WE News:
2025-09-18@11:55:07 GMT

درختوں کا قتل

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

لاہور کے درخت زد پر آتے ہیں تو ممتاز ادیب انتظار حسین کی یاد ضرور آتی ہے جنہیں درخت دل وجان سے عزیز تھے اس لیے قاتل تیشے ان پر وار کرتے تو وہ مضطرب ہو جاتے۔ اپنے کرب کا اظہار کالم میں کرتے۔ ادبی محفلوں اور دوستوں کی منڈلی میں آواز اٹھاتے جسے ترقی کے جویا احباب سنی ان سنی کر دیتے تھے۔

1964 میں مال روڈ پر ایک درخت کو گرانے پر انتظار حسین نے ‘ درخت کی شہادت ‘ کے عنوان سے کالم لکھا جو اس شہر میں کٹنے والے درختوں کا ہمیشہ کے لیے نوحہ بن گیا:

‘پنجاب یونیورسٹی کے سر سے اس کے بزرگ کا سایہ اٹھ گیا ہے۔ یہاں گیٹ کے برابر مال روڈ پر ایک اونچا گھنا درخت بہت زمانے سے کھڑا تھا۔ اس یونورسٹی میں بہت وائس چانسلر آئے اور چلے گئے مگر یہ وائس چانسلر اپنی ایک وضع کے ساتھ قائم تھا اور یونیورسٹی کی باوقار روایت کا حصہ بنا ہوا تھا۔ اس ہفتے عجب افتاد پڑی کہ سڑک کی توسیع کی فکر کرنے والوں نے اس پر آرا چلایا اور اس صاحب منزلت مقتول کی لاش کئی دن مال روڈ پر پڑی رہی۔’

1963 میں مال روڈ پر انارکلی کی طرف جانے والی سڑک کے موڑ پر کھڑے بزرگ درخت کے زمین بوس ہونے پر انتظار صاحب ملول ہوئے تو بیرسٹر افسانہ نگار نے ان سے کہا:

 ‘تم نوسٹالجیا میں مبتلا ہو۔ اپنی بستی کے املی کے پیڑوں کا نوحہ کرتے کرتے لاہور کے درختوں کے بارے میں جذباتی ہونے لگے مگر یہ کوئی قصبہ نہیں ہے یہ نیا شہر ہے اور ہم 20ویں صدی میں رہتے ہیں۔’

  حلقہ اربابِ ذوق میں اپنی آہ وفغاں پر ردعمل کے بارے میں ‘ چراغوں کا دھواں میں وہ لکھتے ہیں :

‘جب میں حلقے میں روتا گاتا تھا کہ بلند و بالا درخت شہید کیے جا رہے ہیں تو ترقی پسند دوست کہتے تھے کہ یہ تو صنعتی ترقی کا لازمہ ہے۔’

انتظار صاحب نے اپنے ہاں کے ادیبوں و شاعروں کی بے اعتنائی کے مقابلے میں البرٹو موراویا کا حوالہ دیا تھا جو  درخت کاٹنے پر عدالت چلے گئے تھے کہ ان  کا زندہ ہم عصر شہید کیا گیا ہے۔

انتظار صاحب نے مذکورہ کالم میں کبیر کا شعر بھی نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے درختوں کے بیری بڑے پرانے ہیں:

بڑھئی آوت دیکھ کر ترور ڈالن لاگ

ہم کٹے تو اب کٹے، پکھیرو تو بھاگ

انتظار صاحب نے پنجاب یونیورسٹی کے باہر کٹنے والے درخت کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کیا ہے تو یونیورسٹی کے اندر اس نوع  کی واردات کی تخلیقی شہادت ڈاکٹر خورشید رضوی نے ‘اورینٹل کالج کے لیے ایک نظم’ میں دی  ہے :

جو آ کے کلاس رُوم کے پاس

بازو پھیلا کے رُک گیا تھا

بچوں پر اپنے جھک گیا تھا

برگد کا وہ پیڑ کٹ چکا ہے

لاشہ بھی یہاں سے ہٹ چکا ہے

انتظار صاحب کی درختوں سے محبت کا حوالہ ان کے کالموں تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ ادبی مضامین اور فکشن میں بھی درختوں کا مقدمہ لڑتے نظر آتے ہیں۔ یہ ان زمانوں کی بات ہے جب شہر اپنی جون بدل رہا تھا اور ترقی کے نام پر درختوں کی بیخ کنی ہو رہی تھی اور اس عمل سے آنے والے وقت میں شہر جس مصیبت میں گرفتار ہونے کو تھا اس کا ادراک کسی کسی کو تھا۔

1964 میں تحریر کردہ کالم کا حوالہ آپ دیکھ چکے ہیں۔ اب آجاتے ہیں شمس الرحمٰن فاروقی کے ‘ شب خون’ کی طرف جس کے جون 1972 کے شمارے میں انتظار حسین کا مضمون ‘ درخت اور افسانے’ شائع ہوا تھا۔ اس میں تخلیقی عمل اور درختوں کے تعامل پر بڑی پتے کی باتیں انہوں نے کی ہے۔

ان کی دانست میں شاعری اور افسانہ خالص انسانی ذریعہ اظہار نہیں ہیں بلکہ انہوں نے انسان اور غیر انسان کے سنجوگ سے جنم لیا ہے۔ ان کے خیال میں تخلیقی عمل صرف انسان سے سروکار پر منحصر نہیں ہوتا، فطرت کے مختلف عناصر تخیل کو بلندی عطا کرتے ہیں ۔ ان کے بقول ‘گیان دھیان اور تخیل کی تربیت برگد کی چھاؤں میں بھی ہو سکتی ہے اور پہاڑوں کی گپھاؤں میں بھی ، مگر کارخانے کی دیوار کے سائے میں نہیں ہو سکتی اور فلک بوس عمارتیں اونچے پہاڑوں کا بدل نہیں بن سکتیں۔’

انتظار صاحب درخت کاٹ کاٹ کر نئی سڑکیں بنانے اور پرانی سڑکوں کو وسیع کرنے کے مسئلے پر اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ترقی کے دوسرے مظاہر کے جلو میں آنے والی تباہی کا عکس اپنے آئینہ ادراک میں دیکھ کر فطرت کی سخت تعزیروں سے خبردار کرتے ہیں:

‘ہم اپنی فلک بوس عمارتوں ،شور مچاتے کارخانوں اور بھاری بھرکم مشینوں کے ساتھ ایک نئے عہد بربریت میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب نما بربریت کی بدولت تجربے کا منطقہ سکڑتا جا رہا ہے اور اطلاعات و معلومات کا جنگل پھیلتا جا رہا ہے… ہماری راہیں اتنی پرشور ہیں کہ کان پڑی آواز  سنائی نہیں دیتی۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے انسان اور غیر انسان کے درمیان مکالمہ ممکن نہیں رہا۔’

اس اقتباس سے علامہ اقبال اور احمد مشتاق کے شعر ایک ساتھ ذہن میں آئے ہیں جو بالترتیب ملاحظہ کیجیے:

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

دھویں  سے آسماں کا رنگ میلا ہوتا جاتا ہے

ہرے جنگل بدلتے جا رہے ہیں کارخانوں میں

انتظار حسین کے کالم اور مضمون سے گزر کر ہم نے ان کے ناول ‘ تذکرہ ‘ تک پہنچنا تھا کیونکہ اس سے ہم جان سکیں  گے کہ کمرشلائزیشن کا عذاب بستیوں پر کیسے اترتا ہے اور کس طریقے سے انہیں تاراج کر کے اپنی حکمرانی قائم کرتا ہے لیکن اس سے پہلے ‘ بستی’ کا خیال بھی آتا ہے جس میں ذاکر نیم کے پیڑ کی تلاش میں ہے اور اس کے دوست کا بیان ہے:

‘یہ سب درخت میرے دوست ہیں’

ایک دن ذاکر درخت دوست افضال سے  پوچھتا ہے یہاں نیم کا درخت نہیں ہوتا تو وہ اسے پارک کے ایک درخت کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیتا ہے کہ ‘ یہ رہا تمھارا نیم .

لیکن وہ نیم کے بجائے بکائن کا درخت نکلتا ہے ۔

نیم کو افضال زنانہ پیڑ گردانتا ہے اور برگد کی شان میں رواں ہو جاتا ہے کیوں کہ اس کی چھاؤں میں نروان ملتا ہے۔ ذاکر برگد کی گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں میں گھاس پر لیٹ کر تصورات کی دنیا میں کھو جاتا ہے:

‘مجھے اپنے گمشدہ پیڑ یاد آرہے تھے ۔ گمشدہ پیڑ ،گمشدہ پرندے ،گمشدہ صورتیں۔ نیم کے موٹے ٹہنے میں پڑا ہوا جھولا ،صابرہ، لمبے جھونٹے، نیم کی نبولی پکی، ساون کب کب آوے گا۔ بوندوں سے بھیگے گال پر گری ہوئی گیلی لٹ۔  جیوے موری ماں کا جایا۔ ڈولی بھیج بلاوے گا۔ دور کے پیڑ سے آتی ہوئی کوئل کی آواز ۔

نیم کا پیڑ بھی میں نے دریافت کر ہی لیا مگر کوئل کی آواز پہلے سنی ۔اس دیار میں وہ میرا پہلے پہل کوئل کی آواز سننا:

از کجا می آید ایں آواز دوست’

اس ایک اقتباس میں کتنے رنگ اور اسلوب سمو گئے ہیں۔

اب ہم آجاتے ہیں ‘تذکرہ’ پر جس میں سوانحی رنگ بھی شامل ہیں ۔ ناول میں الاٹمنٹ کے دھندے کا تذکرہ ہے۔ شہر کے کمرشلائزیشن کی لپیٹ میں آجانے کی بات ہے جس کے لیے درختوں پر آرے چلنا لازمی ہے ۔اس میں  ہاؤسنگ سوسائٹی بھی ہے اور خرانٹ پراپرٹی ڈیلر بھی۔ ناول میں ضیاء الحق کے زمانے کے لاہور کا نقشہ مصنف نے مؤثر اسلوب میں کھینچا ہے۔ اس میں پھانسیوں کو دیکھنے کے لیے جیل کے نواح میں اخلاق  کے گھر خلقت امنڈ آتی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد  شہر کی سہمی فضا کا بیان ہے۔ ڈائجسٹ کے مدیر کا اسلامی بینکاری کے بارے میں کتاب لکھنے کی تجویز پیش کرنا بدلے ہوئے حالات کا اشارہ ہے اور کرکٹ کے ایک سپر سٹار کا حوالہ بھی ناول میں موجود ہے۔ خاندانی قصے بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس پہلو دار ناول کے جس خاص پہلو پر ہم نے بات کرنی ہے وہ اس المیے کے بارے میں ہے جس نے نہ صرف شہر کے حسن کو گہنا دیا بلکہ شہریوں کے لیے اس کی فضا میں سانس لینا بھی دوبھر کر دیا ہے۔

ناول میں اخلاق  کے مالک مکان کا نام برکت الٰہی ہے۔  یہ آدمی چلتا پرزہ ہے۔ کوٹھی یہ الاٹ کرا چکا ہے۔ انارکلی میں ایک دکان اس کے نام ہے۔ ملتان میں پن چکی بھی چل رہی ہے۔ ادھر چراغ حویلی کا چشم و چراغ اخلاق کرائے کے مکانوں میں دھکے کھاتا ہے  لیکن بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار نہیں ۔

ایک دن مالک مکان بتاتا ہے کہ یہ جگہ کمرشل ایریا بننے والی ہے اور وہ اس کے ایک حصے میں دکانیں بنائے گا  جو سونا اگلیں گی۔ برکت الٰہی کے ارادوں کی بلندی سے اخلاق کو فکر دامن گیر ہوتی ہے جس سے مالک مکان اور کرایے دار میں یہ مکالمہ ہوتا ہے:

‘مگر یہ جو درخت کھڑے ہیں’

‘ان سب کو کٹوا دوں گا ‘

‘کیا؟ ان درختوں کو آپ کٹوا دیں گے’ میں حیران و پریشان اس کا منہ تکنے لگا ۔

‘ہاں اور کیا۔جگہ بیکار کیوں پڑی رہے اور اتنی اچھی جگہ۔’

میں بہت گھبرایا۔ مجھے فوراً ہی مولسری اور پیپل کا خیال آیا جن سے میں اتنا مانوس ہو گیا تھا۔

‘مگر یہ مولسری؟’

‘ہاں جی، اس مولسری نے بہت جگہ گھیر رکھی ہے؟’

میں پھر اس شخص کا منہ تکنے لگا۔

‘مگر یہ پیپل تو بہت پرانا ہے۔’

‘ہاں جی بہت پرانا ہو گیا ہے۔ اسے تو ویسے بھی کٹوا دینا تھا ۔ بس کل پرسوں میں انتظام کرتا ہوں ۔ جنگل بنا ہوا ہے۔ اسے سارے کو صاف کرا دینا ہے۔’

درختوں کے کٹنے کا صدمہ جھیلنے سے پہلے اخلاق اپنا بوریا بستر باندھ لیتا ہے۔ جس دن اسے  گھر چھوڑ کر جانا تھا، برکت الٰہی کے بندے آروں اور کلہاڑیوں کے ساتھ درخت گرانے صبح صبح پہنچ گئے۔ اخلاق کو ضد تھی کہ درخت پر وار ان کے سامنے نہیں ہو گا۔ یہ مطالبہ برکت الٰہی نے مان لیا اور اس کے بارے میں کلہاڑی والوں کا استعجاب یہ کہہ کر دور کیا :

‘یہ بابو کچھ سنکی ہے’

بات تو اس کی ٹھیک ہی تھی اس ملک میں  قبضہ گروپ ٹھہرے سیانے اور درختوں اور پرندوں سے محبت کرنے والے سنکی کہلاتے ہیں۔

اخلاق کے کردار کو جس طرح  اپنے سامنے کٹتے درخت دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہوا اس سے منشا یاد کے افسانے ‘درخت آدمی ‘  کے مالی کرمو کا خیال آتا ہے جو اپنے سامنے درخت کٹنے کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتا تھا، اس نے باغ کو تاراج ہوتے دیکھا اور حالات کے جبر نے اسے درخت کاٹنے پر مجبور کیا تو وہ اس ناتمام کوشش میں پورا ہو گیا :

‘درخت کرمو کی کمزوری تھے۔ وہ کسی بھی قسم کے درخت کو کٹتے یا گرتے نہ دیکھ سکتا تھا … جب کبھی وہ کسی درخت کے کٹنے کی خبر سنتا اسے اتنا ہی صدمہ ہوتا جتنا کسی عزیز کے مرنے پر ہو سکتا تھا ۔’

اب دوبارہ تذکرہ کی طرف مڑتے ہیں جس میں کسی علاقے کے کمرشل ایریا بننے کی آفت کا بیان ہے ۔ اس کی تعریف انتظار حسین نے یوں کی ہے:

‘کمرشل ایریا بھی عجب متعدی شے ہے۔ نئے شہروں میں آکاس بیل کی طرح پھیلتا ہے اور سرسبز علاقوں کو نگلتاچلا جاتا ہے۔”

یہ بیان ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے  عروج سے پہلے کا ہے اور اس زمانے کی داستان سنا رہا ہے جب ہوا کا رخ گلبرگ کی طرف تھا۔  اخلاق کی بیوی ‘آشیانہ’  بک جانے کی صورت میں گلبرگ میں کوٹھی تعمیر کرکے سٹیٹس بلند کرنے کا سوچ رہی ہے۔

اب گلبرگ کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے جو اسے آباد کرنے کے لیے دوسرے علاقوں کے ساتھ ہوا۔ یہ کمرشل ایریا بن گیا۔ بڑے بڑے پلازے بن گئے جن کی فلک شگاف عمارتوں کے بوجھ تلے یہ علاقہ  دب گیا ہے۔ بیچ بیچ میں کوئی کوٹھی اس طرح سے نظر آتی ہے جیسے رضیہ غنڈوں میں گھری ہو۔ اس کی ایک مثال 4k گلبرگ میں معروف سیاست دان اور دانشور ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کا وہ تاریخی گھر ہے جہاں کبھی پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

انتظار صاحب نے ‘تذکرہ’ میں جیل کے نواح میں گھر کو بنیاد بنا کر کہانی اپنے گھر کے گرد ہی بنی ہے  اور جیل روڈ سے بڑھ کر کون سی جگہ ہو گی جو کمرشل ایریا کے قالب میں ڈھلی ہو۔ اس کے بارے میں انتظار حسین کے نان فکشن سے ایک بیان ذرا دیکھیے:

‘میں گھر میں بند بیٹھا ہوں ۔ میرے گھر کے باہر جیل روڈ پر پھاوڑا بج رہا ہے کلہاڑا چل رہا ہے ۔ پرانی سڑک کھد رہی ہے ۔ نئی شاہراہ کا ڈول پڑ رہا ہے۔ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔  پدندے کتنے اس نواح سے اڑ گئے، کتنے اڑ جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔’

اب یہ وہ جیل روڈ ہے جسے اس سے ملحقہ وارث روڈ کی مکین خالدہ حسین نے اپنے افسانے ‘نام رکھنے والے’ میں  بہت صاف ستھری ،چوڑی اور خاموش سڑک لکھا ہے۔

اب ہم اس مسئلے کی طرف آجاتے ہیں جس نے ہمیں قلم اٹھانے پر اکسایا ہے۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک پیغام نظر سے گزرا جس میں لاہور کینال روڈ پر ٹھوکر نیاز بیگ سے ہربنس پورہ تک نئی میٹرو لائن کے  منصوبے کے لیے ممکنہ طور پر بڑی تعداد میں درخت کاٹے جانے پر تشویش ظاہر کی گئی تھی۔

لاہور کی نہر کے گرد ایستادہ درختوں پر پہلے بھی کاری وار ہوتے رہے ہیں۔ 2017  میں  کینال کشادگی پراجیکٹ کے چیف انجینئر نے ہربنس پورہ سے ٹھوکر نیاز بیگ تک 3 ہزار کے قریب درخت کاٹنے کا اعتراف کیا تھا۔ لاہور آخر یوں ہی تو دنیا کے  آلودہ ترین شہر کا درجہ حاصل نہیں کرتا۔ سموگ شہریوں کو جس اذیت میں مبتلا کرتی ہے اس کا احساس حکومت کو ہوتا تو کبھی درخت کاٹنے کا خیال بھی اسے نہ آتا۔ عجب بات   ہے کہ ماحول دوست بسیں درخت کاٹ کر سڑکوں پر دوڑائی جائیں گی۔

مجید امجد نے ساہیوال کی نہر کے کنارے درختوں کے کٹنے پر 1960 میں درد سے معمور  نظم لکھی تھی وہ لاہور نہر کے اردگرد درختوں کی بربادی کے لیے بھی حسب حال ہے:

توسیعِ شہر

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بِک گئے سارے ہرے بھرے اشجار

جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم

گِری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار

آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اِک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پہ بھی اب کاری ضرب اِک اے آدم کی آل

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

ادب افسانہ انتظار حسین درخت فطرت ماحولیات

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افسانہ ماحولیات کمرشل ایریا کے بارے میں درخت کاٹنے برکت ال ہی مال روڈ پر درختوں کے ناول میں کا حوالہ کے ساتھ کا خیال جاتا ہے رہے ہیں نہیں ہو کی طرف نہر کے کے لیے اور اس ہے اور گیا ہے مگر یہ رہا ہے

پڑھیں:

گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔

بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔

یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔

کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔

داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔

جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔

اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔

اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • بھارت اور پاکستان طویل انتظار کے بعد نیزہ بازی مقابلے کے لیے تیار
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage
  • عرب جذبے کے انتظار میں