سوات کا دلخراش واقعہ، کیا صرف حکومت ذمہ دار ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
سوات میں گزشتہ جمعہ کے روز پیش آنے والے ایک حالیہ واقعے نے ملک بھر میں صدمے کی لہریں بھیجی ہیں، جس نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے موثر انتظام اور تیاری کی اشد ضرورت کو اجاگر کیا۔
اس افسوس ناک واقعہ میں سیلابی ریلے میں 13 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ متعدد لاپتہ ہیں۔ عینی شاہدین نے اطلاع دی ہے کہ مقامی لوگوں کو اپنی جان بچانے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا، حکام یا ریسکیو ٹیموں کی جانب سے فوری طور پر کوئی مدد نہیں پہنچی۔
اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ علاقے کے بہت سے لوگوں نے جان بچانے کے لیے کارروائی کرنے کے بجائے اپنے کیمروں اور فونز پر ہونے والی تباہی کو قید کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔
دریا کے کنارے واقع ہوٹل، جو سیلابی پانی سے براہ راست متاثر ہوا تھا، یہاں تک کہ انتہائی بنیادی آلات، جیسے رسی یا لائف جیکٹس، مصیبت میں مبتلا افراد کو بچانے کے لیے موجود نہیں تھے۔
یہ واقعہ اس بات کی ایک واضح یاد دہانی ہے کہ پاکستان کو قدرتی آفات کی تیاری اور ردعمل کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے، خاص طور پر سوات جیسے سیلاب زدہ علاقوں میں۔
کیا صرف کے پی حکومت زمہ دار ہے ؟اس دلخراش واقعے کے عوامل کے ایک پیچیدہ situation کو نمایاں کرتے ہیں، جس سے صرف خیبر پختونخواہ (کے پی) کی حکومت پر الزام لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے بجائے، مختلف اسٹیک ہولڈرز کے کردار پر غور کرنا ضروری ہے۔
حکومت:
حکومت کی ذمہ داری میں مؤثر آفات سے نمٹنے، بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی، اور ضابطے کے نفاذ کو یقینی بنانا شامل ہے۔ اس صورت میں، حکومت کے ردعمل، تیاری اور نگرانی پر یقینی طور پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔
نظام:
نظام سے مراد وسیع تر ادارہ جاتی فریم ورک ہے، بشمول:
ریگولیٹری فریم ورک:
کیا ایسے واقعات کو روکنے کے لیے مناسب قوانین اور ضابطے موجود تھے؟
انفراسٹرکچر پلاننگ:
کیا ہوٹل کی تعمیر اور مقام حفاظتی معیارات اور ضوابط کے مطابق تھے؟
ایمرجنسی رسپانس سسٹم:
کیا ایمرجنسی ریسپانس سسٹم موجود تھے، اور کیا وہ موثر تھے؟
عوامی:
عوام کے کردار میں شامل ہیں:
آگاہی اور تعلیم:
کیا لوگ ایسے واقعات کے خطرات اور نتائج سے واقف تھے؟
کمیونٹی کی شمولیت:
کیا مقامی کمیونٹی نے واقعے کو روکنے یا اس پر ردعمل دینے کے لیے کوئی اقدام یا اقدام کیا ؟
انفرادی ذمہ داری:
کیا افراد نے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کیں یا ممکنہ خطرات کے پیش نظر ذمہ داری سے کام کیا؟
حقیقت میں، سوات کا واقعہ ممکنہ طور پر ان عوامل کے مجموعہ کا نتیجہ ہے۔ صحیح وجوہات اور ذمہ داریوں کا تعین کرنے کے لیے ایک مکمل چھان بین اور تجزیہ ضروری ہوگا۔
مستقبل میں اسی طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے، یہ ضروری ہے کہ:
ریگولیٹری فریم ورک کو مضبوط بنائیں:
اس بات کو یقینی بنائیں کہ غیر محفوظ تعمیرات اور طریقوں کو روکنے کے لیے قوانین اور ضوابط موجود ہیں۔
بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی کو بہتر بنائیں:
اس بات کو یقینی بنائیں کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی حفاظت کو ترجیح دیتی ہے اور ضوابط کی پابندی کرتی ہے۔
عوامی بیداری اور تعلیم کو بڑھانا:
عوام کو آفات کے خطرات، روک تھام اور ردعمل کے بارے میں آگاہ کریں۔
کمیونٹی کی شمولیت کو فروغ دینا:
ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور روک تھام کی کوششوں میں کمیونٹی کی شرکت کی حوصلہ افزائی کریں۔
انفرادی ذمہ داری کو فروغ دیں:
افراد کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنی حفاظت اور دوسروں کی حفاظت کی ذمہ داری لیں۔
اس میں شامل پیچیدگیوں اور باہمی انحصار کو تسلیم کرتے ہوئے، ہم ایک زیادہ لچک دار اور تیار معاشرہ بنانے کی سمت کام کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی موجودہ صورتحالپاکستان کی معیشت پہلے ہی بڑھتی ہوئی افراط زر، گرتی ہوئی برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی آمد کی ضرورت سے نبرد آزما ہے۔ سیلاب اور قدرتی آفات کا اضافی بوجھ معاشی بدحالی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
بنیادی تربیت کی اہمیت
ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں بنیادی تربیت شہریوں کو ہنگامی حالات کے دوران مؤثر طریقے سے جواب دینے کے لیے بااختیار بنا سکتی ہے۔ اس میں شامل ہیں:
سیلاب سے انخلا کے طریقہ کار:
انخلا کے راستوں، محفوظ علاقوں اور ہنگامی پناہ گاہوں کو سمجھنا جانیں بچا سکتا ہے۔
فرسٹ ایڈ اور طبی دیکھ بھال:
بنیادی طبی دیکھ بھال اور ابتدائی طبی امداد فراہم کرنا زخموں کو مہلک ہونے سے روک سکتا ہے۔
ریسکیو آپریشن:
جانیں کہ سیلاب کے پانی یا ملبے میں پھنسے لوگوں کو کیسے بچایا جائے جانیں بچانے میں اہم ثابت ہوسکتا ہے۔
آرمی ریسکیو اور میڈیکل ٹیمیں
ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں آرمی ریسکیو اور میڈیکل ٹیموں کا کردار اہم ہے۔ ان کی تربیت اور مہارت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے:
ایمرجنسی ریسپانس فراہم کریں:
آرمی ریسکیو ٹیمیں ہنگامی صورت حال کا فوری جواب دے سکتی ہیں اور آفات کے دوران اہم مدد فراہم کرسکتی ہیں۔
طبی نگہداشت:
طبی ٹیمیں ضروری طبی نگہداشت فراہم کرسکتی ہیں، جس سے ہلاکتوں اور چوٹوں کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔
دوسرے ممالک کی مثالیںبہت سے ممالک نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی حکمت عملیوں کو کامیابی کے ساتھ نافذ کیا ہے، جس میں شہریوں کے لیے بنیادی تربیت شامل کی گئی ہے اور فوج کی ریسکیو اور طبی ٹیموں کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر:
جاپان
جاپان کے پاس ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم ہے جس میں عام شہریوں کے لیے باقاعدہ مشقیں اور تربیتی پروگرام ہوتے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ:
ریاست ہائے متحدہ میں ایک مضبوط ایمرجنسی رسپانس سسٹم ہے، جس میں فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی (FEMA) جیسی تنظیمیں مقامی حکام اور ہنگامی جواب دہندگان کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔
آخر میں، پاکستان کو سیلاب اور قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور شہریوں کی بنیادی تربیت کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔
فوج کی ریسکیو اور میڈیکل ٹیموں کا فائدہ اٹھا کر اور بین الاقوامی بہترین طریقوں سے سیکھ کر، پاکستان آفات کے معاشی اور انسانی اخراجات کو کم کر سکتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اور نجی شعبے ایک ساتھ مل کر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی ایک جامع حکمت عملی تیار کریں، جس میں عام شہریوں کے لیے بنیادی تربیت اور مؤثر ہنگامی ردعمل کا نظام شامل ہو۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈیزاسٹر مینجمنٹ بنیادی تربیت ریسکیو اور قدرتی آفات کو روکنے سکتا ہے آفات کے کے لیے
پڑھیں:
سوات واقعہ، دریامیں ڈوبنے والے ایک اور سیاح کی لاش نکال لی گئی، جاں بحق افراد کی تعداد 10 ہو گئی
سوات (ڈیلی پاکستان آن لائن ) دریائے سوات میں ڈوبنے والے ایک اور سیاح کی لاش نکال لی گئی جس کے بعد جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 10 ہو گئی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق کل صبح دریائے سوات میں اچانک ریلے سے مختلف مقامات پر 70 افراد پھنس گئےتھے جن میں سے 55کو ریسکیوکرلیاگیا تھا اور باقی کی تلاش جاری تھی۔اب بتایا جارہا ہے کہ دریائے سوات میں ڈوبنے والے ایک اور سیاح کی لاش نکال لی گئی ہے جس کے بعد جاں بحق افراد کی تعداد 10 ہوگئی ہے جب کہ 3 افراد کی تلاش جاری ہے۔
کل صبح سوات بائی پاس کے مقام پر دریاکےکنارے ہوٹل پر ناشتہ کرنے والی چند فیملیز دریاکے خشک حصے میں اتری تھیں کہ اچانک ریلہ آیا اورسب کو بہا لے گیا تھا ۔ریسکیو کے مطابق سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والا متاثرہ خاندان سوات سیر کے لیے آیا تھا جو دریا کے کنارے بیٹھا ناشتہ کررہا تھا تاہم اسی دوران بارش کی وجہ سے دریا میں تیز بہاؤ ہوا اور ایک ہی خاندان کے 10 افراد بہہ گئے تھے۔
نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کا مقدمہ مؤخر کرنے کی درخواست مسترد
موسمیاتی تبدیلی، درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ اور تیزی سے گلیشیئرز پگھلنے کے باعث دریاؤں میں اچانک ریلے کا آجانا اب معمول بنتاجارہا ہے۔
مزید :