اسرائیل مقبوضہ علاقے واپس نہیں کرے گا، وزیر خارجہ گیڈون
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ پڑوسی ممالک لبنان اور شام کے ساتھ امن معاہدے کرنا چاہتاہے لیکن مقبوضہ علاقے واپس نہیں کرے گا۔
پیر کو آسٹریا کے ہم منصب کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے کہا کہ ان کی حکومت عرب ممالک کے ساتھ معاہدے کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل امن اور معمول پر لانے کے ابراہم معاہدے کے دائرے کو بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
گیڈون سار نے امریکا کی ثالثی میں ہونے والے معاہدوں کے بارے میں کہا کہ اسرائیل نے سنہ 2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ دستخط کیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب سے اسرائیل نے سنہ 1967 میں گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کیا اس وقت سے اسرائیل اور شام کے درمیان تناؤ چلا آ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے اسے اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کیا گیا مگر اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہاکہ مستقبل کے کسی بھی امن معاہدے کے تحت یہ علاقے ریاست اسرائیل کا حصہ رہیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دسمبر میں شام میں بشار الاسد کی معزولی کے بعد اسرائیل نے گولان کے غیر فوجی علاقے میں افواج کو اتارا اور شام میں فوجی اہداف پر سینکڑوں حملے کیے ہیں۔
وزیر خارجہ سار نے کہا کہ ہم اپنے پڑوسی ممالک شام اور لبنان کو امن اور معمول کے دائرے میں شامل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسرائیل کے ضروری اور سیکیورٹی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اسرائیل اور مقبوضہ علاقے اسرائیلی وزیر خارجہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل اسرائیل اور مقبوضہ علاقے اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل نے نے کہا کہ
پڑھیں:
ایران سے مذاکرات کا دروازہ اب بھی کھلا ہے: فراسیسی وزیر خارجہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
فرانس کے وزیر خارجہ جان نوئل بارو نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا موقع اب بھی موجود ہے، اگرچہ اقوام متحدہ کی پابندیاں نافذ ہو چکی ہیں۔
عالمی خبررساں ادارے کے مطابق العربیہ اور الحدث کو خصوصی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ میکانزم آف اسنیپ بیک کو فعال کرنا اس بات کا مطلب نہیں کہ بات چیت کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیرس اور اس کے شراکت دار مذاکرات کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ تہران سنجیدہ ضمانتیں فراہم کرے۔ یہ گفتگو انہوں نے العلا میں ہونے والی میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر کی۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کہا تھا کہ اگر ان کے ملک پر عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں تو مذاکرات اور مکالمے کا امکان موجود ہے۔
امریکی چینل “این بی سی” کو دیے گئے انٹرویو میں بزشکیان نے کہا کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار بنانے کا خواہاں نہیں رہا۔ ان کے مطابق مغرب دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ تہران اس سمت بڑھ رہا ہے، لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے کہا: “ہم ہر طرح کی بین الاقوامی نگرانی کے لیے تیار ہیں۔”
یورپی ٹرائیکا نے ایران کے جوہری اور بیلسٹک پروگرام کے خلاف اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کر دیا ہے۔
اس حوالے سے ایرانی صدر بزشکیان نے وضاحت کی کہ اگر اس عمل کو روکا جاتا تو عالمی معائنہ کار تمام متاثرہ جوہری تنصیبات کا دورہ کر سکتے تھے، لیکن چونکہ یہ پیشکش مسترد کر دی گئی اس لیے زناد کا عمل آگے بڑھایا گیا۔
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ یورپی ممالک چاہتے تھے کہ ایران امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرے، تاہم امریکہ نے پہلے ہی شرائط مسلط کر دیں۔ ان کے مطابق: “جب کوئی فریق یہ کہے کہ پہلے ہماری شرائط مانو، پھر بات کریں گے، تو یہ مذاکرات نہیں کہلاتے، اسی لیے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔”
بزشکیان نے کہا کہ ایران امریکی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتا ہے اور پابندیاں ختم ہوتے ہی مذاکرات ممکن ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایران یورینیم کی افزودگی روکنے اور جوہری ہتھیار بنانے کی کسی بھی کوشش سے دستبردار ہونے پر تیار ہے، تو انہوں نے جواب دیا: “یقیناً، ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں ہتھیار نہیں بنانے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم تمام بین الاقوامی فریم ورک کے تحت تعاون پر آمادہ ہیں”۔