WE News:
2025-11-03@17:48:37 GMT

درختوں کا قتل

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

لاہور کے درخت زد پر آتے ہیں تو ممتاز ادیب انتظار حسین کی یاد ضرور آتی ہے جنہیں درخت دل وجان سے عزیز تھے اس لیے قاتل تیشے ان پر وار کرتے تو وہ مضطرب ہو جاتے۔ اپنے کرب کا اظہار کالم میں کرتے۔ ادبی محفلوں اور دوستوں کی منڈلی میں آواز اٹھاتے جسے ترقی کے جویا احباب سنی ان سنی کر دیتے تھے۔

1964 میں مال روڈ پر ایک درخت کو گرانے پر انتظار حسین نے ‘ درخت کی شہادت ‘ کے عنوان سے کالم لکھا جو اس شہر میں کٹنے والے درختوں کا ہمیشہ کے لیے نوحہ بن گیا:

‘پنجاب یونیورسٹی کے سر سے اس کے بزرگ کا سایہ اٹھ گیا ہے۔ یہاں گیٹ کے برابر مال روڈ پر ایک اونچا گھنا درخت بہت زمانے سے کھڑا تھا۔ اس یونورسٹی میں بہت وائس چانسلر آئے اور چلے گئے مگر یہ وائس چانسلر اپنی ایک وضع کے ساتھ قائم تھا اور یونیورسٹی کی باوقار روایت کا حصہ بنا ہوا تھا۔ اس ہفتے عجب افتاد پڑی کہ سڑک کی توسیع کی فکر کرنے والوں نے اس پر آرا چلایا اور اس صاحب منزلت مقتول کی لاش کئی دن مال روڈ پر پڑی رہی۔’

1963 میں مال روڈ پر انارکلی کی طرف جانے والی سڑک کے موڑ پر کھڑے بزرگ درخت کے زمین بوس ہونے پر انتظار صاحب ملول ہوئے تو بیرسٹر افسانہ نگار نے ان سے کہا:

 ‘تم نوسٹالجیا میں مبتلا ہو۔ اپنی بستی کے املی کے پیڑوں کا نوحہ کرتے کرتے لاہور کے درختوں کے بارے میں جذباتی ہونے لگے مگر یہ کوئی قصبہ نہیں ہے یہ نیا شہر ہے اور ہم 20ویں صدی میں رہتے ہیں۔’

  حلقہ اربابِ ذوق میں اپنی آہ وفغاں پر ردعمل کے بارے میں ‘ چراغوں کا دھواں میں وہ لکھتے ہیں :

‘جب میں حلقے میں روتا گاتا تھا کہ بلند و بالا درخت شہید کیے جا رہے ہیں تو ترقی پسند دوست کہتے تھے کہ یہ تو صنعتی ترقی کا لازمہ ہے۔’

انتظار صاحب نے اپنے ہاں کے ادیبوں و شاعروں کی بے اعتنائی کے مقابلے میں البرٹو موراویا کا حوالہ دیا تھا جو  درخت کاٹنے پر عدالت چلے گئے تھے کہ ان  کا زندہ ہم عصر شہید کیا گیا ہے۔

انتظار صاحب نے مذکورہ کالم میں کبیر کا شعر بھی نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے درختوں کے بیری بڑے پرانے ہیں:

بڑھئی آوت دیکھ کر ترور ڈالن لاگ

ہم کٹے تو اب کٹے، پکھیرو تو بھاگ

انتظار صاحب نے پنجاب یونیورسٹی کے باہر کٹنے والے درخت کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کیا ہے تو یونیورسٹی کے اندر اس نوع  کی واردات کی تخلیقی شہادت ڈاکٹر خورشید رضوی نے ‘اورینٹل کالج کے لیے ایک نظم’ میں دی  ہے :

جو آ کے کلاس رُوم کے پاس

بازو پھیلا کے رُک گیا تھا

بچوں پر اپنے جھک گیا تھا

برگد کا وہ پیڑ کٹ چکا ہے

لاشہ بھی یہاں سے ہٹ چکا ہے

انتظار صاحب کی درختوں سے محبت کا حوالہ ان کے کالموں تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ ادبی مضامین اور فکشن میں بھی درختوں کا مقدمہ لڑتے نظر آتے ہیں۔ یہ ان زمانوں کی بات ہے جب شہر اپنی جون بدل رہا تھا اور ترقی کے نام پر درختوں کی بیخ کنی ہو رہی تھی اور اس عمل سے آنے والے وقت میں شہر جس مصیبت میں گرفتار ہونے کو تھا اس کا ادراک کسی کسی کو تھا۔

1964 میں تحریر کردہ کالم کا حوالہ آپ دیکھ چکے ہیں۔ اب آجاتے ہیں شمس الرحمٰن فاروقی کے ‘ شب خون’ کی طرف جس کے جون 1972 کے شمارے میں انتظار حسین کا مضمون ‘ درخت اور افسانے’ شائع ہوا تھا۔ اس میں تخلیقی عمل اور درختوں کے تعامل پر بڑی پتے کی باتیں انہوں نے کی ہے۔

ان کی دانست میں شاعری اور افسانہ خالص انسانی ذریعہ اظہار نہیں ہیں بلکہ انہوں نے انسان اور غیر انسان کے سنجوگ سے جنم لیا ہے۔ ان کے خیال میں تخلیقی عمل صرف انسان سے سروکار پر منحصر نہیں ہوتا، فطرت کے مختلف عناصر تخیل کو بلندی عطا کرتے ہیں ۔ ان کے بقول ‘گیان دھیان اور تخیل کی تربیت برگد کی چھاؤں میں بھی ہو سکتی ہے اور پہاڑوں کی گپھاؤں میں بھی ، مگر کارخانے کی دیوار کے سائے میں نہیں ہو سکتی اور فلک بوس عمارتیں اونچے پہاڑوں کا بدل نہیں بن سکتیں۔’

انتظار صاحب درخت کاٹ کاٹ کر نئی سڑکیں بنانے اور پرانی سڑکوں کو وسیع کرنے کے مسئلے پر اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ترقی کے دوسرے مظاہر کے جلو میں آنے والی تباہی کا عکس اپنے آئینہ ادراک میں دیکھ کر فطرت کی سخت تعزیروں سے خبردار کرتے ہیں:

‘ہم اپنی فلک بوس عمارتوں ،شور مچاتے کارخانوں اور بھاری بھرکم مشینوں کے ساتھ ایک نئے عہد بربریت میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب نما بربریت کی بدولت تجربے کا منطقہ سکڑتا جا رہا ہے اور اطلاعات و معلومات کا جنگل پھیلتا جا رہا ہے… ہماری راہیں اتنی پرشور ہیں کہ کان پڑی آواز  سنائی نہیں دیتی۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے انسان اور غیر انسان کے درمیان مکالمہ ممکن نہیں رہا۔’

اس اقتباس سے علامہ اقبال اور احمد مشتاق کے شعر ایک ساتھ ذہن میں آئے ہیں جو بالترتیب ملاحظہ کیجیے:

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

دھویں  سے آسماں کا رنگ میلا ہوتا جاتا ہے

ہرے جنگل بدلتے جا رہے ہیں کارخانوں میں

انتظار حسین کے کالم اور مضمون سے گزر کر ہم نے ان کے ناول ‘ تذکرہ ‘ تک پہنچنا تھا کیونکہ اس سے ہم جان سکیں  گے کہ کمرشلائزیشن کا عذاب بستیوں پر کیسے اترتا ہے اور کس طریقے سے انہیں تاراج کر کے اپنی حکمرانی قائم کرتا ہے لیکن اس سے پہلے ‘ بستی’ کا خیال بھی آتا ہے جس میں ذاکر نیم کے پیڑ کی تلاش میں ہے اور اس کے دوست کا بیان ہے:

‘یہ سب درخت میرے دوست ہیں’

ایک دن ذاکر درخت دوست افضال سے  پوچھتا ہے یہاں نیم کا درخت نہیں ہوتا تو وہ اسے پارک کے ایک درخت کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیتا ہے کہ ‘ یہ رہا تمھارا نیم .

لیکن وہ نیم کے بجائے بکائن کا درخت نکلتا ہے ۔

نیم کو افضال زنانہ پیڑ گردانتا ہے اور برگد کی شان میں رواں ہو جاتا ہے کیوں کہ اس کی چھاؤں میں نروان ملتا ہے۔ ذاکر برگد کی گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں میں گھاس پر لیٹ کر تصورات کی دنیا میں کھو جاتا ہے:

‘مجھے اپنے گمشدہ پیڑ یاد آرہے تھے ۔ گمشدہ پیڑ ،گمشدہ پرندے ،گمشدہ صورتیں۔ نیم کے موٹے ٹہنے میں پڑا ہوا جھولا ،صابرہ، لمبے جھونٹے، نیم کی نبولی پکی، ساون کب کب آوے گا۔ بوندوں سے بھیگے گال پر گری ہوئی گیلی لٹ۔  جیوے موری ماں کا جایا۔ ڈولی بھیج بلاوے گا۔ دور کے پیڑ سے آتی ہوئی کوئل کی آواز ۔

نیم کا پیڑ بھی میں نے دریافت کر ہی لیا مگر کوئل کی آواز پہلے سنی ۔اس دیار میں وہ میرا پہلے پہل کوئل کی آواز سننا:

از کجا می آید ایں آواز دوست’

اس ایک اقتباس میں کتنے رنگ اور اسلوب سمو گئے ہیں۔

اب ہم آجاتے ہیں ‘تذکرہ’ پر جس میں سوانحی رنگ بھی شامل ہیں ۔ ناول میں الاٹمنٹ کے دھندے کا تذکرہ ہے۔ شہر کے کمرشلائزیشن کی لپیٹ میں آجانے کی بات ہے جس کے لیے درختوں پر آرے چلنا لازمی ہے ۔اس میں  ہاؤسنگ سوسائٹی بھی ہے اور خرانٹ پراپرٹی ڈیلر بھی۔ ناول میں ضیاء الحق کے زمانے کے لاہور کا نقشہ مصنف نے مؤثر اسلوب میں کھینچا ہے۔ اس میں پھانسیوں کو دیکھنے کے لیے جیل کے نواح میں اخلاق  کے گھر خلقت امنڈ آتی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد  شہر کی سہمی فضا کا بیان ہے۔ ڈائجسٹ کے مدیر کا اسلامی بینکاری کے بارے میں کتاب لکھنے کی تجویز پیش کرنا بدلے ہوئے حالات کا اشارہ ہے اور کرکٹ کے ایک سپر سٹار کا حوالہ بھی ناول میں موجود ہے۔ خاندانی قصے بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس پہلو دار ناول کے جس خاص پہلو پر ہم نے بات کرنی ہے وہ اس المیے کے بارے میں ہے جس نے نہ صرف شہر کے حسن کو گہنا دیا بلکہ شہریوں کے لیے اس کی فضا میں سانس لینا بھی دوبھر کر دیا ہے۔

ناول میں اخلاق  کے مالک مکان کا نام برکت الٰہی ہے۔  یہ آدمی چلتا پرزہ ہے۔ کوٹھی یہ الاٹ کرا چکا ہے۔ انارکلی میں ایک دکان اس کے نام ہے۔ ملتان میں پن چکی بھی چل رہی ہے۔ ادھر چراغ حویلی کا چشم و چراغ اخلاق کرائے کے مکانوں میں دھکے کھاتا ہے  لیکن بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار نہیں ۔

ایک دن مالک مکان بتاتا ہے کہ یہ جگہ کمرشل ایریا بننے والی ہے اور وہ اس کے ایک حصے میں دکانیں بنائے گا  جو سونا اگلیں گی۔ برکت الٰہی کے ارادوں کی بلندی سے اخلاق کو فکر دامن گیر ہوتی ہے جس سے مالک مکان اور کرایے دار میں یہ مکالمہ ہوتا ہے:

‘مگر یہ جو درخت کھڑے ہیں’

‘ان سب کو کٹوا دوں گا ‘

‘کیا؟ ان درختوں کو آپ کٹوا دیں گے’ میں حیران و پریشان اس کا منہ تکنے لگا ۔

‘ہاں اور کیا۔جگہ بیکار کیوں پڑی رہے اور اتنی اچھی جگہ۔’

میں بہت گھبرایا۔ مجھے فوراً ہی مولسری اور پیپل کا خیال آیا جن سے میں اتنا مانوس ہو گیا تھا۔

‘مگر یہ مولسری؟’

‘ہاں جی، اس مولسری نے بہت جگہ گھیر رکھی ہے؟’

میں پھر اس شخص کا منہ تکنے لگا۔

‘مگر یہ پیپل تو بہت پرانا ہے۔’

‘ہاں جی بہت پرانا ہو گیا ہے۔ اسے تو ویسے بھی کٹوا دینا تھا ۔ بس کل پرسوں میں انتظام کرتا ہوں ۔ جنگل بنا ہوا ہے۔ اسے سارے کو صاف کرا دینا ہے۔’

درختوں کے کٹنے کا صدمہ جھیلنے سے پہلے اخلاق اپنا بوریا بستر باندھ لیتا ہے۔ جس دن اسے  گھر چھوڑ کر جانا تھا، برکت الٰہی کے بندے آروں اور کلہاڑیوں کے ساتھ درخت گرانے صبح صبح پہنچ گئے۔ اخلاق کو ضد تھی کہ درخت پر وار ان کے سامنے نہیں ہو گا۔ یہ مطالبہ برکت الٰہی نے مان لیا اور اس کے بارے میں کلہاڑی والوں کا استعجاب یہ کہہ کر دور کیا :

‘یہ بابو کچھ سنکی ہے’

بات تو اس کی ٹھیک ہی تھی اس ملک میں  قبضہ گروپ ٹھہرے سیانے اور درختوں اور پرندوں سے محبت کرنے والے سنکی کہلاتے ہیں۔

اخلاق کے کردار کو جس طرح  اپنے سامنے کٹتے درخت دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہوا اس سے منشا یاد کے افسانے ‘درخت آدمی ‘  کے مالی کرمو کا خیال آتا ہے جو اپنے سامنے درخت کٹنے کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتا تھا، اس نے باغ کو تاراج ہوتے دیکھا اور حالات کے جبر نے اسے درخت کاٹنے پر مجبور کیا تو وہ اس ناتمام کوشش میں پورا ہو گیا :

‘درخت کرمو کی کمزوری تھے۔ وہ کسی بھی قسم کے درخت کو کٹتے یا گرتے نہ دیکھ سکتا تھا … جب کبھی وہ کسی درخت کے کٹنے کی خبر سنتا اسے اتنا ہی صدمہ ہوتا جتنا کسی عزیز کے مرنے پر ہو سکتا تھا ۔’

اب دوبارہ تذکرہ کی طرف مڑتے ہیں جس میں کسی علاقے کے کمرشل ایریا بننے کی آفت کا بیان ہے ۔ اس کی تعریف انتظار حسین نے یوں کی ہے:

‘کمرشل ایریا بھی عجب متعدی شے ہے۔ نئے شہروں میں آکاس بیل کی طرح پھیلتا ہے اور سرسبز علاقوں کو نگلتاچلا جاتا ہے۔”

یہ بیان ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے  عروج سے پہلے کا ہے اور اس زمانے کی داستان سنا رہا ہے جب ہوا کا رخ گلبرگ کی طرف تھا۔  اخلاق کی بیوی ‘آشیانہ’  بک جانے کی صورت میں گلبرگ میں کوٹھی تعمیر کرکے سٹیٹس بلند کرنے کا سوچ رہی ہے۔

اب گلبرگ کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے جو اسے آباد کرنے کے لیے دوسرے علاقوں کے ساتھ ہوا۔ یہ کمرشل ایریا بن گیا۔ بڑے بڑے پلازے بن گئے جن کی فلک شگاف عمارتوں کے بوجھ تلے یہ علاقہ  دب گیا ہے۔ بیچ بیچ میں کوئی کوٹھی اس طرح سے نظر آتی ہے جیسے رضیہ غنڈوں میں گھری ہو۔ اس کی ایک مثال 4k گلبرگ میں معروف سیاست دان اور دانشور ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کا وہ تاریخی گھر ہے جہاں کبھی پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

انتظار صاحب نے ‘تذکرہ’ میں جیل کے نواح میں گھر کو بنیاد بنا کر کہانی اپنے گھر کے گرد ہی بنی ہے  اور جیل روڈ سے بڑھ کر کون سی جگہ ہو گی جو کمرشل ایریا کے قالب میں ڈھلی ہو۔ اس کے بارے میں انتظار حسین کے نان فکشن سے ایک بیان ذرا دیکھیے:

‘میں گھر میں بند بیٹھا ہوں ۔ میرے گھر کے باہر جیل روڈ پر پھاوڑا بج رہا ہے کلہاڑا چل رہا ہے ۔ پرانی سڑک کھد رہی ہے ۔ نئی شاہراہ کا ڈول پڑ رہا ہے۔ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔  پدندے کتنے اس نواح سے اڑ گئے، کتنے اڑ جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔’

اب یہ وہ جیل روڈ ہے جسے اس سے ملحقہ وارث روڈ کی مکین خالدہ حسین نے اپنے افسانے ‘نام رکھنے والے’ میں  بہت صاف ستھری ،چوڑی اور خاموش سڑک لکھا ہے۔

اب ہم اس مسئلے کی طرف آجاتے ہیں جس نے ہمیں قلم اٹھانے پر اکسایا ہے۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک پیغام نظر سے گزرا جس میں لاہور کینال روڈ پر ٹھوکر نیاز بیگ سے ہربنس پورہ تک نئی میٹرو لائن کے  منصوبے کے لیے ممکنہ طور پر بڑی تعداد میں درخت کاٹے جانے پر تشویش ظاہر کی گئی تھی۔

لاہور کی نہر کے گرد ایستادہ درختوں پر پہلے بھی کاری وار ہوتے رہے ہیں۔ 2017  میں  کینال کشادگی پراجیکٹ کے چیف انجینئر نے ہربنس پورہ سے ٹھوکر نیاز بیگ تک 3 ہزار کے قریب درخت کاٹنے کا اعتراف کیا تھا۔ لاہور آخر یوں ہی تو دنیا کے  آلودہ ترین شہر کا درجہ حاصل نہیں کرتا۔ سموگ شہریوں کو جس اذیت میں مبتلا کرتی ہے اس کا احساس حکومت کو ہوتا تو کبھی درخت کاٹنے کا خیال بھی اسے نہ آتا۔ عجب بات   ہے کہ ماحول دوست بسیں درخت کاٹ کر سڑکوں پر دوڑائی جائیں گی۔

مجید امجد نے ساہیوال کی نہر کے کنارے درختوں کے کٹنے پر 1960 میں درد سے معمور  نظم لکھی تھی وہ لاہور نہر کے اردگرد درختوں کی بربادی کے لیے بھی حسب حال ہے:

توسیعِ شہر

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بِک گئے سارے ہرے بھرے اشجار

جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم

گِری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار

آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اِک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پہ بھی اب کاری ضرب اِک اے آدم کی آل

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

ادب افسانہ انتظار حسین درخت فطرت ماحولیات

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افسانہ ماحولیات کمرشل ایریا کے بارے میں درخت کاٹنے برکت ال ہی مال روڈ پر درختوں کے ناول میں کا حوالہ کے ساتھ کا خیال جاتا ہے رہے ہیں نہیں ہو کی طرف نہر کے کے لیے اور اس ہے اور گیا ہے مگر یہ رہا ہے

پڑھیں:

خطے کے استحکام کا سوال

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طورخم سرحد کو صرف افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دوبارہ کھولا ہے، جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آتی، سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے۔

اس وقت سیکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے ہیں اور امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انھیں افغانستان جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔

 ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں۔ جنگ کے حالات اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 6 نومبرکو جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے اپنی توقعات کا اظہارکیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان چند روز قبل ترکیہ میں امن مذاکرات ہوئے تھے، تاہم یہ مذاکرات طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث بری طرح ناکام رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں استنبول میں چار روزہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔

 بھارت کے بعد افغانستان نے جس طرح پاکستانی سرحدوں کو پامال کیا اور پاکستانی افواج نے جوابی حملہ کر کے طالبان اور فتنہ الخوارج اور ان کی سرحدی چوکیوں کو جس طرح تباہ کیا۔ اس سے انھیں حقیقت کا خاصا ادراک ہوگیا ہے لیکن بھارتی آشیر باد، فنڈنگ، سہولت کاری صورتحال کو نارمل ہونے میں حائل ہو رہی ہے۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ خطے میں امن کی بجائے بدامنی کا باعث بن رہا ہے، افغان ایک سیاہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ تاریخ اوراقوام عالم میں احسان فراموش محسن کش کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

پاکستان نے 40 سالوں تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کاروبار تعلیم صحت کے مواقعے فراہم کر کے انھیں اپنے شہریوں کے برابر حقوق و سہولیات مہیا کیں اور وطن عزیز میں بطور مہمان رکھا مگر ہماری مہمان نوازی کے جواب میں یہ لوگ واپس جاتے جاتے، اپنے گھروں خیموں یہاں تک مساجد کو بھی شہید کرکے جا رہے ہیں جو کہ اسلام دشمنی اور احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔

افغانوں کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو اس بات پر بھی خاص نظر رکھنی ہوگی یہ لوگ دوبارہ پاکستان واپس نہ آجائیں تو اس کے لیے ان کا ڈیجٹیل ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ اب افغانستان کا چترال سے نکلنے والے دریائے کنہڑکے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کرنا، بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا، ہندو بنیے سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا اور بھارت کے پیسوں سے پاکستان میں من پسند شریعت کے نفاذ کے دعوے، دین اسلام ،قرآن و سنت اور اللہ کے فرمان کے منافی سرگرمیاں ہیں۔

آج افغانوں کو اپنی منفی سرگرمیوں اور شرپسندی کے بھرپور جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ گو نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔

 سوویت افغان جنگ 1979سے لے کر 1989تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاکستان نے افغان فوج کا مکمل ساتھ دیا اور تعاون جاری رکھا جب کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بعد پاکستان پر دہشت گردانہ حملے اور دراندازیوں کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے جب کہ پاکستان نے سفارتی احتجاج کیے، دہشت گردی اور دراندازی کے ثبوت بھی فراہم کیے، وفود کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر افغانستان کی طرف سے ہمیشہ منفی رویہ اپنایا گیا۔

پاک افغان جنگ بندی اچھا عمل ہے مگر تاریخ کے مطابق افغان حکومت پر اعتبار کرنا کسی طور پر بھی خوشگوار نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت2.41 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے کوشاں ہے جب کہ یہی سی پیک دنیا کو 85.9 فیصد تجارتی راستوں سے جوڑتا ہے جو براہ راست چین، وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے، یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کے طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمیں دشمنوں کے بچھائے جال میں الجھنے اور پھنسنے کی بجائے اپنی اسٹرٹیجک صورتحال اور میلوں پر پھیلے قیمتی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں نئے دروازے کھولنے چاہیں اور پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، ماضی کے بوجھ تلے دبے رہ کر دونوں برادر ہمسایہ ممالک کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا دونوں کو بداعتمادی کی فضا ختم کرنا ہوگی۔ دانش مندانہ اور پائیدار حکمت عملی سے نئے، خود مختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

بھارت جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ماضی کی رنجشوں کو ابھارے گا، جب کہ وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ قونصل خانے بھی کھولنے جا رہا ہے، دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتی قربت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں، پاکستان کے افغانستان پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لیے اسے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتیت کی بجائے توازن کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ برادر ہمسایہ ملک جس کی غذائی ضروریات کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے، اسے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے سے ممکنہ حد تک روکا جا سکے تاکہ ملک کو جس دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کا سامنا ہے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔

 پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی اور انٹیلی جنس نمائندے ایک مشترکہ نظام کے تحت کارروائیوں کی نگرانی کریں تاکہ کسی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو، مگر افغان فریق نے اسے ’’ غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر تصدیق کے نظام سے خوف کیوں؟ دراصل طالبان حکومت داخلی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی شناخت چاہتی ہے، دوسری طرف ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے روابط توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکیہ اور قطر نے ثالثی کے طور پر ایک سمجھوتے کی صورت تجویز کیا کہ پہلے تکنیکی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں، بعد میں سیاسی معاملات طے کیے جائیں۔ یہ ایک قابل عمل تجویز تھی مگر کابل کے رویے نے اس کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔

مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دونوں فریقوں نے ’’تکنیکی سطح‘‘ پر رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یعنی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ مگر اعتماد کا فقدان اتنا گہرا ہے کہ کوئی پیش رفت تبھی ممکن ہے جب کابل اپنے وعدوں کو تحریری شکل دے۔ زبانی یقین دہانیوں اور مذہبی حوالوں سے اب کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ خود مختاری صرف ایک ملک کا حق نہیں، ایک ذمے داری بھی ہے۔ جب اس کے علاقوں سے پاکستان پر حملے ہوں تو وہ خودمختاری نہیں، لاپرواہی کہلاتی ہے۔

پاکستان نے اپنے عوام، فوج اور سفارت کاروں کی قربانیوں سے جو امن حاصل کیا ہے، اسے کسی دوسرے ملک کی کمزوریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازع میں ترکیہ اور قطرکا کردار امید کی کرن ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی برادری میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثالثی کا عملی تجربہ بھی ہے، اگر وہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیشن کے قیام میں کامیاب ہو گئے تو شاید مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ممکن ہو۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استنبول مذاکرات مشکلات کا شکار ضرور ہوئے مگر انھوں نے پاکستان کے اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف کو بین الاقوامی سطح پر واضح کر دیا۔ اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔

مگر ایسا امن جو احترامِ خود مختاری، تصدیق شدہ عمل اور دہشت گردی سے پاک ہمسائیگی پر مبنی ہو۔ افغانستان کے حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے خول میں بند رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔

پاکستان کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، مگر شرط وہی ہے ’’امن کے بدلے امن۔‘‘ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، پاک افغان جنگ بندی معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اگر اس معاہدے پر من و عن عملدرآمد ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امن و امان کے عوض سکھ کا سانس نصیب ہوگا اور خطے میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • ماہرین نے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کا حل بتا دیا
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد