یہ سوات کی وادی جو اپنی خوبصورتی اور دلفریب نظاروں کے لیے مشہور ہے، آج وہاں وحشت طاری ہے۔ کبھی برف پوش پہاڑ پہ زندگی کا راز چھپا ہوتا تھا، کبھی ندی نالوں کی گونج میں انسان کا کلام، اس بار وہاں صرف بے بسی تھی، درد تھا، سسکیاں تھیں۔ جون کے آخری ہفتے میں ایک ہی خاندان کے سترہ افراد تفریح کی غرض سے گئے اور اس وادی سے نہیں لوٹے۔ یہ عام لوگ تھے جو وہاں پانی کے ریلے میں کئی گھنٹے پھنسے رہے اور مدد کے لیے پکارتے رہے مگر کوئی ان کی مدد کو نہ آیا۔
وہ آخر وقت تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اس امید میں رہے کہ انھیں بچا لیا جائے گا لیکن ریاست کی مشینری خاموش تھی۔ انتظامیہ نے بعد میں یہ بیان دیا کہ ریسکیو ٹیمیں بھیجی گئیں، ہم نے کوشش کی مگر موسم خطرناک تھا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس دن حکومت اور ارباب اختیار کی نااہلی کی وجہ سے وہ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔
یہ سانحہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی حکومت اور ارباب اختیار اس ہی طرح غیر ذمے داری کا ثبوت دیتے آئے ہیں۔ یہ واقعہ صرف سوات کا نہیں یہ ہمارا قومی المیہ ہے۔اور پھر سوال اٹھتا ہے کیا یہ ریاست ہے یا صرف ایک لفظ ہے کیونکہ ریاست کی کچھ ذمے داریاں ہوتی ہیں اور ریاست عوام کو جوابدہ ہوتی ہے۔
آپ ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرسکتے ہیں، چاند پر مشن بھیج سکتے ہیں لیکن سیلابی باڑ میں پھنسے انسانوں کو نہیں نکال سکتے، غریب کے لیے صرف افسوس باقی رہ جاتا ہے۔ چند دنوں میں لوگ اس واقعے کو بھول جائیں گے مگر جن معصوم اور بیگناہ لوگوں کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا، ان کا خاندان یہ کبھی بھلا نہیں سکے گا۔ ہم کچھ عرصے بعد پھر کوئی ایسی خبر سن رہے ہوں گے کیونکہ ہمارے ہاں حکومت یا ارباب اختیار کو کٹہرے میں تو کوئی کھڑا کر نہیں سکتا۔
ان میں ایک ماں، ایک باپ، ایک بھائی، ایک بیٹا تھے۔ ان کی موت ہم سے سوال کر رہی ہے کہ ہم کیوں خاموش ہیں؟ کیا ہم نے دیکھا سنا اور سن کر ان سے سوال کیا جن کی خاموشی اور بے حسی کی بدولت یہ واقعہ رونما ہوا۔ ہماری ریاست کا چلن ہے، وہ طاقتور کے لیے تو کچھ بھی کر گزرے مگر عام آدمی کے لیے اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ابھی بھی حکومت نے افسوس کا اظہار کیا اور بس ان کی نظر میں ان کی ذمے داری پوری ہوگئی۔ ریاست کا کام ہے کہ وہ عوام کے لیے ہر وقت اور ہر حال میں موجود رہے اور اپنی ذمے داری کو نبھائے۔ حکومت ذمے دار ہوتی ہے اور ریاستی مشین کو عوام کے لیے ہر حال میں حرکت کرنا چاہیے۔
ہم جانتے ہیں کہ فلڈ الرٹس سسٹم موجود ہے، ڈرون موجود ہیں، ہیلی کاپٹر موجود ہیں لیکن یہ سب اس دن کہاں تھے؟ کیونکہ جب کوئی سرکاری اہمیت کا معاملہ ہوتا ہے تو یہ سب فوراً حرکت میں آجاتے ہیں، طاقتور کی پکار ہوتی ہے عوام کی نہیں۔ لوگ کچھ دن اس سانحے پہ بات کریں گے اور پھر خاموشی چھا جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس خاموشی کو قبول کرلیا ہے؟ کیونکہ اگر ہم نے قبول کر لیا ہے تب ہمیں تیار رہنا ہوگا کہ ہمارے ساتھ یہی سب ہوگا، اگر ہمارے پاس ریاست ہے تو ریاست کی کچھ ذمے داری ہوتی ہے اور آج پاکستانی عوام اپنی ریاست اور ارباب اختیار سے سوال کررہے ہیں کہ جب عوام کو اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ تب کہاں ہوتے ہیں۔
یہ کالم ایک احتجاج ہے یہ سوال ہے ریاست سے، سماج سے، ہم سب سے کہ آخر یہ بے حسی، یہ ظلم کب تک۔ریاست کو ہمارے سوالوں کا جواب دینا ہوگا اور اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی، ہم کب تک لاوارث ہو کر جیئیں۔ ورنہ ہم ایک بے عمل ریاست کے زیر سایہ جیتے رہیں گے، وہ ریاست جو الفاظ میں تو موجود ہے مگر عمل کی دنیا میں کہیں کھو گئی ہے۔
وہ ریاست جو سترہ لوگوں کو ڈوبتا دیکھتی ہے اور اپنا سر جھکائے بیان دے دیتی ہے لیکن پھر چپ ہو جاتی ہے، یہ ریاست خود کو بچانا جانتی ہے مگر عوام کو خطرہ میں چھوڑ دیتی ہے۔اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں اس خاموشی کے بیچ بولنا ہوگا، سوال کرنا ہوگا، اداروں کو ذمے دار ٹھہرانا ہوگا اور انصاف کے لیے لڑنا ہوگا۔ ہم صرف مایوس ہوکر نہیں رہ سکتے، ہماری ریاست زندہ ہے یا مردہ ہمارے درد اور خوشی میں ہماری ساتھ ہے یا نہیں۔
ہمارا حق ہے کہ ہم سوال کریں اور انصاف مانگیں ریاست کی خاموشی ناقابل قبول ہے، اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ آیندہ کوئی ایسا سانحہ نہ ہو تو ریاست کو اور ارباب اختیار کو جواب دینا ہوگا اور عوام کے لیے اپنی ذمے داری کو بہ خوبی نبھانا ہوگا۔ کیا ہم واقعی اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ بے گناہوں کے جنازے بھی ہماری بے حسی کو نہیں ہلا سکتے۔ کیا ان گھروں کے سناٹے کو ہم سننے کے قابل نہیں رہے جہاں ایک ہی وقت میں سترہ پیارے پانی کا ریلہ بہا کر لے گیا ہو اور وہ بھی ان کے پیاروں کی آنکھوں کے سامنے۔
میں سوچتی ہوں جب وہ پانی کے بیچ کھڑے سترہ لوگ آخری لمحوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رہے تھے تو کیا ان کے دل میں یہ خیال آیا ہوگا کہ ریاست انھیں بچانے آرہی ہے یا شاید وہ جان چکے تھے کہ کوئی نہیں آئے گا۔ یہ المناک واقعہ ایک آئینہ ہے ہمارے نظام کا، ہماری حکومت کا، ہمارے ضمیر کا۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا کیا ہم واقعی ایک ریاست رکھتے ہیں؟ یا ہماری ریاست صرف طاقتور اور بااثر لوگوں کے لیے ہے، عام لوگوں کے لیے نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور ارباب اختیار ریاست کی ہوتی ہے سوال کر سے سوال ہے اور اگر ہم ہیں کہ کیا ہم
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔