شاہ رخ خان نے شوبز کیریئر کے آغاز میں فلموں میں کام کرنے سے انکار کیوں کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, November 2025 GMT
بالی ووڈ کنگ شاہ رخ خان جو تقریباََ 3 دہائیوں سے بھارتی فلم انڈسٹری پر راج کرتے نظر آ رہے ہیں ان کے بارے میں یہ بات جان کر کئی لوگ حیران ہوں گے کہ اُنہوں نے ابتداء میں فلموں میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اداکار و پروڈیوسر وویک واسوانی نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ شاہ رخ خان اپنے شوبز کیریئر کے آغاز میں مالی مشکلات سے گزر رہے تھے، وہ وقت ان کے لیے بہت زیادہ مشکل تھا کیونکہ انہیں اپنی بیمار ماں اور بہن کا خیال بھی رکھنا تھا۔
اُنہوں نے بتایا کہ ایک دن شاہ رخ خان کی مجھے کال آئی کہ ان کی والدہ کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی اور اُنہیں والدہ کے لیے دوائیں خریدنی ہیں تو میں نے اپنے والد سے کچھ پیسے لیے اور دوائیں خرید کر دہلی بھجوا دیں۔
وویک واسوانی نے مزید بتایا کہ دوائیں بھجوانے کے بعد میں خود بھی شاہ رخ کی والدہ کی عیادت کے لیے دہلی گیا مگر وہ طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے مجھے سے بات نہیں کر سکیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ اس مشکل وقت میں پروڈیوسر وکرم ملہوترا نے شاہ رخ خان کو ایک فلم کی پشکش کی جسے اداکار نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا، ’میں فلموں میں کام نہیں کرنا چاہتا‘۔
وویک واسوانی نے بتایا کہ شاہ رخ خان نے مجھ سے کہا کہ میں فلموں میں کام کرنے سے انکار اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ گوری خان کو میرا اداکاراؤں کے زیادہ قریب جانا پسند نہیں تو میں صرف ٹی وی ڈراموں میں ہی کام کروں گا۔
اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ انکار کے باوجود بھی وکرم ملہوترا نے شاہ رخ خان کو اپنے ساتھ شوٹنگ پر 3 دن کے لیے شملا چلنے کے لیے راضی کرلیا جہاں ان کی ملاقات کیتن مہتا سے ہوئی۔
وویک واسوانی نے بتایا کہ کیتن مہتا نے شاہ رخ خان کو فلم ’مایا میم صاحب‘ میں کام کرنے کی پیشکش کی جسے اداکار نے اس لیے قبول کرلیا کیونکہ فلم آرٹ پر مبنی تھی اور ٹی وی ڈراموں سے بہت ملتی جلتی تھی۔
واضح رہے کہ شاہ رخ خان نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے سے پہلے اپنے شوبز کیریئر کا آغاز ٹیلی ویژن سے کیا۔
اُنہوں نے فلموں میں اپنی اداکار کا جادو جگانے سے پہلے فوجی، امید، احمق، واگلے کی دنیا اور سرکس جیسے مشہور ٹیلی ویژن شوز میں کام کیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: میں فلموں میں کام میں کام کرنے نے بتایا کہ شاہ رخ خان ا نہوں نے کے لیے خان کو
پڑھیں:
آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلیے اسٹرکچرل اصلاحات مکمل کرنا ہوں گی، وزیر خزانہ
اسلام آباد:وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اگر موجودہ اسٹرکچرل اصلاحات مکمل نہ کی گئیں تو آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
وفاقی وزراء اویس لغاری، شزہ فاطمہ خواجہ، چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری خزانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پائیدار معاشی ترقی کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں، اصلاحات کی تکمیل سے ہی معاشی خودمختاری اور پائیدار ترقی ممکن ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ریاستی ملکیتی اداروں میں بڑی اصلاحات کی گئی ہیں اور وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پر تیزی سے کام جاری ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ سعودی عرب، چین اور خلیجی ممالک نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔
قرضوں کی واپسی، بانڈز کا اجرا اور پنشن اصلاحات
سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے بتایا کہ رواں مالی سال میں 8.3 ٹریلین روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 9.8 ٹریلین روپے کے قرضے واپس کیے جائیں گے۔ اب تک 2.6 ٹریلین روپے کے قرضے واپس ہو چکے ہیں۔
امداد اللہ بوسال نے کہا کہ جلد پانڈا بانڈ اور بعد ازاں یورو بانڈ جاری کیے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ نئے ملازمین کو ڈائریکٹ کنٹری بیوشن پنشن اسکیم کے تحت بھرتی کیا جا رہا ہے، اور اس مقصد کے لیے ایک کمپنی قائم کی جا رہی ہے۔
سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ افواج میں ریٹائرمنٹ جلدی ہو جاتی ہے، اس لیے مسلح افواج کے لیے بھی ڈائریکٹ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم پر کام جاری ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک میں یہی اسکیم لائی گئی تھی مگر بعد میں واپس لینا پڑی۔
چیئرمین ایف بی آر کی بریفنگ
ایف بی آر کی کارکردگی اور اصلاحات سے متعلق چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے بتایا کہ انکم ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ انکم ٹیکس کا مجموعی گیپ 1.7 ٹریلین روپے ہے، جس میں سے ٹاپ پانچ فیصد کا حصہ 1.2 ٹریلین روپے بنتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ہر منگل کو ایف بی آر کا احتساب کرتے ہیں جس سے ادارے کو سپورٹ ملتی ہے۔ ٹوبیکو سیکٹر میں کارروائیوں کے دوران ایف بی آر کے دو اہلکار شہید ہوئے، جبکہ رینجرز مکمل تعاون فراہم کر رہی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر کے مطابق ادارے میں گورننس کے حوالے سے بڑی اصلاحات کی گئی ہیں، افسران کو اے، بی اور سی کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ایف بی آر کو سیاسی و انتظامی اثر و رسوخ سے آزاد کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹائزیشن کے باعث شوگر سیکٹر سے 75 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوا، جس میں 42 ارب روپے سیلز ٹیکس اور 43 ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں حاصل کیے گئے۔ ریٹیلرز سے حاصل ہونے والا ٹیکس 82 سے بڑھ کر 166 ارب روپے ہوگیا ہے۔
توانائی شعبے میں اصلاحات
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ ہمیں مہنگی بجلی وراثت میں ملی، جس کی لاگت 9.97 روپے فی یونٹ ہے۔ روپے کی بے قدری اور کیپیسٹی چارجز کے باعث بجلی مہنگی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر انڈسٹری کے لیے بجلی 16 روپے فی یونٹ سستی کی گئی۔ سرپلس بجلی عوام کو 7.5 روپے فی یونٹ کے حساب سے پیشکش کی جا رہی ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ حکومت بجلی کی خرید و فروخت کے کاروبار سے باہر آرہی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر 1.2 کھرب روپے کا سرکلر ڈیٹ ختم کیا جا رہا ہے۔ پاور پلانٹس کے مالکان سے مذاکرات کے ذریعے 2058 تک 3600 ارب روپے کی اضافی ادائیگی روکی گئی۔
نجکاری
وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی نے کہا کہ نجکاری کمیشن کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا ہے اور نجکاری پروگرام 2024 میں 24 ادارے شامل کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری سرفہرست ہے اور اس کی خریداری کے لیے چار کنسورشیم دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ہدف ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری رواں سال کے آخر تک مکمل ہو۔
محمد علی نے کہا کہ 39 میں سے 20 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ مکمل ہوچکی ہے، 54 ہزار آسامیاں ختم کر دی گئی ہیں جس سے 56 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ پاسکو اور یوٹیلیٹی اسٹورز بند کیے جا رہے ہیں جبکہ نیشنل آرکائیو آف پاکستان سمیت اہم اداروں کو مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔
وزیر مملکت انفارمیشن ٹیکنالوجی
وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا کہ وزیراعظم کیش لیس اکانومی کے فروغ کے لیے باقاعدہ اجلاس کر رہے ہیں۔ تین کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، جن میں سے ایک ان کی سربراہی میں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نیشنل ڈیٹا ایکسچینج لیئر کا پائلٹ پراجیکٹ دسمبر میں متعارف کرایا جائے گا جس سے ٹیکس نیٹ بڑھے گا اور لیکج میں کمی ہوگی۔
شزہ فاطمہ نے کہا کہ پاکستان کی 400 ارب ڈالر کی معیشت دراصل 800 ارب ڈالر کی ہوسکتی ہے کیونکہ نصف حصہ انفارمل اکانومی پر مشتمل ہے۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ جون 2026 تک ڈیجیٹل پیمنٹس کو 20 لاکھ صارفین تک بڑھایا جائے گا۔