چراغ اخلاق کرائے کے مکانوں میں دھکے کھاتا ہے لیکن بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار نہیں ۔
ایک دن مالک مکان بتاتا ہے کہ یہ جگہ کمرشل ایریا بننے والی ہے اور وہ اس کے ایک حصے میں دکانیں بنائے گا جو سونا اگلیں گی۔ برکت الٰہی کے ارادوں کی بلندی سے اخلاق کو فکر دامن گیر ہوتی ہے جس سے مالک مکان اور کرایے دار میں یہ مکالمہ ہوتا ہے:
‘مگر یہ جو درخت کھڑے ہیں’
‘ان سب کو کٹوا دوں گا ‘
‘کیا؟ ان درختوں کو آپ کٹوا دیں گے’ میں حیران و پریشان اس کا منہ تکنے لگا ۔
‘ہاں اور کیا۔جگہ بیکار کیوں پڑی رہے اور اتنی اچھی جگہ۔’
میں بہت گھبرایا۔ مجھے فوراً ہی مولسری اور پیپل کا خیال آیا جن سے میں اتنا مانوس ہو گیا تھا۔
‘مگر یہ مولسری؟’
‘ہاں جی، اس مولسری نے بہت جگہ گھیر رکھی ہے؟’
میں پھر اس شخص کا منہ تکنے لگا۔
‘مگر یہ پیپل تو بہت پرانا ہے۔’
‘ہاں جی بہت پرانا ہو گیا ہے۔ اسے تو ویسے بھی کٹوا دینا تھا ۔ بس کل پرسوں میں انتظام کرتا ہوں ۔ جنگل بنا ہوا ہے۔ اسے سارے کو صاف کرا دینا ہے۔’
درختوں کے کٹنے کا صدمہ جھیلنے سے پہلے اخلاق اپنا بوریا بستر باندھ لیتا ہے۔ جس دن اسے گھر چھوڑ کر جانا تھا، برکت الٰہی کے بندے آروں اور کلہاڑیوں کے ساتھ درخت گرانے صبح صبح پہنچ گئے۔ اخلاق کو ضد تھی کہ درخت پر وار ان کے سامنے نہیں ہو گا۔ یہ مطالبہ برکت الٰہی نے مان لیا اور اس کے بارے میں کلہاڑی والوں کا استعجاب یہ کہہ کر دور کیا :
‘یہ بابو کچھ سنکی ہے’
بات تو اس کی ٹھیک ہی تھی اس ملک میں قبضہ گروپ ٹھہرے سیانے اور درختوں اور پرندوں سے محبت کرنے والے سنکی کہلاتے ہیں۔
اخلاق کے کردار کو جس طرح اپنے سامنے کٹتے درخت دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہوا اس سے منشا یاد کے افسانے ‘درخت آدمی ‘ کے مالی کرمو کا خیال آتا ہے جو اپنے سامنے درخت کٹنے کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتا تھا، اس نے باغ کو تاراج ہوتے دیکھا اور حالات کے جبر نے اسے درخت کاٹنے پر مجبور کیا تو وہ اس ناتمام کوشش میں پورا ہو گیا :
‘درخت کرمو کی کمزوری تھے۔ وہ کسی بھی قسم کے درخت کو کٹتے یا گرتے نہ دیکھ سکتا تھا … جب کبھی وہ کسی درخت کے کٹنے کی خبر سنتا اسے اتنا ہی صدمہ ہوتا جتنا کسی عزیز کے مرنے پر ہو سکتا تھا ۔’
اب دوبارہ تذکرہ کی طرف مڑتے ہیں جس میں کسی علاقے کے کمرشل ایریا بننے کی آفت کا بیان ہے ۔ اس کی تعریف انتظار حسین نے یوں کی ہے:
‘کمرشل ایریا بھی عجب متعدی شے ہے۔ نئے شہروں میں آکاس بیل کی طرح پھیلتا ہے اور سرسبز علاقوں کو نگلتاچلا جاتا ہے۔”
یہ بیان ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے عروج سے پہلے کا ہے اور اس زمانے کی داستان سنا رہا ہے جب ہوا کا رخ گلبرگ کی طرف تھا۔ اخلاق کی بیوی ‘آشیانہ’ بک جانے کی صورت میں گلبرگ میں کوٹھی تعمیر کرکے سٹیٹس بلند کرنے کا سوچ رہی ہے۔
اب گلبرگ کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے جو اسے آباد کرنے کے لیے دوسرے علاقوں کے ساتھ ہوا۔ یہ کمرشل ایریا بن گیا۔ بڑے بڑے پلازے بن گئے جن کی فلک شگاف عمارتوں کے بوجھ تلے یہ علاقہ دب گیا ہے۔ بیچ بیچ میں کوئی کوٹھی اس طرح سے نظر آتی ہے جیسے رضیہ غنڈوں میں گھری ہو۔ اس کی ایک مثال 4k گلبرگ میں معروف سیاست دان اور دانشور ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کا وہ تاریخی گھر ہے جہاں کبھی پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
انتظار صاحب نے ‘تذکرہ’ میں جیل کے نواح میں گھر کو بنیاد بنا کر کہانی اپنے گھر کے گرد ہی بنی ہے اور جیل روڈ سے بڑھ کر کون سی جگہ ہو گی جو کمرشل ایریا کے قالب میں ڈھلی ہو۔ اس کے بارے میں انتظار حسین کے نان فکشن سے ایک بیان ذرا دیکھیے:
‘میں گھر میں بند بیٹھا ہوں ۔ میرے گھر کے باہر جیل روڈ پر پھاوڑا بج رہا ہے کلہاڑا چل رہا ہے ۔ پرانی سڑک کھد رہی ہے ۔ نئی شاہراہ کا ڈول پڑ رہا ہے۔ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ پدندے کتنے اس نواح سے اڑ گئے، کتنے اڑ جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔’
اب یہ وہ جیل روڈ ہے جسے اس سے ملحقہ وارث روڈ کی مکین خالدہ حسین نے اپنے افسانے ‘نام رکھنے والے’ میں بہت صاف ستھری ،چوڑی اور خاموش سڑک لکھا ہے۔
اب ہم اس مسئلے کی طرف آجاتے ہیں جس نے ہمیں قلم اٹھانے پر اکسایا ہے۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک پیغام نظر سے گزرا جس میں لاہور کینال روڈ پر ٹھوکر نیاز بیگ سے ہربنس پورہ تک نئی میٹرو لائن کے منصوبے کے لیے ممکنہ طور پر بڑی تعداد میں درخت کاٹے جانے پر تشویش ظاہر کی گئی تھی۔
لاہور کی نہر کے گرد ایستادہ درختوں پر پہلے بھی کاری وار ہوتے رہے ہیں۔ 2017 میں کینال کشادگی پراجیکٹ کے چیف انجینئر نے ہربنس پورہ سے ٹھوکر نیاز بیگ تک 3 ہزار کے قریب درخت کاٹنے کا اعتراف کیا تھا۔ لاہور آخر یوں ہی تو دنیا کے آلودہ ترین شہر کا درجہ حاصل نہیں کرتا۔ سموگ شہریوں کو جس اذیت میں مبتلا کرتی ہے اس کا احساس حکومت کو ہوتا تو کبھی درخت کاٹنے کا خیال بھی اسے نہ آتا۔ عجب بات ہے کہ ماحول دوست بسیں درخت کاٹ کر سڑکوں پر دوڑائی جائیں گی۔
مجید امجد نے ساہیوال کی نہر کے کنارے درختوں کے کٹنے پر 1960 میں درد سے معمور نظم لکھی تھی وہ لاہور نہر کے اردگرد درختوں کی بربادی کے لیے بھی حسب حال ہے:
توسیعِ شہر
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بِک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم
گِری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اِک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پہ بھی اب کاری ضرب اِک اے آدم کی آل
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
ادب افسانہ انتظار حسین درخت فطرت ماحولیاتذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افسانہ ماحولیات کمرشل ایریا کے بارے میں درخت کاٹنے برکت ال ہی مال روڈ پر درختوں کے ناول میں کا حوالہ کے ساتھ کا خیال جاتا ہے رہے ہیں نہیں ہو کی طرف نہر کے کے لیے اور اس ہے اور گیا ہے مگر یہ رہا ہے
پڑھیں:
بس اب بہت ہوگئی
خبریں سب ہی سنتے ، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ ہر خبر کی تاثیر مختلف ہوتی ہے۔ ہر خبر مختف ڈھنگ سے سماج کو متاثر کرتی ہے۔ خبر کے لیے وقت اہم ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے بعد وہی خبر ردی کا ٹکڑا بن جاتی ہے۔
یہ وقت فیصلہ کرتا ہے کہ خبر بریکنگ نیوز بنتی ہیں، یا اخبارات کے صفحوں میں گم ہو جاتی ہیں یا پھر دلوں کو چیر جاتی ہیں۔
یہ خبر سب نے سنی کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا۔ یہ خبر سب کی نظروں سے گزری کہ وفاقی وزرا کے معاوضوں میں ہوش ربا بڑھوتری ہوئی۔ یہ بات سب تک پہنچی کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی تنخواہ لگ بھگ 21 لاکھ روپے ہو گئی۔ یہ اضافہ موصوف نے خود فرمایا ہے۔
ان سب خبروں کی تاثیر اور اثر مختلف رہا۔ یوں لگا کسی نے رستے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہو۔ یوں لگا جیسے کسی نے اس ملک کے غریب کو گالی دی ہو، یوں لگا کہ جیسے کوئی فاقہ کش کسی بدمست ٹرک کے نیچے آ گیا ہو۔
ایوان نمائندگان سے لوگوں سے بھرا پڑا ہے، لکشمی جن کے قدموں میں ڈھیر رہتی ہے، جن کے پاس اپنی دولت کا حساب رکھنا مشکل ہوتا ہے، جن کے کاروبار کئی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جن کے ذرائع آمدن کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ غریب کے منہ پر تھپڑ ہوتا ہے، اس کی مفلسی کے ماتم کے مقابل جشن ہوتا ہے۔
ایک لمحے کو سوچیں ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کی سارے مہینے کی تگ و دو کا مرکز و محور وہ بجلی کا بل ہو جو اس سے ادا نہیں ہوتا۔
ایک لمحے کو اس شخص کے بارے میں سوچیں جس نے اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھا لیا ہو کیونکہ نہ اس کے پاس فیس کے پیسے ہیں نہ کتابوں کا خرچہ اور نہ ہی بچوں کو اسکول پہنچانے کا کوئی ذریعہ۔
ایک لمحے کو سوچیں اس شخص کے بارے میں جس کے بچے بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے بھوکے سوئے، جس کی ماں کو دوائی میسر نہ ہوئی، جس کے پاس موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈلوانے کے پیسے نہیں رہے، جس کے پاس بس میں سفر کرنے کا کرایہ نہیں رہا، اس نے اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ 21 لاکھ روپے کیے جانے کی خبر کو کیسے پڑھا ہو گا؟ کسے سنا ہوگا؟ کیسے سمجھا ہوگا؟ اس کے دل پر کیا گزری ہو گی؟
سوچیں ذرا! دنیا کے سب ملکوں میں پیٹرول سستا ہو رہا ہے۔ عالمی منڈی پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کو نوید سنا رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کاروباری حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن اپنے ہاں اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ پیٹرول کی قیمت بڑھنے کی خبر سانپ بن کر سینوں پر لوٹ رہی ہے۔ قیمتوں میں کمی کی ذرا سی امید لگتی ہے تو حکومت بڑے طمطراق سے اس امید کو پیروں تلے مسل دیتی ہے۔ کوئی نہیں سوچتا غریب کے بارے میں۔ کوئی اس کے دکھ کی خبر نہیں لیتا، کوئی اس کو سینے سے نہیں لگاتا۔
ایک وزیر خزانہ ہیں ان کے پاس ایک ہی رٹ ہے کہ اس ملک کے بدبخت، جاہل اور احمق لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ وہ بڑے زعم سے اعلان کرتے ہیں کہ اِس پر بھی ٹیکس لگا دو اور اُس کو ٹیکس نیٹ میں لے آؤ۔ ان کو کوئی یہ خبر نہیں دیتا کہ ماچس بنانے والے سے لے کر بس کا کرایہ وصول کرنے والے تک ہر کوئی اس ٹیکس کا بوجھ غریب پر منتقل کرتا ہے۔ غریب پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے اور اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ چیخ نہیں پا رہا، اس کی آواز بھی گم ہو گئی ہے، اور وہ اس سارے نظام سے لاتعلق ہوگیا ہے۔
لوگ اب یہ سوال بھی نہیں پوچھتے کہ ٹیکس کے بدلے ہمیں حکومتیں کیا دیتی ہیں؟ کون سی سہولتیں ہمارا مقدر بنتی ہیں؟ کون سے منصوبے ہمارے لیے شروع ہوتے ہیں، کن اسکیموں کے ثمرات ہم تک پہنچتے ہیں؟
لوگ اب سوال نہیں پوچھتے، جواب نہیں مانگتے، حق نہیں مانگتے۔ لوگ خاموش رہتے ہیں یا چیخ پڑتے ہیں۔
چند ماہ پہلے کی بات ہے، بہت سے ایسے تھے جو عمران خان کا نعرہ لگاتے تھے، بہت سے ایسے تھے جو نواز شریف کا دم بھرتے تھے، بہت سے ایسے تھے جو مولانا کے گیت گاتے تھے۔ بہت سے ایسے تھے جو آج بھی بھٹو کے ترانے بجاتے تھے۔ لیکن اس مفلسی نے سب کی تخصیص ختم کردی ہے۔
اب کوئی کسی سیاسی جماعت کا نعرہ نہیں لگا رہا، کوئی کسی کو نجات دہندہ نہیں مان رہا۔ اب نہ جماعت کی تخصیص رہی نہ لیڈروں میں کوئی فرق رہا۔ نہ کسی کے منشور سے وابستہ امیدیں رہیں نہ کسی کی شخصیت سے توقع رہی۔ سب مفلسی کی زنجیر میں بندھ گئے۔ اب کارکن نہیں رہے، اب سب غریب بن گئے ہیں۔ اب یہ معاشرہ کئی طبقات میں منقسم نہیں رہا۔
اب صرف 2 طبقے ہو گئے ہیں۔ ایک وہ جو حکومت میں اپنی مرضی سے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو ان کی چمکتی گاڑیوں کی دھول میں حسرتیں پالتے رہتے ہیں۔
ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ کراچی میں ایک بوسیدہ بلڈنگ گر گئی۔ مرنے والوں کی تعداد اراکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ کوئی اس حادثے کی ذمہ داری نہیں لے گا، کوئی استعفیٰ نہیں دے گا، کوئی نہیں پوچھے گا کہ مدتوں سے کراچی پر راج کرنے والی جماعتیں کہاں ہیں؟ سندھ کے مسیحا کہاں ہیں؟ اب صرف کراچی میں چھیپا کی ایمبولینسوں کے سائرن گونجتے ہیں۔ یہی اس نظام نے 2 کروڑ کی آبادی والے شہر کو دیا ہے۔ اسی نظام کے ملبے تلے دبی لاشیں ہمار مقدر ہیں۔
ہمار المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہر زمانے اور ہر عہد میں کسی نہ کسی سے سب امیدیں وابستہ کیں۔ کسی کو مسیحا مانا، کسی کو مالک تسلیم کیا، کسی شخص کے قصیدے پڑھے، کسی جماعت کے نعرے لگائے، کسی انقلاب کا انتظار کیا لیکن سب کا نتیجہ ایک رہا۔ سب نے خواب دیکھنے والوں کے خواب چکنا چور کیے۔ سب نے محروموں کی محرومیوں میں اضافہ ہی کیا۔ سب نے اپنے مفاد کے بارے میں سوچا اور عوام کی امیدوں، چاہتوں اور تمناؤں کو کراہت سے پس پشت ڈال دیا۔
یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ایک پوری قوم اشرافیہ کے اس تماشے سے مایوس ہو چکی ہے۔ اور یاد رکھیں کہ دہائیوں سے مایوس لوگوں سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں ہوتا۔ ایسے میں مایوسی بڑھ جائے تو لوگ دیوار سے سر ٹکرا دیا کرتے ہیں۔
اب معاملہ یہ ہے کہ غربت میں پسے لوگ مسائل کا فوری حل چاہتے ہیں، ان کو وضاحتیں مطمئن نہیں کرتیں۔ ان کا پیٹ اب نصیحتوں سے نہیں بھرتا۔ ان کے دلدر نعروں سے دور نہیں ہوتے۔ خالی پیٹ تو وہ خوشحالی کے خواب بھی نہیں دیکھ پاتے۔ یہ ملک مفلس لوگوں کا آتش فشاں بن چکا ہے۔ یاد رکھیں! مہنگائی کی مزید کسی خبر سے یہ آتش فشاں پھٹ بھی سکتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔